غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
یاسر شاہ
فلسفی
سر اصلاح کی درخواست ہے
ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔
میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔
میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔
پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !
سعید بھائی یہی لگتا ہے آپ نے اپنی غزل پہ خود تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی-

ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔

نثر کیجیے تو خاطر خواہ مضمون برآمد نہیں ہوتا -نثر کچھ یوں ہوگی : آپ کی بستی جوکہ ایک ریگستان ہے ،اس میں ہر وقت ماتم کا سماں ہے کیونکہ یہاں آپ کے ارمان دفن ہیں -کچھ بات بن نہیں پائی - ارمان عمو ماً دل میں دفن ہوتے ہیں -

پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔

یہ بھی الجھا ہوا ہے -


میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔

"نا آشنا" آپ نے درست نہیں باندھا -نا کا الف نہیں گر سکتا -پھر "فراق یار کی حد" بھی بھلا نہیں لگ رہا -یوں کر دیں تو شاید کوئی بات بنے :

آخر فراق یار کی حد بھی تو ہو کوئی
کیا عمر بھر رہوں گا یوں ہی انتظار میں


میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔

یہ شعر بھی الفاظ کا گورکھ دھندا لگتا ہے -رخ حیات سے پردہ اٹھانا -پھر حسرتو ں کا جلنا وہ بھی بہار میں -ان سب میں کیا علاقہ -

امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔

یہ شعر بھی محض تکلّف محسوس ہوا -

لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔

اسے یوں کہیں تو شاید کچھ بہتر ہو :

لہرا کے تو نے دستِ حنا ئی غضب کیا
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں


پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔

یہاں گداگری غلط استعمال کیا ہے -یہ فقر کا متبادل نہیں -فی الحال تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ بھیک مانگنے میں جو مزہ ہے وہ اقتدار میں نہیں -اس کو فقر یا فقیری سے بدل دیں -پھر نشہ دوجہان کا ترکیب بھی مجھے تو نہیں بھائی -اس کی جگہ لذّتِ دو جہاںوغیرہ جیسی ترکیب مناسب لگے گی -
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ
میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔
نا آشنا کے علاوہ 'رہوں گا' بھی محض رَ ہُ گا تقطیع ہو رہا ہے 'ہوں' کا و کا اسقاط اچھا نہیں لگتا ہے
 
السلام علیکم !
سعید بھائی یہی لگتا ہے آپ نے اپنی غزل پہ خود تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی-

ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔

نثر کیجیے تو خاطر خواہ مضمون برآمد نہیں ہوتا -نثر کچھ یوں ہوگی : آپ کی بستی جوکہ ایک ریگستان ہے ،اس میں ہر وقت ماتم کا سماں ہے کیونکہ یہاں آپ کے ارمان دفن ہیں -کچھ بات بن نہیں پائی - ارمان عمو ماً دل میں دفن ہوتے ہیں -

پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔

یہ بھی الجھا ہوا ہے -


میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔

"نا آشنا" آپ نے درست نہیں باندھا -نا کا الف نہیں گر سکتا -پھر "فراق یار کی حد" بھی بھلا نہیں لگ رہا -یوں کر دیں تو شاید کوئی بات بنے :

آخر فراق یار کی حد بھی تو ہو کوئی
کیا عمر بھر رہوں گا یوں ہی انتظار میں


میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔

یہ شعر بھی الفاظ کا گورکھ دھندا لگتا ہے -رخ حیات سے پردہ اٹھانا -پھر حسرتو ں کا جلنا وہ بھی بہار میں -ان سب میں کیا علاقہ -

امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔

یہ شعر بھی محض تکلّف محسوس ہوا -

لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔

اسے یوں کہیں تو شاید کچھ بہتر ہو :

لہرا کے تو نے دستِ حنا ئی غضب کیا
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں


پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔

یہاں گداگری غلط استعمال کیا ہے -یہ فقر کا متبادل نہیں -فی الحال تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ بھیک مانگنے میں جو مزہ ہے وہ اقتدار میں نہیں -اس کو فقر یا فقیری سے بدل دیں -پھر نشہ دوجہان کا ترکیب بھی مجھے تو نہیں بھائی -اس کی جگہ لذّتِ دو جہاںوغیرہ جیسی ترکیب مناسب لگے گی -
شکریہ سر
 
سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں
ماتم کا ہے سماں مرے جو ہر اک پل دیار میں۔
ارماں بکھر گئے تھے اِسی ریگزار میں۔
راتیں ہیں بے سکوں مری سوچیں ہیں منتشر۔
ہے اضطراب کیسا دلِ خاکسار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے۔
بِکنا خریدنا نہیں اب اختیار میں۔
آخر فراقِ یار کی حد بھی تو ہو کوئی۔
کیا عمر بھر رہوں گا یونہی انتظار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنائی غضب کِیا۔
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں۔
یوں ہی رہِیں اگر شبِ ہجراں کی کلفتیں۔
پھرآگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
پائیں جو لذتیں ترے در کی گدائی سے۔
ایسا ملا سُرور کہاں اقتدار میں
 
آخری تدوین:
السلام علیکم !
سعید بھائی یہی لگتا ہے آپ نے اپنی غزل پہ خود تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی-

ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔

نثر کیجیے تو خاطر خواہ مضمون برآمد نہیں ہوتا -نثر کچھ یوں ہوگی : آپ کی بستی جوکہ ایک ریگستان ہے ،اس میں ہر وقت ماتم کا سماں ہے کیونکہ یہاں آپ کے ارمان دفن ہیں -کچھ بات بن نہیں پائی - ارمان عمو ماً دل میں دفن ہوتے ہیں -

پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔

یہ بھی الجھا ہوا ہے -


میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔

"نا آشنا" آپ نے درست نہیں باندھا -نا کا الف نہیں گر سکتا -پھر "فراق یار کی حد" بھی بھلا نہیں لگ رہا -یوں کر دیں تو شاید کوئی بات بنے :

آخر فراق یار کی حد بھی تو ہو کوئی
کیا عمر بھر رہوں گا یوں ہی انتظار میں


میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔

یہ شعر بھی الفاظ کا گورکھ دھندا لگتا ہے -رخ حیات سے پردہ اٹھانا -پھر حسرتو ں کا جلنا وہ بھی بہار میں -ان سب میں کیا علاقہ -

امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔

یہ شعر بھی محض تکلّف محسوس ہوا -

لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔

اسے یوں کہیں تو شاید کچھ بہتر ہو :

لہرا کے تو نے دستِ حنا ئی غضب کیا
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں


پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔

یہاں گداگری غلط استعمال کیا ہے -یہ فقر کا متبادل نہیں -فی الحال تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ بھیک مانگنے میں جو مزہ ہے وہ اقتدار میں نہیں -اس کو فقر یا فقیری سے بدل دیں -پھر نشہ دوجہان کا ترکیب بھی مجھے تو نہیں بھائی -اس کی جگہ لذّتِ دو جہاںوغیرہ جیسی ترکیب مناسب لگے گی -
سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں
ماتم کا ہے سماں مرے جو ہر اک پل دیار میں۔
ارماں بکھر گئے تھے اِسی ریگزار میں۔
راتیں ہیں بے سکوں مری سوچیں ہیں منتشر۔
ہے اضطراب کیسا دلِ خاکسار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے۔
بِکنا خریدنا نہیں اب اختیار میں۔
آخر فراقِ یار کی حد بھی تو ہو کوئی۔
کیا عمر بھر رہوں گا یونہی انتظار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنائی غضب کِیا۔
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں۔
یوں ہی رہِیں اگر شبِ ہجراں کی کلفتیں۔
پھرآگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
پائیں جو لذتیں ترے در کی گدائی سے۔
ایسا نہیں سُرور کسی اقتدار میں

سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں
ماتم کا ہے سماں مرے جو ہر اک پل دیار میں۔
ارماں بکھر گئے تھے اِسی ریگزار میں۔
راتیں ہیں بے سکوں مری سوچیں ہیں منتشر۔
ہے اضطراب کیسا دلِ خاکسار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے۔
بِکنا خریدنا نہیں اب اختیار میں۔
آخر فراقِ یار کی حد بھی تو ہو کوئی۔
کیا عمر بھر رہوں گا یونہی انتظار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنائی غضب کِیا۔
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں۔
یوں ہی رہِیں اگر شبِ ہجراں کی کلفتیں۔
پھرآگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
پائیں جو لذتیں ترے در کی گدائی سے۔
ایسا نہیں سُرور کسی اقتدار میں
[URL='https://www.urduweb.org/mehfil/members/%D8%B3%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B3%D8%AC%D8%A7%D8%AF.19633/']
[/URL]
 
السلام علیکم !
سعید بھائی یہی لگتا ہے آپ نے اپنی غزل پہ خود تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی-

ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔

نثر کیجیے تو خاطر خواہ مضمون برآمد نہیں ہوتا -نثر کچھ یوں ہوگی : آپ کی بستی جوکہ ایک ریگستان ہے ،اس میں ہر وقت ماتم کا سماں ہے کیونکہ یہاں آپ کے ارمان دفن ہیں -کچھ بات بن نہیں پائی - ارمان عمو ماً دل میں دفن ہوتے ہیں -

پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔

یہ بھی الجھا ہوا ہے -


میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔

"نا آشنا" آپ نے درست نہیں باندھا -نا کا الف نہیں گر سکتا -پھر "فراق یار کی حد" بھی بھلا نہیں لگ رہا -یوں کر دیں تو شاید کوئی بات بنے :

آخر فراق یار کی حد بھی تو ہو کوئی
کیا عمر بھر رہوں گا یوں ہی انتظار میں


میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔

یہ شعر بھی الفاظ کا گورکھ دھندا لگتا ہے -رخ حیات سے پردہ اٹھانا -پھر حسرتو ں کا جلنا وہ بھی بہار میں -ان سب میں کیا علاقہ -

امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔

یہ شعر بھی محض تکلّف محسوس ہوا -

لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔

اسے یوں کہیں تو شاید کچھ بہتر ہو :

لہرا کے تو نے دستِ حنا ئی غضب کیا
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں


پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔

یہاں گداگری غلط استعمال کیا ہے -یہ فقر کا متبادل نہیں -فی الحال تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ بھیک مانگنے میں جو مزہ ہے وہ اقتدار میں نہیں -اس کو فقر یا فقیری سے بدل دیں -پھر نشہ دوجہان کا ترکیب بھی مجھے تو نہیں بھائی -اس کی جگہ لذّتِ دو جہاںوغیرہ جیسی ترکیب مناسب لگے گی -
سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں
ماتم کا ہے سماں جو ہر اک پل دیار میں۔
ارماں بکھر گئے تھے اِسی ریگزار میں۔
راتیں ہیں بے سکوں مری سوچیں ہیں منتشر۔
ہے اضطراب کیسا دلِ خاکسار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے۔
بِکنا خریدنا نہیں اب اختیار میں۔
آخر فراقِ یار کی حد بھی تو ہو کوئی۔
کیا عمر بھر رہوں گا یونہی انتظار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنائی غضب کِیا۔
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں۔
یوں ہی رہِیں اگر شبِ ہجراں کی کلفتیں۔
پھرآگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
پائیں جو لذتیں ترے در کی گدائی سے۔
ایسا ملا سُرور کہاں اقتدار میں
 
Top