غزل برائے اصلاح

وجاہت حسین

محفلین
میری بخشش کا سرِ حشر جو اعلان ہوا
سُن کے زاہد بڑا حیران پریشان ہوا

اک اشارے پہ مرا قلب اڑے جائے کیوں
کیا ترا حکم بھی اب حکمِ سلیمانؑ ہوا؟

آپؐ کی جنبشِ لب سے جو نگینہ چمکا
خاتَمِ دہر پہ سنت کبھی قرآن ہوا

دل کی میزان پہ رکھ کر پرکھ اشعار اپنے
فاعلاتن فعِلن بھی کوئی فرقان ہوا

میری غایت کسی قدسی کے تصور میں نہیں
میں نباتات سے حیوان، پھر انسان ہوا

کیوں یہ کہتا ہے کہ مسجد کو نہیں آئے گا تُو
میں تری دید کی خاطر تو مسلمان ہوا

خضر کے ہاتھ سے ٹوٹا جو پیالہ حافظؔ
بچ گئی جان، بس اک جام کا نقصان ہوا​
 
آخری تدوین:

علی صہیب

محفلین
میری غایت کسی قدسی کے تصور میں نہیں
میں نباتات سے حیوان، پھر انسان ہوا​
مولائے روم کے مریدوں اور ڈارون کے مقلدین کے لیے یہ کچھ خاص تعجب خیز نہیں۔۔۔ مگر ڈر ہے کہ "سُن کے زاہد بڑا حیران پریشان نہ ہو"
اصلاح کے لیے اساتذہ کے منتظر رہیے!
 

عظیم

محفلین
میرا مشورہ ہے کہ چوتھے شعر کے پہلے مصرع میں 'کے' کی جگہ 'کر' استعمال کریں اور چھٹے شعر کے پہلے مصرع کو یوں کر لیں
کیوں یہ کہتا ہے کہ مسجد کو نہیں آئے گا تو
'تو' جو تخاطب کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کی 'و' کا گرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا
ایک اور بات کہ مجھے لگتا ہے آپ نے 'فاعلن مفتعلن' ارکان منتخب کئے ہیں. حالانکہ میرے خیال میں یہ بحر 'فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن' ہو گی
 

وجاہت حسین

محفلین
میرا مشورہ ہے کہ چوتھے شعر کے پہلے مصرع میں 'کے' کی جگہ 'کر' استعمال کریں اور چھٹے شعر کے پہلے مصرع کو یوں کر لیں
کیوں یہ کہتا ہے کہ مسجد کو نہیں آئے گا تو
بہت شکریہ۔ جو آپ نے فرمایا وہ بہتر ہے۔ میں نے آپ کی اصلاح کے مطابق کلام میں ترمیم کر دی ہے۔

ایک اور بات کہ مجھے لگتا ہے آپ نے 'فاعلن مفتعلن' ارکان منتخب کئے ہیں. حالانکہ میرے خیال میں یہ بحر 'فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن' ہو گی
جی بیشک، صرف مقصود افاعیل کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ کلامِ موزوں ہی شعر نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی جمالیات بھی رکھتا ہے۔فاعلاتن فعلاتن کی تکرار کی بجائے دو ارکان استعمال کئے ہیں۔
 
واہ! خوب غزل ہے۔
میری غایت کسی قدسی کے تصور میں نہیں
میں نباتات سے حیوان، پھر انسان ہوا
لاجواب۔
اصلاح نہیں فقط ایک مشورہ ہے: فاعلاتن فعِلن تقطیعِ حقیقی کے قریب ہے؛ میرے خیال میں زیادہ موزوں رہے گا۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
برادرم وجاہت السلام علیکم!

آپ ما شاء اللہ شاعری کی صلاحیت سے مالا مال ہیں لیکن پردیس میں ہونے کی وجہ سے غالباً آپ کو اہل زبان کی صحبت میسر نہ آسکی جس کا ثبوت آپ کے کلام میں کچھ زبان و بیان کی واضح غلطیوں کی صورت نظر آتا ہے -محاورے اور روز مرّہ کو درست برتنا بہرحال شاعری کا جزو لاینفک ہے کہ جو صحبتِ اہلِ زبان کے بغیر مشکل ہے -وہ الگ بات کہ اہل زبان کے ہاں آج کل بجز ماں بہن کی شان میں مغلظات بکنے کے رہ کچھ نہیں گیا مگر کچھ شرفاء ہیں کہ جن کے ہاں آج بھی شستہ اور شائستہ اردو رائج ہے -

آپ کے کلام پر کچھ باتیں بے تکلف لکھوں گا امید ہے برا نہ مان کر آئندہ آنے کا موقع بھی فراہم کریں گے -

میری بخشش کا سرِ حشر جو اعلان ہوا
سُن کے زاہد بڑا حیران' پریشان ہوا

واہ -پرمزاح 'پر لطف -بہت خوب -کالج کے زمانے میں ہم ٹلے باز تھے کلاس میں کم ہی جاتے تھے -جب بفضل الہی پاس ہو جاتے تو موٹی عینکوں والے ہم پر یوں ہی حیران ہوتے تھے -اس کو کبھی احقر نے یوں قلم بند کیا تھا:


ہم سے جلتے ہیں جماعت کے پڑھاکو بچے
کہ ہوا پاس یہ نا اہلِ دبستاں کیونکر


اک اشارے پہ مرا قلب اڑے جائے کیوں
کیا ترا حکم بھی اب حکمِ سلیمانؑ ہوا؟

قلب اڑنا تو کوئی محاورہ ہی نہیں -پھر قلب کے اڑنے اور حکم سلیمان کا کیا جوڑ ؟

آپؐ کی جنبشِ لب سے جو نگینہ چمکا
خاتَمِ دہر پہ سنت کبھی قرآن ہوا

یہ بھی میری عقل سے تو ماورا ہے -

دل کی میزان پہ رکھ کر پرکھ اشعار اپنے
فاعلاتن فعِلن بھی کوئی فرقان ہوا

خوب ہے -

میری غایت کسی قدسی کے تصور میں نہیں
میں نباتات سے حیوان، پھر انسان ہوا

خلاف واقعہ -

کیوں یہ کہتا ہے کہ مسجد کو نہیں آئے گا تُو
میں تری دید کی خاطر تو مسلمان ہوا

یہ شعر موضوعاتی لگا -یعنی جو آفاقیت غزل کے شعر میں درکار ہے یہاں نہیں -عام قاری کو کیا معلوم کس نے آپ سے کہا کہ وہ مسجد میں نہیں آئے گا اور آپ اس کے دیکھنے ہی کے لئے مسلمان ہوئے ہیں -

خضر کے ہاتھ سے ٹوٹا جو پیالہ حافظؔ
بچ گئی جان، بس اک جام کا نقصان ہوا

یہ بھی نہ جانے کس حکایت کی طرف اشارہ ہے _


طالب دعا
یاسر
 
Top