غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم، فلسفی،خلیل الرحمن،یاسر شاہ
---------------
افاعیل ---مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
----------------
محبّت ہو گئی تم سے مجھے اقرار کرنا ہے
بٹھا کر سامنے تم کو یہی اظہار کرنا ہے
----------------
بھلانا ہو گیا مشکل تجھے یہ بات کہنی ہے
ترے گھر پر میں آؤں گا ترا دیدار کرنا ہے
----------------
تجھے اپنا بنانے کا ارادہ کر لیا ہم نے
تجھے اپنی محبّت کا سدا حقدار کرنا ہے
---------------
تری آنکھیں یہ کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
انہیں جذبوں کو تیرے دل میں اب بیدار کرنا ہے
---------------
مرے دل میں تری الفت سمندر بن کے بہتی ہے
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
--------------------
بھروسہ کر کے دیکھو تم کبھی ارشد کی الفت پر
مجھے تیری محبّت میں یہ دل ایثار کرنا ہے
---------------یا -------
خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے ہموار کرنا ہے
---------------
 

عظیم

محفلین
محبّت ہو گئی تم سے مجھے اقرار کرنا ہے
بٹھا کر سامنے تم کو یہی اظہار کرنا ہے
----------------یہی اظہار کیا کرنا ہے کہ محبت ہو گئی تم سے مجھے اقرار کرنا ہے؟

بھلانا ہو گیا مشکل تجھے یہ بات کہنی ہے
ترے گھر پر میں آؤں گا ترا دیدار کرنا ہے
----------------'ترا دیدار بھی کرنا ہے' گھر پر پہلے مصرع کی بات کہنے جانا ہے یہ بھی واضح نہیں

تجھے اپنا بنانے کا ارادہ کر لیا ہم نے
تجھے اپنی محبّت کا سدا حقدار کرنا ہے
---------------'حقدار رکھنا' میرے خیال میں درست ہو گا

تری آنکھیں یہ کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
انہیں جذبوں کو تیرے دل میں اب بیدار کرنا ہے
---------------'یہ' کی جگہ 'تو' زیادہ بہتر نہیں رہے گا؟ اور دوسرے مصرع میں 'اب' کی بجائے 'بھی' پر بھی غور کریں

مرے دل میں تری الفت سمندر بن کے بہتی ہے
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
--------------------دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہے' پر ہو رہا ہے
اس کو شاید تقابل ردیفین کا عیب کہا جاتا ہے

بھروسہ کر کے دیکھو تم کبھی ارشد کی الفت پر
مجھے تیری محبّت میں یہ دل ایثار کرنا ہے
---------------یا -------
خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے ہموار کرنا ہے
---------------یہ مقطع بہتر ہے
ہموار قافیہ یہاں مس فٹ لگ رہا ہے 'تیار' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے
 
الف عین
عظیم
اصلاح کے بعد دوبارا
-----------------
محبّت ہو گئی تم سے مجھے اقرار کرنا ہے
مرے دل پر حکومت کا تجھے مختار کرنا ہے
-----------
بھلانا ہو گیا مشکل محبّت ہو گئی اتنی
تقاضا ہے مرے دل کا ترا دیدار کرنا ہے
----------
تری آنکھیں تو کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
انہیں جذبوں کو تیرے دل میں بھی بیدار کرنا ہے
-----------------
سمندر بن کے بہتی ہے، تری الفت مرے دل میں
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
--------------
خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے تیار کرنا ہے
-------------
چند اشعار کا اضافہ
--------------
ہزاروں لوگ دشمن ہیں ہماری اس محبّت کے
ہمیں لوگوں کا دل اپنے لئے ہموار کرنا ہے
------------
نبھانا ساتھ میرا تم ہمیشہ کے لئے ساجن
جو کوئی اور تجھے چاہے اُسے انکار کرنا ہے
-------------
بُرے لوگوں سے نفرت ہے بُرائی میں نہیں کرتا
مجھے دنیا میں الفت کا سدا پرچار کرنا ہے
-------------------
 

عظیم

محفلین
محبّت ہو گئی تم سے مجھے اقرار کرنا ہے
مرے دل پر حکومت کا تجھے مختار کرنا ہے
-----------'بس اب اقرار کرنا ہے' زیادہ بہتر رہے گا اور حکومت کا مختار کرنا عجیب بات ہو جائے گی

بھلانا ہو گیا مشکل محبّت ہو گئی اتنی
تقاضا ہے مرے دل کا ترا دیدار کرنا ہے
----------پہلا مصرع انداز بیان شوخ نہیں ہے سادہ سا ہے دوسرے میں 'پھر دیدار کرنا ہے' جیسی معنویت درکار ہے کہ پہلے دیدار ہوا ہے تو محبت ہوئی ہو گی!..

تری آنکھیں تو کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
انہیں جذبوں کو تیرے دل میں بھی بیدار کرنا ہے
-----------------اسی جذبے کو......

سمندر بن کے بہتی ہے، تری الفت مرے دل میں
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
--------------درست لگ رہا ہے

خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے تیار کرنا ہے
-------------یہ بھی

چند اشعار کا اضافہ
--------------
ہزاروں لوگ دشمن ہیں ہماری اس محبّت کے
ہمیں لوگوں کا دل اپنے لئے ہموار کرنا ہے
------------درست

نبھانا ساتھ میرا تم ہمیشہ کے لئے ساجن
جو کوئی اور تجھے چاہے اُسے انکار کرنا ہے
-------------ساجن ؟ اور دوسرا مصرع رواں نہیں

بُرے لوگوں سے نفرت ہے بُرائی میں نہیں کرتا
مجھے دنیا میں الفت کا سدا پرچار کرنا ہے
-------------------برے لوگوں سے نفرت کرنا برائی ہے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی! یوں لگتا ہے کہ جیسے 'برائی میں نہیں کرتا' کہا جا رہا ہے
 
الف عین
عظیم
عظیم بھائی آپ کے مشورے کے مطابق تبلیلیاں کر دی ہیں اور دو اشعار بدل دیئے ہیں
--------------------
محبّت ہو گئی تجھ سے یہ اب اقرار کرنا ہے
مری مانو محبّت کو یہی اصرار کرنا ہے
-----------------
بھلاؤں کس طرح تجھ کو بہت ہی یاد آتے ہو
مرا دل چاہتا ہے تیرا پھر دیدار کرنا ہے
-----------------
تری آنکھیں تو کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
اسی جذبے کو تیرے دل میں بھی بیدار کرنا ہے
-------------------
سمندر بن کے بہتی ہے، تری الفت مرے دل میں
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
-----------
ہزاروں لوگ دشمن ہیں ہماری اس محبّت کے
ہمیں لوگوں کا دل اپنے لئے ہموار کرنا ہے
------------
محبّت سے نبھائیں گے کہیں پر زندگی اپنی
ہمیں اپنی محبّت کو گل و گلزار کرنا ہے
------------
بُرے لوگوں سے الجھن ہے ، بُرائی سے بھی نفرت ہے
مجھے دنیا میں الفت کا سدا پرچار کرنا ہے
--------------
خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے تیار کرنا ہے
----------------
 

عظیم

محفلین
محبّت ہو گئی تجھ سے یہ اب اقرار کرنا ہے
مری مانو محبّت کو یہی اصرار کرنا ہے
-----------------مطلع کی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کہنا چاہتے ہیں

بھلاؤں کس طرح تجھ کو بہت ہی یاد آتے ہو
مرا دل چاہتا ہے تیرا پھر دیدار کرنا ہے
-----------------بہت ہی میں 'ہی' اضافی لگ رہا ہے اور پہلے مصرع میں شتر گربہ بھی ہے۔ 'آتے ہو' کے ساتھ 'تم' ہونا تھا 'تجھ' کے ساتھ 'آتا ہے'
بھلاؤں کس طرح تجھ کو کہ یہ ممکن نہیں لگتا
۔۔۔دوسرا مصرع بھی دوبارہ کہنے کی کوشش کریں

تری آنکھیں تو کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
اسی جذبے کو تیرے دل میں بھی بیدار کرنا ہے
-------------------
سمندر بن کے بہتی ہے، تری الفت مرے دل میں
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
-----------
ہزاروں لوگ دشمن ہیں ہماری اس محبّت کے
ہمیں لوگوں کا دل اپنے لئے ہموار کرنا ہے
------------یہ تینوں اشعار میرا خیال ہے کہ درست ہو گئے ہیں

محبّت سے نبھائیں گے کہیں پر زندگی اپنی
ہمیں اپنی محبّت کو گل و گلزار کرنا ہے
------------'گزاریں گے'

بُرے لوگوں سے الجھن ہے ، بُرائی سے بھی نفرت ہے
مجھے دنیا میں الفت کا سدا پرچار کرنا ہے
--------------برائی سے بھی ہے نفرت'

خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے تیار کرنا ہے
----------------یہ بھی درست ہو چکا ہے
 
عظیم
تصحیح کے بعد ایک بار پھر
-------------
محبّت ہو گئی تم سے بس اب اقرار کرنا ہے
سوا تیرے جو چاہے گا اسے انکار کرنا ہے
-------- یا---
تری الفت ہے میرے دل میں یہ اقرار کرنا ہے
تجھے اپنا بنانے پر مجھے اصرار کرنا ہے
-------------( دونوں میں سے جو مطلع بہتر لگے)
بھلاؤں کس طرح تجھ کو کہ ممکن نہیں لگتا
ہرایا ہے مجھے دل نے ترا دیدار کرنا ہے
--------- یا -----
بھلانا لاکھ چاہوں بھی تو ایسا ہو نہیں سکتا
مجھے تم یاد آتے ہو تر دیدار کرنا ہے
---------------
تری آنکھیں تو کہتی ہیں محبّت ہے تجھے مجھ سے
اسی جذبے کو تیرے دل میں بھی بیدار کرنا ہے
-------------------
سمندر بن کے بہتی ہے، تری الفت مرے دل میں
تجھے اپنی محبّت میں یونہی سرشار کرنا ہے
-----------
ہزاروں لوگ دشمن ہیں ہماری اس محبّت کے
ہمیں لوگوں کا دل اپنے لئے ہموار کرنا ہے
--------------
محبّت سے گزاریں گے کہیں پر زندگی اپنی
ہمیں اپنی محبّت کو گل و گلزار کرنا ہے
--------------
بُرے لوگوں سے الجھن ہے ، بُرائی سے بھی ہے نفرت
مجھے دنیا میں الفت کا سدا پرچار کرنا ہے
--------------
خدا کی یاد سے ارشد سکوں پائے گا دل تیرا
محبّت کے لئے رب کی اسے تیار کرنا ہے
----------------
 

عظیم

محفلین
دوسرا مطلع بہتر لگ رہا ہے
بس دوسرے مصرع کو اگر اس طرح کر لیں؟
۔۔۔۔پھر اس کے بعد ساری عمر تجھ سے پیار کرنا ہے
دیدار والا شعر ابھی بھی سیٹ نہیں ہو پایا، بھلانا بھی اگر چاہوں تو ایسا ہو نہیں سکتا' اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے پہلا مصرع مگر دوسرا کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا
 
Top