غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی، سعید احمد سجّاد،عظیم ،وارث، یاسر شاہ و دیگر
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

---------------
کرو کسی سے بات جب تو اس میں اک دلیل ہو
نہ لغو بات ہو تری نہ بہت طویل ہو
---------------------
دیا کرو غریب کو یہ کام ہے ثواب کا
کبھی کبھی دیا کرو بھلے ہی وہ قلیل ہو
----------------
اسی طرح ہے زندگی کبھی خوشی کبھی ہے غم ( کبھی خوشی کبھی ہےغم یہ زندگی کا راز ہے )
خدا سے تم دعا کرو اگر کبھی علیل ہو
-----------
معاملاتِ زندگی ہیں ہر کسی کے مختلف
گزارتے ہیں جس طرح نہ تم کبھی دخیل ہو
--------------
کہاں چُھپے ہو یار تم کبھی کبھی ملا کرو
بہت ہی دیر ہو چکی ملاپ کی سبیل ہو
----------------------
پسر نہیں خدا کا تو یہ من گھڑت سی بات ہے
جو مانتے ہو بات کو بہت ہی تم ذلیل ہو
----یا -------------
کرو کبھی تو سامنے اگر تو کچھ دلیل ہو
--------------------
ملا ہے پیار یار کا گلہ نہیں کبھی کیا
ترا نصیب ہے کہ پیار میں بھی خود کفیل ہو
-------------- یا ---
ملا تجھے نصیب ، پیار میں جو خود کفیل ہو
---------------
نہ بوزنا سے کچھ کہو ، بلا سے وہ رہیں یہی
نہ بوزنا سے کچھ کہو ، بلا سے وہ رہیں یہی
 

عظیم

محفلین
کرو کسی سے بات جب تو اس میں اک دلیل ہو
نہ لغو بات ہو تری نہ بہت طویل ہو
---------------------دوسرے مصرع میں 'تری' کی وجہ سے شتر گربہ پیدا ہو رہا ہے، پہلے مصرع میں آپ نے 'کرو' استعمال کیا ہے تو دوسرے مصرع میں اسی شخص کو مخاطب کرنے کے لیے 'تم' استعمال ہونا تھا۔ یعنی 'تم کرو' اسی طرح اگر صرف 'کر' کہا ہوتا تو اس کے ساتھ 'تو، تری، ترا وغیرہ استعمال ہو سکتا تھا۔
اس کے علاوہ انیس جان کی بات درست ہے

دیا کرو غریب کو یہ کام ہے ثواب کا
کبھی کبھی دیا کرو بھلے ہی وہ قلیل ہو
----------------یہ بھی واضح کریں کہ کیا دیا کرو؟ پیسہ، کپڑا، دعا؟ یہ تو سمجھ آ جاتا ہے کہ خیرات کرنے کی بات ہو رہی ہے لیکن شعر کو واضح کرنا بھی اک خوبی ہے۔
بھلا کرو غریب کا یہ کام ہے ثواب کا
جو دے سکو ضرور دو بھلے ہی وہ قلیل ہو
ایک مثال

اسی طرح ہے زندگی کبھی خوشی کبھی ہے غم ( کبھی خوشی کبھی ہےغم یہ زندگی کا راز ہے )
خدا سے تم دعا کرو اگر کبھی علیل ہو
-----------پہلے دونوں مصرعے دوسرے مصرع کے ساتھ سوٹ نہیں کر رہے، دوبارہ کہنے کی کوشش کریں

معاملاتِ زندگی ہیں ہر کسی کے مختلف
گزارتے ہیں جس طرح نہ تم کبھی دخیل ہو
--------------دوسرا مصرع غیر واضح ہے۔ یہ واضح نہیں ہوتا کہ جس طرح مرضی گزاریں تم دخل مت دو

کہاں چُھپے ہو یار تم کبھی کبھی ملا کرو
بہت ہی دیر ہو چکی ملاپ کی سبیل ہو
----------------------'ملن کی کچھ سبیل ہو' کر لیں

پسر نہیں خدا کا تو یہ من گھڑت سی بات ہے
جو مانتے ہو بات کو بہت ہی تم ذلیل ہو
----یا -------------
کرو کبھی تو سامنے اگر تو کچھ دلیل ہو
--------------------میں یہ مشورہ دوں گا کہ اس شعر کو نکال دیں، اس طرح کے اشعار سے گریز کرنا چاہیے جو کسی کے عقیدے یا مذہب کے بارے میں ہو اگرچہ وہ عقیدہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔

ملا ہے پیار یار کا گلہ نہیں کبھی کیا
ترا نصیب ہے کہ پیار میں بھی خود کفیل ہو
-------------- یا ---
ملا تجھے نصیب ، پیار میں جو خود کفیل ہو
---------------'گلہ نہیں کبھی کیا' غیر متعلق بات لگ رہی ہے۔ اور دوسرے دونوں مصرعے بھی وہ ربط پیدا نہیں کر رہے جو ہونا چاہیے۔ شعر مجموعی طور پر واضح نہیں

نہ بوزنا سے کچھ کہو ، بلا سے وہ رہیں یہی
نہ بوزنا سے کچھ کہو ، بلا سے وہ رہیں یہی
۔۔۔یہ شاید غلطی سے کاپی یا ٹائپ ہو گیا ہے
 
الف عین ،عظیم
--------------
تبدیلیوں کے بعد دوبارا ( عظیم بھائی مذہبی، اختلافی اشعار نکال دیئے ہیں )
-----------------------
کبھی کسی سے بات ہو تو اس میں اک دلیل ہو
نہ بات لغو ہو کبھی ، نہ بہت ہی طویل ہو (نہ بات لغو ہو کبھی ، نہ ہی وہ ثقیل ہو )
------------------------
بھلا کرو غریب کا ، یہ کام ہے ثواب کا
جو دے سکو ضرور دو ،بھلے ہی وہ قلیل ہو
--------------
اسی طرح ہے زندگی کبھی خوشی کبھی ہے غم
خدا سے بس دعا کرو نہ غم کی شب طویل ہو
-------------------
معاملاتِ زندگی ہیں ہر کسی کے مختلف
وہ طے کریں گے خود اُنہیں ، نہ تم کبھی دخیل ہو (جو جانتے ہیں حل ہے کیا ،نہ تم کبھی دخیل ہو )
--------------
کہاں چُھپے ہو یار تم ، کبھی کبھی ملا کرو
بہت ہی دیر ہو چکی ،ملن کی کچھ سبیل ہو
-------------------
سفر تو شرط ہے مگر ، کیا کرے گا آدمی
وہ کس طرح چلے گا پھر جو سامنے فصیل ہو ( سفر کرے گا کس طرح ، جو سامنے فصیل ہو
---------------------------
جہالتوں کےراج میں کرے گا حق کی بات وہ
جسے خدا کا خوف ہو ،نسب میں بھی اصیل ہو
---------------
جو جس طرح بھی سوچ لے ، ہے سوچنے کا حق اُسے
تمہیں ہے اُن کی فکر کیوں ،نہ اُن کے تم وکیل ہو
--------------------------------
 

عظیم

محفلین
کبھی کسی سے بات ہو تو اس میں اک دلیل ہو
نہ بات لغو ہو کبھی ، نہ بہت ہی طویل ہو (نہ بات لغو ہو کبھی ، نہ ہی وہ ثقیل ہو )
------------------------پہلے مصرع کی پہلی شکل ہی بہتر تھی
اور دوسرے مصرع کے دوسرے ٹکڑے کو مزید رواں کرنے کی ضرورت ہے، 'بہت' کا تلفظ غلط ہو گیا ہے، ہ پر زبر ہو گا

بھلا کرو غریب کا ، یہ کام ہے ثواب کا
جو دے سکو ضرور دو ،بھلے ہی وہ قلیل ہو
--------------یہ تو میں نے ایک مثال دی تھی!

اسی طرح ہے زندگی کبھی خوشی کبھی ہے غم
خدا سے بس دعا کرو نہ غم کی شب طویل ہو
------------------'نہ دورِ غم طویل ہو' بہتر ہو گا۔ اس کے علاوہ 'یہی ہے زندگی' بھی زیادہ بہتر لگ رہا ہے اگر کسی طرح ان الفاظ کو لے آئیں

معاملاتِ زندگی ہیں ہر کسی کے مختلف
وہ طے کریں گے خود اُنہیں ، نہ تم کبھی دخیل ہو (جو جانتے ہیں حل ہے کیا ،نہ تم کبھی دخیل ہو )
--------------دخیل ہو مجھے لگتا ہے کہ دخل دو کی بجائے ٹھیک نہیں رہے گا
اس شعر کو اگر نکالنا چاہیں تو نکال دیں

کہاں چُھپے ہو یار تم ، کبھی کبھی ملا کرو
بہت ہی دیر ہو چکی ،ملن کی کچھ سبیل ہو
-------------------'بہت ہی' دیر پچھلی بار رہ گیا تھا۔ بہت کے ساتھ ہی اچھا نہیں لگ رہا بس اس ٹکڑا کو بدلنے کی ضرورت ہے

سفر تو شرط ہے مگر ، کیا کرے گا آدمی
وہ کس طرح چلے گا پھر جو سامنے فصیل ہو ( سفر کرے گا کس طرح ، جو سامنے فصیل ہو
---------------------------کیا اگر کرنا والا ہے یعنی میں نے یہ کام کیا تو 'ک یا' تقیطیع ہو گا اور اگر سوالیہ ہے کہ میں کیا کروں؟ تو 'کا' تقطیع ہو گا
'کرے گا کیا پھر آدمی' کر سکتے ہیں
دوسرے مصرع کو کسی اور طرح سے کہنے کی کوشش کریں

جہالتوں کےراج میں کرے گا حق کی بات وہ
جسے خدا کا خوف ہو ،نسب میں بھی اصیل ہو
---------------یہ شعر میرا خیال ہے کہ ٹھیک ہے

جو جس طرح بھی سوچ لے ، ہے سوچنے کا حق اُسے
تمہیں ہے اُن کی فکر کیوں ،نہ اُن کے تم وکیل ہو
-------------------------------یہ بھی درست
 

الف عین

لائبریرین
عظیم سے متفق ہوں
مطلع کے ضمن میں مزید یہ کہ جب بات اس طرح کہی جائے کہ یا یوں ہو یا دوسری طرح تو ان دونوں میں تضاد ہونا چاہیے، طویل کے ساتھ مختصر، لغو کے ساتھ معنی خیز
نہ ہو بہت ہی مختصر نہ وہ بہت طویل ہو
ایک متبادل ہے
 
Top