غزل برائے اصلاح : ہم نے دھڑکن سے جو کچھ سنا کہہ دیا

انس معین

محفلین
سر غزل برائے اصلاح : الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:

اس ستم گر کو جانِ وفا کہہ دیا
ہم نے دھڑکن سے جو کچھ سنا کہہ دیا
-------------
آنسؤں کی جھڑی ہجر کی رات کو
ان کی یادوں کا اک سلسلہ کہہ دیا
-------------
ہجر میں اپنا دم آنکھوں میں آگیا
اور تم نے اسے رت جگا کہہ دیا
-------------
شعر ادرک سی تاثیر رکھتا ہے اور
شیخ نے شاعروں کو برا کہہ دیا
-------------
بات تہذیب کی آج جس نے بھی کی
اس کو ہم سب نے گزرا گیا کہہ دیا
-------------
اپنا مطلب تو یارو نکل آیا ہے
کیا ہوا جو اسے بھی خدا کہہ دیا
-------------
حسنِ بنتِ حوا بیچ کر جاہلو
تم نے سوچوں کو اپنی نیا کہہ دیا ؟
-------------
تم نے مخمور آنکھوں سے دیکھا اسے
اور احمد نے دل کو ترا کہہ دیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس ستم گر کو جانِ وفا کہہ دیا
ہم نے دھڑکن سے جو کچھ سنا کہہ دیا
------------- درست، لیکن واضح نہیں

آنسؤں کی جھڑی ہجر کی رات کو
ان کی یادوں کا اک سلسلہ کہہ دیا
------------- یہ بھی واضح نہیں۔ کیا دونوں کو سلسلہ کہا گیا، آنسوؤں اور ہجر کی رات کو؟ یا ہجر کی رات میں محض آنسوؤں کی جھڑی کو؟

ہجر میں اپنا دم آنکھوں میں آگیا
اور تم نے اسے رت جگا کہہ دیا
------------- آنکھوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں
ہجر میں اپنا آنکھوں میں دم آ گیا
ہو سکتا ہے

شعر ادرک سی تاثیر رکھتا ہے اور
شیخ نے شاعروں کو برا کہہ دیا
------------- مزاحیہ لگتا ہے شعر۔ لہسن، دھنیا، ہلدی کچھ بھی لایا جا سکتا ہے نا!

بات تہذیب کی آج جس نے بھی کی
اس کو ہم سب نے گزرا گیا کہہ دیا
------------- گیا گزرا محاورہ ہوتا ہے مگر خیر، مجبوری میں گوارا کیا جا سکتا ہے

اپنا مطلب تو یارو نکل آیا ہے
کیا ہوا جو اسے بھی خدا کہہ دیا
------------- آیا کے الف کا اسقاط درست نہیں 'نکل ہی گیا' میں تاثر بھی بہتر محسوس ہوتا ہے

حسنِ بنتِ حوا بیچ کر جاہلو
تم نے سوچوں کو اپنی نیا کہہ دیا ؟
------------- حوا کی و پر تشدید ہوتی ہے، یہاں بغیر شد کے تقطیع ہو رہا ہے۔

تم نے مخمور آنکھوں سے دیکھا اسے
اور احمد نے دل کو ترا کہہ دیا
... ترا قافیہ سے مطلب 'تیرا' ہے تو شتر گربہ ہے، تو نے مخمور..... ہو سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
بھائی محمد خلیل الرحمٰن محض بٹن دبا دیتے ہیں پسندیدگی کا ( یا 'زبردستی' کا) کچھ مزید نہیں کہتے! بلکہ بہتر ہو کہ مجھ سے پہلے ہی آ کر کچھ اغلاط کی نشاندہی کر دیا کریں ( اور میں متفق کا بٹن دبا دیا کروں مزید کچھ کہنا نہ ہو تو)
 
بھائی محمد خلیل الرحمٰن محض بٹن دبا دیتے ہیں پسندیدگی کا ( یا 'زبردستی' کا) کچھ مزید نہیں کہتے! بلکہ بہتر ہو کہ مجھ سے پہلے ہی آ کر کچھ اغلاط کی نشاندہی کر دیا کریں ( اور میں متفق کا بٹن دبا دیا کروں مزید کچھ کہنا نہ ہو تو)
صبح سے ارشد بھائی کی غزل پر غور کررہے تھے اور وہی موضوع تھا جس پر آپ نے بہت بہتر اور خوبصورت انداز میں قلم اٹھایا ، یعنی الفاظ کی نشست و برخواست۔ آپ کے تبصرے ہم سب مبتدیوں کو بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
 
مکرمی و استاذی، آداب!

اگر مطلع کے مصرعوں کی ترتیب الٹ دی جائے تو کیا مفہوم واضح ہوتا ہے، اور ربط میں کچھ بہتری آتی ہے؟
یعنی
ہم نے دھڑکن سے جو کچھ سنا، کہہ دیا
اس ستم گر کو جانِ وفا کہہ دیا
الف عین
 

الف عین

لائبریرین
مکرمی و استاذی، آداب!

اگر مطلع کے مصرعوں کی ترتیب الٹ دی جائے تو کیا مفہوم واضح ہوتا ہے، اور ربط میں کچھ بہتری آتی ہے؟
یعنی
ہم نے دھڑکن سے جو کچھ سنا، کہہ دیا
اس ستم گر کو جانِ وفا کہہ دیا
الف عین
کچھ بہتری تو ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن پھر بھی مزید وضاحت کی جائے تو اچھا ہے
 
Top