غزل برائے اصلاح

زمانے بھر میں اب کوئی ہمیں اپنا نہیں لگتا
یہاں سب لوگ اچھے ہیں کوئی خود سا نہیں لگتا
اب اس کے واسطے یکسر خودی کو مار ڈالیں کیا
وہ ہم کو اچھا لگتا ہے مگر اتنا نہیں لگتا
نہ آنکھوں میں ہیں حلقے اور نہ رنگت اڑی سی ہے
وہ کہتا ہے کہ تنہا ہے مگر تنہا نہیں لگتا
میں تم سے پیار کرتی ہوں یہ جملہ سننا چاہا تھا
کہا اس نے کہ یوں کہنا ہمیں اچھا نہیں لگتا
ہیں دیکھیں مشکلیں اتنی کہ اب تو جو بھی ہو جائے
ذرا دھڑکا نہیں لگتا ذرا کھٹکا نہیں لگتا
کبھی لگتا ہے دشمن ہے کبھی محبوب لگتا ہے
اے دل اب بس بھی کردے وہ تجھے کیا کیا نہیں لگتا
کہا ہم نے محبت کے بنا سب کچھ ادھورا ہے
کہا اس نے کہ ہوگا پر ہمیں ایسا نہیں لگتا
ذرا اس دل کی حالت دیکھنا کہ اس دیوانے کو
سوا اک بے وفا کے کوئی بھی پیارا نہیں لگتا
اب آخر شانؔ تیرے دل کا کیا ہوگا کہ بیچارہ
تجھے تیرا نہیں لگتا اسے اس کا نہیں لگتا
 
Top