غزل برائے اصلاح :: واقف نہیں ہے تو مرے حالِ تباہ سے

استادِ محترم سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: و دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست

واقف نہیں ہے تو مرے حالِ تباہ سے
خائف ہے آسماں بھی مری طرزِ آہ سے

اک تیرگی کا شہر میں عالم ہے اور پھر
امیدِ روشنی بھی تو مجھ رو سیاہ سے

اس نے تو کھولے رکھا تھا جود و سخا کا در
ہم ہی گریز پا رہے اس بارگاہ سے

ان کو بھی ظلمتوں نے سبو تاژ کر دیا
وابستہ تھے جو لوگ یہاں مہر و ماہ سے

یہ شان واہ واہ کہ تیرا فقیر بھی
منہ تک نہیں لگاتا کسی کج کلاہ سے
 
اچھی کاوش ہے، میرے پاس تو زیادہ کچھ کہنے کے لیے نہیں، دو ایک باتوں کے علاوہ

مطلع کے مصرعِ ثانی میں طرزِ آہ کے بجائے محض آہ کہنا شاید زیادہ بہتر رہے۔ مثلا
خائف ہے آسمان بھی اب میری آہ سے

اس نے تو کھولے رکھا تھا جود و سخا کا در
ہم ہی گریز پا رہے اس بارگاہ سے
کیونکہ پہلے مصرعے میں اُس کے ذریعے مشار الیہ کا تعین کر دیا گیا ہے، اس لیے دوسرے مصرعے میں اس بارگاہ کے بجائے اس کی بارگاہ کہنا چاہیے۔ یا پھر پہلے مصرعے کا بیان عمومی رکھا جائے یعنی محض جود و سخا کا در کھلا ہونے کا تذکرہ ہو، کھلا رکھنے والے کی جانب اشارہ نہ ہو۔

ان کو بھی ظلمتوں نے سبو تاژ کر دیا
وابستہ تھے جو لوگ یہاں مہر و ماہ سے
سبوتاژ یہاں برمحل نہیں۔ سبوتاژ کی عمل کو کیا جاسکتا ہے، شخصیت کو نہیں۔

یہ شان واہ واہ کہ تیرا فقیر بھی
منہ تک نہیں لگاتا کسی کج کلاہ سے
درست محاورہ کسی کو منہ نہ لگانا ہے، کسی سے منہ نہ لگانا میرے خیال میں درست نہیں۔
 
شکریہ راحل بھائی اصلاح کیلئے
اگر اس مصرعے کو ایسے کر دیں تو کیا درست ہو جائے گا
اب ظلمتوں نے ان کو بھی برباد کر دیا
وابستہ تھے جو لوگ یہاں مہر و ماہ سے

اور یہ شعر
ہم پر کھلا ہوا تھا وہ جود و سخا کا در
ہم ہی گریز پا رہے اس بارگاہ سے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ
اک تیرگی کا شہر میں عالم ہے اور پھر
امیدِ روشنی بھی تو مجھ رو سیاہ سے
اک تیرگی سمجھ میں نہیں آیا، اگر محض یہ اظہار کیا گیا ہے کہ سارے شہر میں تیرگی محیط ہے، اور امید روشنی بھی 'اگر ہے' تو مجھ رو سیاہ سے! شاید یوں بہتر ہو
ڈیرا ہے تیرگی کا ہر اک سمت اور پھر
ہے روشنی کی آس بھی مجھ....
 
مزید یہ کہ
اک تیرگی کا شہر میں عالم ہے اور پھر
امیدِ روشنی بھی تو مجھ رو سیاہ سے
اک تیرگی سمجھ میں نہیں آیا، اگر محض یہ اظہار کیا گیا ہے کہ سارے شہر میں تیرگی محیط ہے، اور امید روشنی بھی 'اگر ہے' تو مجھ رو سیاہ سے! شاید یوں بہتر ہو
ڈیرا ہے تیرگی کا ہر اک سمت اور پھر
ہے روشنی کی آس بھی مجھ....

استادِ محترم بہت شکریہ اصلاح کیلئے
اگر اس مصرعے کو ایسے کر دیا جائے تو کیا ٹھیک ہوجائے گا؟
اب تیرگی کا شہر میں عالم ہے اور پھر
امیدِ روشنی بھی تو مجھ رو سیاہ سے

اور یہ شعر بھی دیکھیں
برباد کر دیا ہے انہیں ظلمتوں نے اب
وابستہ تھے جو لوگ یہاں مہر و ماہ سے


الف عین
 

الف عین

لائبریرین
استادِ محترم بہت شکریہ اصلاح کیلئے
اگر اس مصرعے کو ایسے کر دیا جائے تو کیا ٹھیک ہوجائے گا؟
اب تیرگی کا شہر میں عالم ہے اور پھر
امیدِ روشنی بھی تو مجھ رو سیاہ سے

اور یہ شعر بھی دیکھیں
برباد کر دیا ہے انہیں ظلمتوں نے اب
وابستہ تھے جو لوگ یہاں مہر و ماہ سے


الف عین
مجرد عالم کا محاورہ درست نہیں۔ تیرگی کا کیا/کیسا عالم ہے درست محاورہ ہے محض عالم درست نہیں۔
نیا شعر بھی درست ہے
 
Top