غزل برائے اصلاح "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن"

مرے یارو میں جب سے اپنے اندر دیکھ سکتا ہوں
تبھی سے بند آنکھوں سے سمندر دیکھ سکتا ہوں

ہے ایسی خاک سے نسبت جہاں اقبال رہتے تھے
تو اے واعظ میں بھی خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں

ہیں میرے ساتھ ماں کی جو دعائیں بھی مرے مولا
تو نے کیا لکھا ہے میرا مقدر دیکھ سکتا ہوں

ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں

اگر وہ شہر میں آئے عجب سی خوشبو ہوتی ہے
وہ ایسی خوشبو ہے جو میں برابر دیکھ سکتا ہوں

مجھے اب قتل کی دمکی نہ دی جائے کہ میں وہ ہوں
جو اپنے قتل کا گستاخؔ منظر دیکھ سکتا ہوں​
 
ماشاءاللہ خوب کلام ہے، بہت ساری داد​

مرے یارو میں جب سے اپنے اندر دیکھ سکتا ہوں
تبھی سے بند آنکھوں سے سمندر دیکھ سکتا ہوں

تخاطب یاروں تک ہی محدود کیوں رکھا جائے؟
اگر اپنے اندر کے سمندر کو دیکھنے کی بات ہو رہی ہے تو اس طرح زیادہ وضاحت ہو جائے گی

میں آنکھیں بند کر کے اپنے اندر دیکھ سکتا ہوں
مرے اندر جو لرزاں ہے سمندر دیکھ سکتا ہوں


ہے ایسی خاک سے نسبت جہاں اقبال رہتے تھے
تو اے واعظ میں بھی خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں


"میں" وزن سے گر رہا ہے
مجھے حق ہے کہ میں خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں


ہیں میرے ساتھ ماں کی جو دعائیں بھی مرے مولا
تو نے کیا لکھا ہے میرا مقدر دیکھ سکتا ہوں

مری ماں کی دعائوں سے بصیرت وہ ملی مجھ کو
لکھا ہے جو بھی مالک نے مقدر دیکھ سکتا ہوں


ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں

اس شعر میں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں میں سمجھ نہیں پایا، آپ وضاحت فرما دیں تو میں اپنا مشورہ پیش کرسکتا ہوں۔


اگر وہ شہر میں آئے عجب سی خوشبو ہوتی ہے
وہ ایسی خوشبو ہے جو میں برابر دیکھ سکتا ہوں

دونوں مصرعوں میں خوشبو وزن سے گر رہی ہے، اور ویسے بھی خوشبو دیکھنے کی بجائے روشنی دیکھی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

چلے تو ہمقدم ہو کر اجالے ساتھ چلتے ہیں
میں اس کی روشنی کو اب برابر دیکھ سکتا ہوں

مجھے اب قتل کی دمکی نہ دی جائے کہ میں وہ ہوں
جو اپنے قتل کا گستاخؔ منظر دیکھ سکتا ہوں

درست ہے​
 
ماشاءاللہ خوب کلام ہے، بہت ساری داد​

مرے یارو میں جب سے اپنے اندر دیکھ سکتا ہوں
تبھی سے بند آنکھوں سے سمندر دیکھ سکتا ہوں

تخاطب یاروں تک ہی محدود کیوں رکھا جائے؟
اگر اپنے اندر کے سمندر کو دیکھنے کی بات ہو رہی ہے تو اس طرح زیادہ وضاحت ہو جائے گی

میں آنکھیں بند کر کے اپنے اندر دیکھ سکتا ہوں
مرے اندر جو لرزاں ہے سمندر دیکھ سکتا ہوں


ہے ایسی خاک سے نسبت جہاں اقبال رہتے تھے
تو اے واعظ میں بھی خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں


"میں" وزن سے گر رہا ہے
مجھے حق ہے کہ میں خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں


ہیں میرے ساتھ ماں کی جو دعائیں بھی مرے مولا
تو نے کیا لکھا ہے میرا مقدر دیکھ سکتا ہوں

مری ماں کی دعائوں سے بصیرت وہ ملی مجھ کو
لکھا ہے جو بھی مالک نے مقدر دیکھ سکتا ہوں


ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں

اس شعر میں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں میں سمجھ نہیں پایا، آپ وضاحت فرما دیں تو میں اپنا مشورہ پیش کرسکتا ہوں۔


اگر وہ شہر میں آئے عجب سی خوشبو ہوتی ہے
وہ ایسی خوشبو ہے جو میں برابر دیکھ سکتا ہوں

دونوں مصرعوں میں خوشبو وزن سے گر رہی ہے، اور ویسے بھی خوشبو دیکھنے کی بجائے روشنی دیکھی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

چلے تو ہمقدم ہو کر اجالے ساتھ چلتے ہیں
میں اس کی روشنی کو اب برابر دیکھ سکتا ہوں

مجھے اب قتل کی دمکی نہ دی جائے کہ میں وہ ہوں
جو اپنے قتل کا گستاخؔ منظر دیکھ سکتا ہوں

درست ہے​

شکریہ سر بہت بہت
 
ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں
کوشش ایک ایسا چہرہ کی یاد جس کے علاوہ کوئی چہرہ یاد نہ رہا جو یاد میں نظر بھی آتا ہو
 
ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں
کوشش ایک ایسا چہرہ کی یاد جس کے علاوہ کوئی چہرہ یاد نہ رہا جو یاد میں نظر بھی آتا ہو
جو خیال آپ کے ذہن میں ہے وہ الفاظ میں واضح نہیں ہو رہا، کسی اور انداز میں کوشش کریں۔
کچھ اس طرح بھی ہو سکتا ہے

عظیم الشان فاتح تھا جو مٹی میں ہوا مٹی
میں مٹی کے حوالوں میں سکندر دیکھ سکتا ہوں
 
جو خیال آپ کے ذہن میں ہے وہ الفاظ میں واضح نہیں ہو رہا، کسی اور انداز میں کوشش کریں۔
کچھ اس طرح بھی ہو سکتا ہے

عظیم الشان فاتح تھا جو مٹی میں ہوا مٹی
میں مٹی کے حوالوں میں سکندر دیکھ سکتا ہوں

شکریہ سر بہت بہت
 

عظیم

محفلین
ایک مسئلہ اس غزل میں یہ بھی ہے کہ مقدر منظر اور برابر قوافی اندر اور سمندر کے ساتھ غلط ہو جاتے ہیں ۔
 
سر امجد علی راجا آپ کی آمد اصلاح سخن میں ( کہ جو سر الف عین کے اچانک جانے سے اک نخل ویراں نظر آ رہا تھا) رونق لے آئی۔۔۔۔ مبتدیوں کی اس محبت سے داد رسی پر سب آپ کے شکر گزار ہیں۔
آپ کی حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ بھیا۔
میں علمی اعتبار سے کچھ خاص استعداد نہیں رکھتا، بس ایک ذوقِ سلیم ہے جس کی پرورش استادِ محترم الف عین نے فرمائی ہے۔ بس ان کی محنت اور تربیت پر بھروسہ ہی سبب بنا میری اس خوداعتمادی کا ورنہ مجھے تو آج تک میرے گھر والوں نے بھی ٹھیک طرح سے شاعر تسلیم نہیں کیا :)
 
ایک مسئلہ اس غزل میں یہ بھی ہے کہ مقدر منظر اور برابر قوافی اندر اور سمندر کے ساتھ غلط ہو جاتے ہیں ۔
عظیم بھیا، مطلع کے فوراً بعد اگلے شعر میں قلندر کا قافیہ آیا تو ایطا کے سقم کا اندیشہ ہی نہ رہا، نشادہی کے لئے شکریہ قبول فرمائیں۔
فرحان محمد خان بھیا آپ مطلع بدل کر یوں کرلیں

میں آنکھیں بند کر کے بھی برابر دیکھ سکتا ہوں
مرے اندر جو لرزاں ہے سمندر دیکھ سکتا ہوں​

عظیم بھیا آپ کی رائے درکار ہے
 
عظیم بھیا، مطلع کے فوراً بعد اگلے شعر میں قلندر کا قافیہ آیا تو ایطا کے سقم کا اندیشہ ہی نہ رہا، نشادہی کے لئے شکریہ قبول فرمائیں۔
فرحان محمد خان بھیا آپ مطلع بدل کر یوں کرلیں

میں آنکھیں بند کر کے بھی برابر دیکھ سکتا ہوں
مرے اندر جو لرزاں ہے سمندر دیکھ سکتا ہوں​

عظیم بھیا آپ کی رائے درکار ہے

جی بہتر سر
 

عظیم

محفلین
عظیم بھیا، مطلع کے فوراً بعد اگلے شعر میں قلندر کا قافیہ آیا تو ایطا کے سقم کا اندیشہ ہی نہ رہا، نشادہی کے لئے شکریہ قبول فرمائیں۔
فرحان محمد خان بھیا آپ مطلع بدل کر یوں کرلیں

میں آنکھیں بند کر کے بھی برابر دیکھ سکتا ہوں
مرے اندر جو لرزاں ہے سمندر دیکھ سکتا ہوں​

عظیم بھیا آپ کی رائے درکار ہے
میرے خیال میں مطلع فرحان محمد خان صاحب کا ہی خوب تھا ۔ آپ کے تجویز کردہ مطلع میں مجھے خیال تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔ یہ بابا ( الف عین) کا طریقہ نہیں ہے ۔
 
میرے خیال میں مطلع فرحان محمد خان صاحب کا ہی خوب تھا ۔ آپ کے تجویز کردہ مطلع میں مجھے خیال تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔ یہ بابا ( الف عین) کا طریقہ نہیں ہے ۔
ایطا کا سقم دور کرنے کے لئے ایسا کرنا پڑا جس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ اگر آپ پہلے مطلع کو ایطا کے سقم سے پاک قرار دیتے ہیں تو میری کیا جرآت کہ انکار کروں :)
 
Top