غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔محفلین ۔۔۔۔غزل حاضر کرتا ہوں اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے شکر گزار رہوں گا ۔۔۔۔۔
آنکھ جب سوگوار ملتی ہے
آنسؤں کی قطار ملتی ہے
درد سہنے کا ہو سلیقہ تو
پھر خوشی بے شمار ملتی ہے
تم دوبارہ نہیں ملے ۔۔۔سچ میں
زندگی ایک بار ملتی ہے
جیتنے کی ہزار صورت پر
ہار جانے سے ہار ملتی ہے
صحنِ گلشن کو لہو دیتا ہوں
تب یہ فصلِ بہار ملتی ہے
اب تو کوئی بھی دے صدا مجھ کو
صرف تیری پکار ملتی ہے
زندگی تو تو ہنس کے مل ہم سے
تو بھی سینہ فگار ملتی ہے
میرے جیسے ہیں کم ترے جیسی
ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہے
نور جینا ہے آپ کو تب تک
سانس جب تک ادھار ملتی ہے
 

عظیم

محفلین
آنکھ جب سوگوار ملتی ہے
آنسؤں کی قطار ملتی ہے
>مطلع واضح نہیں دوست

درد سہنے کا ہو سلیقہ تو
پھر خوشی بے شمار ملتی ہے
> تو کی جگہ اگر 'اگر' کر دینے سے میرے خیال میں دونوں مصرعوں میں ربط قائم ہو جائے گا

تم دوبارہ نہیں ملے ۔۔۔سچ میں
زندگی ایک بار ملتی ہے
>'سچ میں' عجیب لگ رہا ہے، اس کی جگہ کچھ اور لانے کی کوشش کریں مثلاً ' یہ جانا' وغیرہ

جیتنے کی ہزار صورت پر
ہار جانے سے ہار ملتی ہے
>یہ شعر بھی وضاحت طلب ہے

صحنِ گلشن کو لہو دیتا ہوں
تب یہ فصلِ بہار ملتی ہے
>پہلا مصرع بحر سے خارج ۔

اب تو کوئی بھی دے صدا مجھ کو
صرف تیری پکار ملتی ہے
>یہاں ردیف بے معنی ہو گئی ہے 'پکار ملتی' بے معنی لگ رہا ہے، میرے خیال میں 'صدا آتی' ہونا چاہیے

زندگی تو تو ہنس کے مل ہم سے
تو بھی سینہ فگار ملتی ہے
>درست

میرے جیسے ہیں کم ترے جیسی
ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہے
>>'ملتی ہین' ہونا چاہیے تھا

نور جینا ہے آپ کو تب تک
سانس جب تک ادھار ملتی ہے
>سانس کا ادھھار ملنا سمجھ میں نہیں آ رہا، یعنی کہاں سے ادھار مل رہے ہے ؟؟
 

شہنواز نور

محفلین
سر ۔۔۔۔ مطلع اور کچھ اشعار اصلاح کی گزارش ہے ۔۔۔۔۔
ہم سے جب بھی بہار ملتی ہے
تو بڑی سوگوار ملتی ہے
تم دوبارہ کہاں ملے ہم کو ؟
زندگی ایک بار ملتی ہے
جیت جانے کا عزم پیدا کر
ہار جانے سے ہار متی ہے
یہ مقدّر ہے میری آنکھوں کا
آنسؤں کی قطار ملتی ہے
نور کیا ہو گیا طبیعت کو
ہر گھڑی بے قرار ملتی ہے

سر اب کیا درست ہیں اشعار ؟
الف عین
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کا مفہوم سمجھ نہیں سکا، محبوبہ بہار میں سوگوار مل تو سکتی ہے لیکن سوگوار ہے کیوں؟
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
 
Top