غزل برائے اصلاح

سفر طویل ہے اور راہبر کوئی بھی نہیں
ہمارے ساتھ میں اب ہمسفر کوئی بھی نہیں

تمہارے ہجر میں دن رات میں تڑپتا ہوں
کیا میرے حال کی تم کو خبر کوئی بھی نہیں؟

تمہارا دل ہے یا پتھر یہ مجھ کو بتلادو
کیوں میری آہ کا اِس پر اثر کوئی بھی نہیں

یہ درد ہجر ہے اس کی وصالِ یار سوا
زمانہ بھر میں دوا کارگر کوئی بھی نہیں

جو سنگ دل کو ترے موم کردے پگھلا کر
ہمارے پاس میں ایسا ہنر کوئی بھی نہیں

ہم ہوگئے ہیں مسافر رہِ محبت کے
اب اس جہاں میں ہمارا شہر کوئی بھی نہیں

یہ دشتِ عشق ہے تنویر بس یہ یاد رہے
کہ سایہ دار یہاں پر شجر کوئی بھی نہیں
 
مدیر کی آخری تدوین:
اساتذہ کے تشریف لانےسے پہلے ہماری صلاح:

سفر طویل ہے اور راہبر کوئی بھی نہیں
ہمارے ساتھ میں اب ہمسفر کوئی بھی نہیں
''ہمارے ساتھ' درست ہوگا، ترکیب میں 'میں' زیادہ ہے۔ یوں کرسکتے ہیں

ہمارے ساتھ یہاں ہمسفر کوئی بھی نہیں





تمہارے ہجر میں دن رات میں تڑپتا ہوں
کیا میرے حال کی تم کو خبر کوئی بھی نہیں؟

دوسرے مصرع میں 'کیا' کو 'کہ' یا 'پہ' کردیجیے


تمہارا دل ہے یا پتھر یہ مجھ کو بتلادو
کیوں میری آہ کا اِس پر اثر کوئی بھی نہیں

اس شعر کے دوسرے مصرع میں بھی 'کیوں' کو 'کہ' کردیجیے


جو سنگِ دل کو ترے موم کردے پگھلا کر
ہمارے پاس میں ایسا ہنر کوئی بھی نہیں

پاس میں کو 'ہاتھ میں' کردیجیے

ہم ہوگئے ہیں مسافر رہِ محبت کے
اب اس جہاں میں ہمارا شہر کوئی بھی نہیں

ہم ہوگئے کو ' ہمیں ہوئے' یا 'ہمیں بنے' کردیجیے۔ نیز دوسرے مصرع میں شہر کو آپ نے ش اور ہ دونوں کو متحرک باندھا ہے اسے ''نگر' کرسکتے ہیں ۔


 
Top