غزل برائے اصلاح (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

نوید ناظم

محفلین
یار تو کم تھے تماشائی بہت
یوں نظر ہم نے بھی دوڑائی بہت

کل پھر اک سیلاب آنے والا تھا
کل یہ میری آنکھ بھر آئی بہت

غور سے دیکھو ہجومِ شہر کو
ہنس رہی تھی اس پہ تنہائی بہت

کوئی تجھ سا بھی ستم گر اب ملے
یوں تو مل جاتے ہیں ہرجائی بہت

وصل کی حسرت تو اب بھی دل میں ہے
گرچہ اس نے خوں میں نہلائی بہت

خیر اب تو ہجر میں بھی ہے مزہ
ہاں طبیعت پہلے گھبرائی بہت

وہ نوید اب بھی سمجھ پایا نہیں
اس کو دل کی بات سمجھائی بہت
 

الف عین

لائبریرین
ان دونوں کو پھر سے دیکھ لیں۔
کل پھر اک سیلاب آنے والا تھا
کل یہ میری آنکھ بھر آئی بہت
÷÷روانی کی کمی ہے، پہلے مصرع میں والا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
دوسرا یوں زیادہ رواں ہے
کل مری یہ آنکھ۔۔۔

وصل کی حسرت تو اب بھی دل میں ہے
گرچہ اس نے خوں میں نہلائی بہت
کیا نہلائی، حسرت؟
 

نوید ناظم

محفلین
ان دونوں کو پھر سے دیکھ لیں۔
کل پھر اک سیلاب آنے والا تھا
کل یہ میری آنکھ بھر آئی بہت
÷÷روانی کی کمی ہے، پہلے مصرع میں والا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
دوسرا یوں زیادہ رواں ہے
کل مری یہ آنکھ۔۔۔

وصل کی حسرت تو اب بھی دل میں ہے
گرچہ اس نے خوں میں نہلائی بہت
کیا نہلائی، حسرت؟
سر' حکم کے مطابق ملاحظہ ٍفرمائیں۔۔۔ میں آپ کی رائے کا انتظارکرتا ہوں۔

کل پھر اک سیلاب آنے سے بچا
کل مری یہ آنکھ بھر آئی بہت

وصل کی حسرت جو میرے دل میں تھی
اُس نے یہ بھی خوں میں نہلائی بہت
 

الف عین

لائبریرین
سر' حکم کے مطابق ملاحظہ ٍفرمائیں۔۔۔ میں آپ کی رائے کا انتظارکرتا ہوں۔

کل پھر اک سیلاب آنے سے بچا
کل مری یہ آنکھ بھر آئی بہت

وصل کی حسرت جو میرے دل میں تھی
اُس نے یہ بھی خوں میں نہلائی بہت
درست ہیں دونوں
 
Top