غزل برائے اصلاح

چاہ کر بھی نہ کوئی ان سے گلا رکھتا ہوں
اپنے جذبات کسی طرح دبا رکھتا ہوں

اپنی تکلیف کا کرتا نہیں اظہار کبھی
اشک آنکھوں میں تو غم دل میں چھپا رکھتا ہوں

سرکشی اس کی بھلا کیسے سہوں میں ہر بار
میں بھی انسان ہوں کچھ میں بھی انا رکھتا ہوں

لذتِ درد ہے وہ جس نے مجھے روکا ہے
ورنہ میں اپنے ہر اک غم کی دوا رکھتا ہوں

کچھ سکوں پاتا ہوں اس واسطے تنہائی میں
گریہ و نالہ و فریاد بپا رکھتا ہوں

سخت مشکل میں بھی مایوس نہیں ہوتا کبھی
میں اندھیروں میں بھی امید ضیا رکھتا ہوں

دیکھ تنویر مرے حالِ پریشان کو دیکھ
دیکھ کیا عشق و محبت کا صلہ رکھتا ہوں
 
Top