غزل برائے اصلاح

الف عین
یاسر شاہ
عظیم
تابش صدیقی
فلسفی
غزل برائےاصلاح و تنقید
اساتذہ اکرام سے اصلاح کی گذارش ہے
اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔
وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔
جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔
جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔
سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا
ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔
جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔
برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔
ہر طور زمانے کے اشاروں پہ کِیا رقص۔
سجاد شکستہ ہوں کہ سنبھلا نہیں جاتا۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
الف عین
یاسر شاہ
عظیم
تابش صدیقی
فلسفی
غزل برائےاصلاح و تنقید
اساتذہ اکرام سے اصلاح کی گذارش ہے
اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔
وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔
جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔
جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔
سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا
ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔
جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔
برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔
سر الف عین یاسر شاہ
قوافی کچھ گڑ بڑ نہیں؟
 

فلسفی

محفلین
فلسفی بھائی اور شعرا نے بھی ایسے قوافی استعمال کیے ہیں
بھائی مجھے ایسے ہی شک گزرا ہے اس لیے وثوق سے نہیں کہا۔ ویسے شعراء کے کلام میں بھی ایطا ہوتا ہے لیکن مبتدی کو خیال اس لیے رکھنا چاہیے ہے کہ وہ مستقل اس غلطی کو اپنا نہ لے۔ دیکھتے ہیں استاد محترم کیا فرماتے ہیں۔
 
بھائی مجھے ایسے ہی شک گزرا ہے اس لیے وثوق سے نہیں کہا۔ ویسے شعراء کے کلام میں بھی ایطا ہوتا ہے لیکن مبتدی کو خیال اس لیے رکھنا چاہیے ہے کہ وہ مستقل اس غلطی کو اپنا نہ لے۔ دیکھتے ہیں استاد محترم کیا فرماتے ہیں۔
فلسفی بھائی آپ نے بجا فرمایا میرے خیال سے قوافی جیسے نکالا اچھالا سنبھالا نکالا میں انڈر لائین حروف قوافی ہیں اور میں نے جو قوافی استعمال کیے ہیں
سمیٹا دیکھا سنبھالا اترا ٹھہرا رستہ ان میں یہ حروف بطورِ قوافی استعمال کیے ہیں اب استاد محترم جو رائے دیں گے وہ حتمی ہو گی
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

قافیہ درست ہے عظیم بھائی عرف فلسفی :)

اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔

سمیٹنا تو بکھری ہوئی چیز کے لئے ہوتا ہے -

وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔

بات کو واضح کر دیں -

کیا پار کرے گا بھلا وہ عشق سمندر
گرداب میں گھر جائے تو نکلا نہیں جاتا


جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔

تھوڑی سی تبدیلی کردیں :

جس شہر کی مٹی میں نہ ہو اپنوں کی خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔


جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔

عشوہ گری سے سنورنا ؟ دوبارہ فکر کریں -

سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا

دوسرا مصرع وزن میں نہیں -یوں درست ہو جائے گا :" رہ چلتے کسی کو کبھی پرکھا نہیں جاتا"
اور شعر میں بھی خاص جان نہیں -

ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔

قوسِ قزع=قوس قزح
پہلے مصرع میں "میں "کی کمی ہے اور دوسرے میں رنگ کا سنبھالنا نہیں جچتا -

جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔

مجھے تو درست لگا -

برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔

ایک تجویز ہے بجائے خبر کے دعائیہ سا انداز اپنا لیں :

برباد محبّت ہوں خدا کیا مرے گھر سے
آباد نگر کو کوئی رستہ نہیں جاتا


ہر طور زمانے کے اشاروں پہ کِیا رقص۔
سجاد شکستہ ہوں کہ سنبھلا نہیں جاتا۔

اشاروں پہ ناچنا روز مرّہ ہے -مجھے تو اس طرح مناسب لگتا ہے :

دنیا کے اشاروں پہ کوئی ناچے تو کب تک
سجاد یوں بکھرا ہے کہ سمٹا نہیں جاتا


بھائی تنقید کا کام بھی ایک سر درد ہے -صرف پڑھ لینا اور داد دے دینا بہت آسان کام ہے جو "موٹر میمری "(motor memory) سے لیا جا سکتا ہے جیسے گاڑی چلانا اور آجکل ہمارا نماز پڑھنا وغیرہ جیسے امور ہم دماغ کے ایک خود کار نظام کے تحت سرانجام دیتے ہیں -لیکن تنقید کا کام آپ "موٹر میمری "سے نہیں لے سکتے لہٰذا مرد بھی کہتا ہے "میں مری "کہ ہر ہر لفظ پہ کون غور کرے -
 
آخری تدوین:
السلام علیکم

قافیہ درست ہے عظیم بھائی عرف فلسفی :)

اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔

سمیٹنا تو بکھری ہوئی چیز کے لئے ہوتا ہے -

وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔

بات کو واضح کر دیں -

کیا پار کرے گا بھلا وہ عشق سمندر
گرداب میں گھر جائے تو نکلا نہیں جاتا


جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔

تھوڑی سی تبدیلی کردیں :

جس شہر کی مٹی میں نہ ہو اپنوں کی خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔


جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔

عشوہ گری سے سنورنا ؟ دوبارہ فکر کریں -

سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا

دوسرا مصرع وزن میں نہیں -یوں درست ہو جائے گا :" رہ چلتے کسی کو کبھی پرکھا نہیں جاتا"
اور شعر میں بھی خاص جان نہیں -

ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔

قوسِ قزع=قوس قزح
پہلے مصرع میں "میں "کی کمی ہے اور دوسرے میں رنگ کا سنبھالنا نہیں جچتا -

جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔

مجھے تو درست لگا -

برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔

ایک تجویز ہے بجائے خبر کے دعائیہ سا انداز اپنا لیں :

برباد محبّت ہوں خدا کیا مرے گھر سے
آباد نگر کو کوئی رستہ نہیں جاتا


ہر طور زمانے کے اشاروں پہ کِیا رقص۔
سجاد شکستہ ہوں کہ سنبھلا نہیں جاتا۔

اشاروں پہ ناچنا روز مرّہ ہے -مجھے تو اس طرح مناسب لگتا ہے :

دنیا کے اشاروں پہ کوئی ناچے تو کب تک
سجاد یوں بکھرا ہے کہ سمٹا نہیں جاتا


بھائی تنقید کا کام بھی ایک سر درد ہے -صرف پڑھ لینا اور داد دے دینا بہت آسان کام ہے جو "موٹر میمری "(motor memory) سے لیا جا سکتا ہے جیسے گاڑی چلانا اور آجکل ہمارا نماز پڑھنا وغیرہ جیسے امور ہم دماغ کے ایک خود کار نظام کے تحت سرانجام دیتے ہیں -لیکن تنقید کا کام آپ "موٹر میمری "سے نہیں لے سکتے لہٰذا مرد بھی کہتا ہے "میں مری "کہ ہر ہر لفظ پہ کون غور کرے -
یاسر بھائی شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں آپ اپنا قیمتی وقت میرے جیسے ناچیز کے لئے بڑی دلجمعی کے ساتھ صَرف کرتے ہیں اس کے لئے شکریہ اور ڈھیروں دعائیں
 
السلام علیکم

قافیہ درست ہے عظیم بھائی عرف فلسفی :)

اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔

سمیٹنا تو بکھری ہوئی چیز کے لئے ہوتا ہے -

وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔

بات کو واضح کر دیں -

کیا پار کرے گا بھلا وہ عشق سمندر
گرداب میں گھر جائے تو نکلا نہیں جاتا


جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔

تھوڑی سی تبدیلی کردیں :

جس شہر کی مٹی میں نہ ہو اپنوں کی خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔


جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔

عشوہ گری سے سنورنا ؟ دوبارہ فکر کریں -

سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا

دوسرا مصرع وزن میں نہیں -یوں درست ہو جائے گا :" رہ چلتے کسی کو کبھی پرکھا نہیں جاتا"
اور شعر میں بھی خاص جان نہیں -

ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔

قوسِ قزع=قوس قزح
پہلے مصرع میں "میں "کی کمی ہے اور دوسرے میں رنگ کا سنبھالنا نہیں جچتا -

جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔

مجھے تو درست لگا -

برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔

ایک تجویز ہے بجائے خبر کے دعائیہ سا انداز اپنا لیں :

برباد محبّت ہوں خدا کیا مرے گھر سے
آباد نگر کو کوئی رستہ نہیں جاتا


ہر طور زمانے کے اشاروں پہ کِیا رقص۔
سجاد شکستہ ہوں کہ سنبھلا نہیں جاتا۔

اشاروں پہ ناچنا روز مرّہ ہے -مجھے تو اس طرح مناسب لگتا ہے :

دنیا کے اشاروں پہ کوئی ناچے تو کب تک
سجاد یوں بکھرا ہے کہ سمٹا نہیں جاتا


بھائی تنقید کا کام بھی ایک سر درد ہے -صرف پڑھ لینا اور داد دے دینا بہت آسان کام ہے جو "موٹر میمری "(motor memory) سے لیا جا سکتا ہے جیسے گاڑی چلانا اور آجکل ہمارا نماز پڑھنا وغیرہ جیسے امور ہم دماغ کے ایک خود کار نظام کے تحت سرانجام دیتے ہیں -لیکن تنقید کا کام آپ "موٹر میمری "سے نہیں لے سکتے لہٰذا مرد بھی کہتا ہے "میں مری "کہ ہر ہر لفظ پہ کون غور کرے -
مژگان کے قطروں کو سمیٹا نہیں جاتا
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔
جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
ایسے سرِ بازار تو سنورا نہیں جاتا۔
ہیں رنگ جو پیکر کے ترے‘ قوس قزح میں
دل ان کے سحر میں ہے‘ سنبھالا نہیں جاتا۔
سر اب نظر ثانی فرما دیجیے گا
 
Top