غزل برائے اصلاح : میرے چاروں طرف، خنجر بکف کوئی تو ہے : عمران نیازی

Imran Niazi

محفلین
اسلام و علیکم :​

میرے چاروں طرف، خنجر بکف کوئی تو ہے
یہاں پہ ایک قاتل صف بہ صف کوئی تو ہے
نشانہ لے رہا ہے دوسروں کی زندگی کا
مگر ہے اُس کا تیر اپنی طرف کوئی تو ہے
سُنا کے سب کو چند آیات وہ قرآن کی
وہ کیوں کرتا ہے معنی کو حذف کوئی تو ہے
وہ دشمن ہے مرا کہ میرے اُس دشمن کا ہے
نجانے ہے وہ اب کس کی طرف کوئی تو ہے
نہیں عمران جس کو علم کچھ انجام کا
مگر وہ گامزن ہے بے ہدف کوئی تو ہے​
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہوں اصلاح کے ساتھ
میرے چاروں طرف، خنجر بکف کوئی تو ہے
یہاں پہ ایک قاتل صف بہ صف کوئی تو ہے
///بڑی مشکل زمین پسند کی ہے عمران، قوافی بھی اور بحر بھی۔ اس وجہ سے ہی کچھ مسائل ہو گئے ہیں۔ بحر بہر حال یہ ہے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعو/مفا
یہ بحر مستعمل بحروں میں شامل نہیں، البتہ یہ بحر جائز بحر ہے
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
اس میں ایک رکن کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، یعنی
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن
اس صورت میں مطلع یوں ہونا چاہئے:
مرے چاروں طرف، خنجر بکف کوئی تو ہو گا
یہاں پر ایک قاتل صف بہ صف کوئی تو ہو گا

پہلے مصرع میں ’مرے‘ کا محل ہے۔ لیکن دوسرے مصرعے میں ایک بڑی خامی ہے۔ جب قاتل ایک ہی ہے تو صف بہ صف کا مطلب؟ وہ جو محاورہ ہے نا کہ اکیلا چنا کیسے بھاڑ جھونکے گا؟ اکیلا قاتل کیسے صفیں بنائے گا؟ ویسے اگر یہی مصرع رکھنے پر بضد ہوں تو اتنا کر دیں کہ ’پہ‘ کو ’پر‘ کر دیا جائے۔

نشانہ لے رہا ہے دوسروں کی زندگی کا
مگر ہے اُس کا تیر اپنی طرف کوئی تو ہے
/// پہلے مصرع کی تقطیع کرو، رکن ’کا‘ زیادہ ہے۔ یعنی اصل بحر کے حساب سے۔ تبدیل شدہ بحر کے حساب سے درست ہے۔ لیکن زندگی کا نشانہ؟ سینوں یا سروں کا لیا جاتا ہے!!
نشانہ لے رہا تھا وہ عدو کی چھاتیوں کا
مگر ہے اُس کا تیر اپنی طرف کوئی تو ہو گا
کیسا ہے؟

سُنا کے سب کو چند آیات وہ قرآن کی
وہ کیوں کرتا ہے معنی کو حذف کوئی تو ہے
/// میری سمجھ میں یہ شعر نہیں آیا۔ معنی کو حذف نہیں کیا جا سکتا، ہاں معانی بدلے جا سکتے ہیں۔ پہلا مصرع تمہاری اصل بحر اور مجوزہ بحر دونوں سے خارج ہے۔
سناتا رہتا ہے وہ سب کو جب قرآنی آیات
وہ کیوں کرتا ہے معنی کو حذف کوئی تو ہو گا
لیکن کوئی تو ہے یا کوئی تو ہو گا، دونوں مفاہیم یہاں فٹ نہیں ہوتے۔

وہ دشمن ہے مرا کہ میرے اُس دشمن کا ہے
نجانے ہے وہ اب کس کی طرف کوئی تو ہے
/// پہلی بات تو یہی کہ اس شعر میں بھی ’کوئی تو ہے‘ بے معنی ہے جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ کوئی ہے ضرور، بلکہ انجان بھی نہیں ہے، تم کو معلوم ہے کہ فلاں شخص فلاں فلاں حرکتیں کر رہا ہے۔ پھر اس تجاہل عارفانہ کا مطلب؟ پہلے مصرع کو مجوزہ بحر میں لا سکتا ہوں، لیکن پہلے معانی تو واضح ہو جائیں!!

نہیں عمران جس کو علم کچھ انجام کا
مگر وہ گامزن ہے بے ہدف کوئی تو ہے
ایضاً۔
مجوزہ بحر میں لانے کے لئے محض ’بھی‘ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
نہیں عمران جس کو علم کچھ انجام کا بھی۔۔۔۔
 
Top