غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
یاسر شاہ،فلسفی،وارث
افاعیل--مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
سب سے بچھڑ کے ہم ہی ، دنیا سے جا رہے ہیں
دنیا رہے گی یوں ہی ، موجیں اُڑا رہے ہیں
---------------
لوٹا وطن کو میرے ، سب نے بلا تکلّف
بدلا ہے وقت ایسا ، جیلوں میں جا رہے ہیں
-----------
کرتے ہیں کوششیں اب ، کر لیں ہضم جو کھایا
لیکن بہت ہے مشکل ، اودھم مچا رہے ہیں
-------------
پکڑی گئی ہے چوری ، بچنا بہت ہے مشکل
جھوٹے اگر نہیں ہیں ، تو کیوں چلّا رہے ہیں
-------------
چھوٹے گی جان تب ، ہی دیں گے اگر جو لوٹا
بچنے کی کوششوں میں ، باقی لٹا رہے ہیں
--------------
ارشد کو دکھ ہے یہ ہی ، کتنے ہیں لوگ ظالم
عزّت لٹا کے اپنی ، پیسہ بنا رہے ہیں
 
الف عین
عظیم
یاسر شاہ،فلسفی،وارث
افاعیل--مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
سب سے بچھڑ کے ہم ہی ، دنیا سے جا رہے ہیں
دنیا رہے گی یوں ہی ، موجیں اُڑا رہے ہیں
---------------
لوٹا وطن کو میرے ، سب نے بلا تکلّف
بدلا ہے وقت ایسا ، جیلوں میں جا رہے ہیں
-----------
کرتے ہیں کوششیں اب ، کر لیں ہضم جو کھایا
لیکن بہت ہے مشکل ، اودھم مچا رہے ہیں
-------------
پکڑی گئی ہے چوری ، بچنا بہت ہے مشکل
جھوٹے اگر نہیں ہیں ، تو کیوں چلّا رہے ہیں
-------------
چھوٹے گی جان تب ، ہی دیں گے اگر جو لوٹا
بچنے کی کوششوں میں ، باقی لٹا رہے ہیں
--------------
ارشد کو دکھ ہے یہ ہی ، کتنے ہیں لوگ ظالم
عزّت لٹا کے اپنی ، پیسہ بنا رہے ہیں[
سب سے بچھڑنے کا لمحہ دردناک ہوتا ہے خوشیاں منانا عجیب لگ رہا ہے۔
دوسرا شعر ٹھیک لگا۔
کرتے ہیں کوششیں اب ، کر لیں ہضم جو کھایا
لیکن بہت ہے مشکل ، اودھم مچا رہے ہیں
اس شعر کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔

پکڑی گئی ہے چوری ، بچنا بہت ہے مشکل
جھوٹے اگر نہیں ہیں ، تو کیوں چلّا رہے ہیں
اس شعر میں قوافی ٹھیک نہیں باندھا دوسرا یہ کہ چِلّائے گا تو وہی جو سچا ہو گا
کیونکہ جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو اسے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔
ارشد کو دکھ ہے یہ ہی ، کتنے ہیں لوگ ظالم
عزّت لٹا کے اپنی ، پیسہ بنا رہے ہیں[
اس میں قوافی کما استعمال کر لیں تو بہتر رہے گا
 

الف عین

لائبریرین
مقطع کے علاوہ ہر شعر وضاحت چاہتا ہے
مقطع میں بھی 'یہ ہی' درست نہیں بجائے 'یہی' کے
ارشد کو دکھ یہی ہے....
 
الف عین
--------------
اصلاح کے بعد دوبارا----- پہلی غزل سیاسی تھی شاید اس لئے---
------------------
مدّت ہوئی ہے پوری ، دنیا سے جا رہے ہیں
سب کچھ رہے گا یوں ہی ، بس ہم ہی جا رہے ہیں
---------------
ہم نے دیا جہاں کو خونِ جگر بھی اپنا
سب کی طرح ہی ہم بھی اس پر فدا رہے ہیں
-----------
جانا پڑے گا سب کو دنیا نہیں کسی کی
کچھ آ رہے ہیں تو کچھ دنیا سے جا رہے ہیں
-------------
جو کچھ بھی کر رہے ہیں اُس کا حساب ہو گا
بھولے ہوئے ہیں رب کو دنیا بنا رہے ہیں
-------------
دنیا تو راستہ ہے منزل نہیں ہے اپنی
منزل کی سمت میں اس رستے سے جا رہے ہیں
--------------
ارشد کو دکھ یہی ہے ، کتنے ہیں لوگ ظالم
عزّت لٹا کے اپنی ، پیسہ بنا رہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
عظیم آج کل میری مدد نہیں کر رہے ہیں؟
مدّت ہوئی ہے پوری ، دنیا سے جا رہے ہیں
سب کچھ رہے گا یوں ہی ، بس ہم ہی جا رہے ہیں
--------------- قافیہ ردیف ؟ جا رہے ہیں ردیف ہو گئی ہے
رواں بھی نہیں

ہم نے دیا جہاں کو خونِ جگر بھی اپنا
سب کی طرح ہی ہم بھی اس پر فدا رہے ہیں
----------- خون جگر دینَے کا محاورہ یہاں فٹ نہیں ہوتا، ہاں اگر یہ کہا جائے کہ دو دن کے لطف کے لیے ہم نے خونِ جگر بھی دیا تو بات مانی جا سکتی ہے، محض خون جگر سے نہیں، اور وہ بھی جہاں کو نہیں
دوسرے مصرعے میں بھی 'طرح ہی' میں تکرار کا نقص ہے

جانا پڑے گا سب کو دنیا نہیں کسی کی
کچھ آ رہے ہیں تو کچھ دنیا سے جا رہے ہیں
------------- ٹھیک ہے

جو کچھ بھی کر رہے ہیں اُس کا حساب ہو گا
بھولے ہوئے ہیں رب کو دنیا بنا رہے ہیں
-------------کون؟
یوں ہو تو شاید چل جائے
سب بھول کر ہم اپنی....

دنیا تو راستہ ہے منزل نہیں ہے اپنی
منزل کی سمت میں اس رستے سے جا رہے ہیں
-------------- تو منزل کیا ہے، اس کا کچھ ذکر تو کرو
دوسرا مصرع رواں نہیں اس اور رستے کا الگ الگ ٹکڑوں میں آنے کی وجہ سے
منزل کی سمت میں ہم اس رہ سے.....

ارشد کو دکھ یہی ہے ، کتنے ہیں لوگ ظالم
عزّت لٹا کے اپنی ، پیسہ بنا رہے ہیں
.. ٹھیک
 

عظیم

محفلین
عظیم آج کل میری مدد نہیں کر رہے ہیں؟
ان شاء اللہ۔ ایک تو ٹیبلیٹ پھر سے خراب ہو گیا تھا دوسرا ایک شادی تھی بہت قریبی رشتہ دار کی تو مہمان وغیرہ یہاں ہمارے گھر میں ہی ٹھہرے تھے۔ اور دو تین دن سے انٹرنیٹ بھی نہیں ہے۔ کل ان شاء اللہ اس کا بھی بندوبست ہو جائے گا
 
الف عین
ایک بار دوبارا
------------------
مدّت ہوئی ہے پوری ، دنیا سے جا رہے ہیں
کاٹیں گے وہ ہی جا کر جو کچھ اُگا رہے ہیں
--------------
خوشیاں تھیں چار دن کی دنیا میں ہم نے دیکھیں
دنیا پہ ہم بھی یارو کچھ دن فدا رہے ہیں
-------------
جو کچھ بھی کر رہے ہیں اُس کا حساب ہو گا
سب بھول کر ہم اپنی دنیا بنا رہے ہیں
--------------
دنیا تو راستہ ہے منزل نہیں ہے اپنی
منزل کی سمت میں ہم اس راہ جا رہے ہیں
-------------
ارشد کو دکھ یہی ہے ، کتنے ہیں لوگ ظالم
عزّت لٹا کے اپنی ، پیسہ بنا رہے ہیں
-------------
 

الف عین

لائبریرین
مدّت ہوئی ہے پوری ، دنیا سے جا رہے ہیں
کاٹیں گے وہ ہی جا کر جو کچھ اُگا رہے ہیں
----------- پھر وہ ہی! اس کے علاوہ یہ خیال بھی اب آیا ہے کہ دوسرے مصرعے میں حال کا صیغہ درست نہیں، ظاہر ہے کہ یوں ہونا تھا کہ وہی کاٹیں گے جو بویا تھا!

خوشیاں تھیں چار دن کی دنیا میں ہم نے دیکھیں
دنیا پہ ہم بھی یارو کچھ دن فدا رہے ہیں
------------- دنیا پھر رپیٹ ہو رہا ہے
خوشیاں تھیں چار دن کی جو ہم نے لوٹ لی ہیں
باقی ٹھیک ہیں
 
Top