غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔ محفلین ایک مسلسل غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے مشکور رہوں گا

جو پوری ہوتی ضرورت بغیر پیسے کے
تو ہم بھی کرتے محبت بغیر پیسے کے
غریب ہوں مگر اتنا غریب مت سمجھو
خرید سکتا ہوں جنت بغیر پیسے کے
ملا جو وقت کسی روز تو چکا دوں گا
ترے خلوص کی قیمت بغیر پیسے کے
فریب، رنج ،حقارت ،جفائیں، رسوائی
ملی ہے ہم کو یہ نعمت بغیر پیسے کے
کیے نہ خواب اگر دل میں دفن تو بولو
اٹھا سکو گے یہ میت بغیر پیسے کے ؟
دل اٹھا سکتا ہے یہ بوجھ تیری یادوں کا
کرے گا کون یہ محنت بغیر پیسے کے
بغیر پیسے کے دنیا میں کچھ نہیں ملتا
ملے گی آپ کو نفرت بغیر پیسے کے
تو خوش نصیب ہے اے نور تو بھی مفلس ہے
ہے تیرے پاس بھی دولت بغیر پیسے کے
 

عظیم

محفلین
جو پوری ہوتی ضرورت بغیر پیسے کے
تو ہم بھی کرتے محبت بغیر پیسے کے
۔۔۔درست

غریب ہوں مگر اتنا غریب مت سمجھو
خرید سکتا ہوں جنت بغیر پیسے کے
۔۔۔۔۔درست

ملا جو وقت کسی روز تو چکا دوں گا
ترے خلوص کی قیمت بغیر پیسے کے
۔۔۔۔یہ بھی درست

فریب، رنج ،حقارت ،جفائیں، رسوائی
ملی ہے ہم کو یہ نعمت بغیر پیسے کے
۔۔۔۔پہلے مصرع میں اگر ایک چیز ہوتی تو نعمت درست تھا۔ ان سب چیزوں کے ساتھ 'نعمتیں' ہونا چاہیے تھا

کیے نہ خواب اگر دل میں دفن تو بولو
اٹھا سکو گے یہ میت بغیر پیسے کے ؟
۔۔۔۔۔پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہنا چاہتے ہیں!
دوسرا 'تو' طویل کھنچا ہوا ہے جو اچھا نہیں لگ رہا

دل اٹھا سکتا ہے یہ بوجھ تیری یادوں کا
کرے گا کون یہ محنت بغیر پیسے کے
۔۔۔پہلا مصرع بحر سے خارج؟

بغیر پیسے کے دنیا میں کچھ نہیں ملتا
ملے گی آپ کو نفرت بغیر پیسے کے
۔۔۔۔پہلے مصرع میں کسی طرح 'مگ' یا 'لیکن' لے آتے تو ربط قائم ہو جانا تھا دونوں مصرعوں میں۔
۔۔۔بغیر پیسے کے دنیا میں کچھ نہیں ہے مگر
بہتر ہو گا

تو خوش نصیب ہے اے نور تو بھی مفلس ہے
ہے تیرے پاس بھی دولت بغیر پیسے کے
۔۔۔۔۔پہلا مصرع رواں نہیں لگ رہا۔ اس کے علاوہ 'کہ تو بھی مفلس ہے' ہونا چاہیے تھا
اور دوسرا بے معنی لگ رہا ہے
 

شہنواز نور

محفلین
یہ بات تلخ ہے لیکن یہی حقیقت ہے
نہ باپ بھائی نہ عورت بغیر پیسے کے
ادب سے دیکھ چکے ہم بھی گفتگو کر کے
نہ کام آئی شرافت بغیر پیسے کے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں عید کی خوشیاں
بجھی بجھی سی ہے صورت بغیر پیسے کے
ہے فخر نور ہمیں اپنی اس غریبی پر
ملی ہے ہم کو یہ نعمت بغیر پیسے کے


سر کچھ اشعار پھر سے کہنے کی کوشش کی ہے
اصلاح کی گزارش ہے
الف عین
 

الف عین

لائبریرین
یہ بات تلخ ہے لیکن یہی حقیقت ہے
نہ باپ بھائی نہ عورت بغیر پیسے کے
... عورت بمعنی بیوی عوامی بول چال میں درست مانا جا سکتا ہے لیکن ادب میں تو اسے بطور جنس ہی سمجھا جائے گا، اس شعر کو نکال ہی دو

ادب سے دیکھ چکے ہم بھی گفتگو کر کے
نہ کام آئی شرافت بغیر پیسے کے
... پہلا مصرع بھی 'کے' پر ختم ہو رہا ہے، الفاظ بدل دیں، یوں بھی ان الفاظ سے یہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا کہ 'ہم ادب سے گفتگو کر کے بھی دیکھ چکے'

کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں عید کی خوشیاں
بجھی بجھی سی ہے صورت بغیر پیسے کے
... درست

ہے فخر نور ہمیں اپنی اس غریبی پر
ملی ہے ہم کو یہ نعمت بغیر پیسے کے
... درست
 
Top