غزل برائے اصلاح -ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں ۔ از محمد اظہر نذیر

ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

کس درجہ پہ جاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تری جفاؤں کی قدر دیکھ رہے ہیں

اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں

ہم بھول چکے ہیں کے کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

اے مردِ مسلمان ذرا یہ بھی تو سوچو
ممکن ہے کہ اللہ کا قہر دیکھ رہے ہیں

اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
اب تری طرف لوگ اظر دیکھ رہے ہیں​


اساتذہ کرام،
آپ کی خدمت میں گزارش کے ساتھ ایک غزل لیے حاضر ہوں، توجہ فرمایے
مشکور
اظہر
 

مغزل

محفلین
فاتح بھیا آپ نے شاید مغلیائی نظروں سے دیکھا ہے ، وزن کی خرابی اور دیگر معائب موجود ہیں ۔ :lovestruck:
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھیا آپ نے شاید مغلیائی نظروں سے دیکھا ہے ، وزن کی خرابی اور دیگر معائب موجود ہیں ۔ :lovestruck:
مجھے تو وزن کی بجائے املا کی اغلاط ہی نظر آئیں یا ایک لفظ "قہر" کا تلفظ۔ معانی کی جانب تو میں ابھی آیا ہی نہیں۔
لیکن آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے:)۔ وزن کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کر دیجیے۔ مجھ سمیت بہتوں کا بھلا ہو جائے گا۔
 

مغزل

محفلین
ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

کس درجہ پہ جاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تری جفاؤں کی قدر دیکھ رہے ہیں
یہاں قدر ( بروزنِ درد) کا محل ہے ’’ قِدَر ‘‘ کا نہیں۔
اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں

ہم بھول چکے ہیں کے کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

اے مردِ مسلمان ذرا یہ بھی تو سوچو
ممکن ہے کہ اللہ کا قہر دیکھ رہے ہیں
کیا غلط تلفظ باندھنے سے وزن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ؟؟؟
اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
اب تری طرف لوگ اظر دیکھ رہے ہیں
املا کی غلطی اپنی جگہ اس وقت صرف اظہر کو اظر کرنا ؟؟؟
باقی کوئی شعر ایسا نہیں جس میں عین غین نہ موجود ہو ؟؟ اب وہ فنی ہو یا معنوی، صرفی ہویا نحوی یا املا شریف کی۔ ۔ بہرحال ہے تو ہے۔
( اب اجاز ت ہوگی تو کچھ کہوں گا۔ وگرنہ بابا جانی اور وارث صاحب سمیت آپ کو زحمت دی جائے گی ):sad2:
 
ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

کس درجہ پہ جاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تری اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں

اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں

ہم بھول چکے ہیں کے کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

اے مردِ مسلمان ذرا یہ بھی تو سوچو
ممکن ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں

اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں​

ضناب مغل صاحب،
اب کچھ ٹھیک لگ رہا ہے کیا؟
والسلام
اظہر
 

مغزل

محفلین
وزن کا معاملہ تو میری دانست میں درست ہے ، اب ۔۔
’’ فنی، معنوی، صرفی ،نحوی یا املا شریف کی خامیاں موجود ہیں ‘‘
اب اس طرف دھیان دیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

اچھا شعر ہے، درست

کس درجہ پہ جاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تری اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں
بے معنی ہے جب تک کہ شاعر اس کا مطلب نہ سمجھائے۔ اس کے علاوہ ’تری‘ نہیں ’تیری‘ بحر میں آتا ہے، مبتدی حضرات کو لکھنے میں بھی اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے، کہ کہاں ’ترا‘، ’مرا‘، آ رہا ہے اور کہاں مکمل ’تیرا‘، ’میرا‘

اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں
قسمت کس کی؟ ہائے ری قسمت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مطلب بد قسمتی سے ہے، یعنی ہماری بد بختی۔ لیکن یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے زیر کیا ہے، ان کی خوش قسمتی پر رشک آ رہا ہے۔ ایک آنچ کی کسر ہے اس شعر میں۔ ویسے درست ہے۔

ہم بھول چکے ہیں کے کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

یہاں بھی ’کے‘ نہیں، ’کہ‘ کا محل ہے۔ باقی درست۔

اے مردِ مسلمان ذرا یہ بھی تو سوچو
ممکن ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں
حزر؟ میری سمجھ میں نہیں آئا، اور پھر ’ممکن ہے‘ کیوں۔ اس کے علاوہ ’اے مرد مسلمان‘ کا تخاطب یہاں واحد کلمۂ تخاطب کا متقاضی ہے، یعنی ‘تو‘ کا، خیر اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے جیسے
اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا

اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں
یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

درست، اگرچہ کہنا کیا چاہ رہے ہو، اس کا سوال باقی رہتا ہے۔

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں

یہ بھی میری فہم سے بالاتر ہے۔ اس لئے چپ ہوں۔
 
ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

کس درجہ ستاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تیری اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں

اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں

ہم بھول چکے ہیں کہ کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا
ایسا ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں

اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں

محترم اُستاد جی،
مطلوب تبدیلیاں کر دی ہیں، اب دیکھیے تو
حذر بمعنیٰ "اللہ کے ہم سے پرہیز" کے لیا ہے
بہت نوازش، بہت شکریہ
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
کس درجہ ستاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تیری اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں
اس میں پہلے مصرع میں تم ہے، اور دوسرے مصرع میں تو۔ یہ غلطی ہے۔
تم وضاحت نہیں کرتے کہ کس شعر میں کیا تبدیلی کی ہے، اور جہاں میں نے لکھا ہے کہ کیا مطلب ہے، اس کو تم کیسے واضح کرتے ہو۔۔ اس لئے اب بھی کچھ مزید کرنے سے قاصر ہوں۔
 
ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

اچھا شعر ہے، درست

کس درجہ پہ جاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تری اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں
بے معنی ہے جب تک کہ شاعر اس کا مطلب نہ سمجھائے۔ اس کے علاوہ ’تری‘ نہیں ’تیری‘ بحر میں آتا ہے، مبتدی حضرات کو لکھنے میں بھی اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے، کہ کہاں ’ترا‘، ’مرا‘، آ رہا ہے اور کہاں مکمل ’تیرا‘، ’میرا‘

کِس درجہ ستائیں گے کوئی یہ تو بتا دو
ہم اُنکی اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں


اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں
قسمت کس کی؟ ہائے ری قسمت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مطلب بد قسمتی سے ہے، یعنی ہماری بد بختی۔ لیکن یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے زیر کیا ہے، ان کی خوش قسمتی پر رشک آ رہا ہے۔ ایک آنچ کی کسر ہے اس شعر میں۔ ویسے درست ہے۔

ہیاں سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں

ہم بھول چکے ہیں کے کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

ہم بھول چکے ہیں کہ کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں


یہاں بھی ’کے‘ نہیں، ’کہ‘ کا محل ہے۔ باقی درست۔

اے مردِ مسلمان ذرا یہ بھی تو سوچو
ممکن ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں
حزر؟ میری سمجھ میں نہیں آئا، اور پھر ’ممکن ہے‘ کیوں۔ اس کے علاوہ ’اے مرد مسلمان‘ کا تخاطب یہاں واحد کلمۂ تخاطب کا متقاضی ہے، یعنی ‘تو‘ کا، خیر اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے جیسے
اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا

اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا
ایسا ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں


اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں
یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔

ہیاں مراد بہت ابیض سے ہے جو بد قسمتی سے ہمارا قبلہ بن چکا ہے- جبکہ ہم گمبدِ خضرا کے مکیں ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

درست، اگرچہ کہنا کیا چاہ رہے ہو، اس کا سوال باقی رہتا ہے۔

یہاں مراد یہ ہے کہ ہم لوگ مکہ مدیننہ کی طرف جانے کی بجائے امریکہ کی طرف جاتے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں

یہ بھی میری فہم سے بالاتر ہے۔ اس لئے چپ ہوں۔

سبز رنگ اللہ کے رسول کا پسندیدہ تھا اُسی طرف اشارہ کیا تھا کہ عاشقِ رسول یہی رنگ پہنیں

ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

کِس درجہ ستائیں گے کوئی یہ تو بتا دو
ہم اُنکی اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں

اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں

ہم بھول چکے ہیں کہ کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا
ایسا ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں

اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں

مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں

کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں
یہ تینوں اشعار اگر قوم مسلمان سے خطاب ہے تو اس میں بحث کی گنجائش ہے۔ بیت ابیض سے مراد وائٹ ہاؤس امریکہ ہے شاید جیسا کہ تم نے وضاحت کی ہے، وہ تو درست، لیکن مسلمان کب سے گنبد خضرا کے مکیں ہو گئے؟ شعر اس لحاظ سے اب سمجھ میں آیا ہے کہ
یہ وائٹ ہاؤس کی طرف اشارہ ہے، لیکن شعر میں کوئی قرینہ ایسا نہیں جس سے یہ مراد لی جائے، ہاں اس پر نوٹ دے کر قاری کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ اشارہ وائٹ ہاؤس یعنی امریکہ کی طرف ہے۔
اس کے علاوہ اسلام خود مسلم کو سفر کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، علم کی خاطر، اگرچہ چین کی طرف سفر کرنے کی حدیث مشہور ضرور ہے، لیکن درست نہیں، لیکن پھر بھی علم کی تلاش مستحسن سمجھی جاتی ہے اسلام میں، اور امریکہ اگر حصول علم کے لئے کوئی جانا چاہے تو اس پر قدغن کیوں، ہاں، اگر کسی کا مقصد صرف پیسا کمانا ہو تو کہا جا سکتا ہے، دوسرے شعر میں ایسا کوئی حوالہ نہیں کہ لوگ امریکہ کیوں جا رہے ہیں جو ان کے لئے اچھا نہیں ہے، اور ان کو صرف مکہ اور مدینہ کا سفر جائز سمجھا جا رہا ہے؟
تیسرا شعر اب بھی تا قابل فہم ہے، مراد اوپر کے تینوں اشعار کے آخری شعر سے ہے۔
 
Top