غزل برائے اصلاح : جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب ..!
براہِ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _

غزل

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
رکھتا ہے ہوش کب وہ جنوب و شمال کا

کیوں ماہِ عید دیکھنے چھت پر گئے تھے تم
دل آ گیا ہے تم پہ نجوم و ہلال کا

رکھتا ہوں بے خیالی میں بھی جس کا میں خیال
اس کو خیال تک نہیں میرے خیال کا

مجھ کو بھی اس کے بارے میں مل جاتی ہے خبر
چل جاتا ہے اسے بھی پتا میرے حال کا

میں کس سے پیار کرتا ہوں ، شادی کروں گا کب
دیتا نہیں جواب میں ایسے سوال کا

دن رات تیرے ساتھ گزرتا ہے جس کا وقت
رکھّے وہ کیوں حساب بھلا ماہ و سال کا

کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
آغاز ہوتا ہے وہیں سے ہر زوال کا

فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح کوئی
جب ہو تفکّر اک طرف اہل و عیال کا

یہ بھی خلافِ رسمِ وفا و خلوص ہے
یا
یہ بھی خلافِ رسمِ وفا ہے ، کبھی بھی تم
کھاتا بہی نہ رکھنا فراق و وصال کا

فردا کی فکر ہے نہ مجھے دی کا رنج ہے
قیدی نہیں ہوں میں کسی بھی "کل" کے جال کا

سارے گناہ دھل گئے بس ایک قطرے سے
یا
سارے گناہ دھو دیے گرتے ہی گال پر
ہے اشکِ انفعال کا رتبہ کمال کا

اشرف ہے انتہائے مسرت کی اک گھڑی
اس میں نہیں ہے ایک بھی کانٹا ملال کا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ اشعار پھر دیکھو
کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
آغاز ہوتا ہے وہیں سے ہر زوال کا
.. دوسرے مصرعے کا ہوت اور وہسے قابل قبول نہیں

فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح کوئی
جب ہو تفکّر اک طرف اہل و عیال کا
.. تفکر کی بجائے کچھ اور لفط سوچو جو مذکر بھی ہو

یہ بھی خلافِ رسمِ وفا و خلوص ہے
یا
یہ بھی خلافِ رسمِ وفا ہے ، کبھی بھی تم
کھاتا بہی نہ رکھنا فراق و وصال کا
.. پہلا متبادل بہتر ہے

فردا کی فکر ہے نہ مجھے دی کا رنج ہے
قیدی نہیں ہوں میں کسی بھی "کل" کے جال کا
.. 'کسی بھی' کا اسقاط نا پسندیدہ ہے

سارے گناہ دھل گئے بس ایک قطرے سے
یا
سارے گناہ دھو دیے گرتے ہی گال پر
ہے اشکِ انفعال کا رتبہ کمال کا
.. پہلا متبادل بہتر ہے لیکن قطرے کی ے کے اسقاط سے نہیں۔ بوند کہنا بہتر ہے
باقی سب درست لگ رہے ہیں
 

اشرف علی

محفلین
یہ اشعار پھر دیکھو
کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
آغاز ہوتا ہے وہیں سے ہر زوال کا
.. دوسرے مصرعے کا ہوت اور وہسے قابل قبول نہیں
بہت بہت شکریہ سر
جزاک اللّٰہ خیراً

کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
دراصل مبتدا ہے وہی ہر زوال کا
یا
ہوتا ہے مبتدا بھی وہیں سے زوال کا
یا
کیا ہو جو کل سبب وہی نکلے زوال کا
فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح کوئی
جب ہو تفکّر اک طرف اہل و عیال کا
.. تفکر کی بجائے کچھ اور لفط سوچو جو مذکر بھی ہو
فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح کوئی
اندیشہ ہو جب اک طرف اہل و عیال کا
یا
فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح وہ شخص
اک بوجھ اس کے سر پہ ہے اہل و عیال کا
یہ بھی خلافِ رسمِ وفا و خلوص ہے
یا
یہ بھی خلافِ رسمِ وفا ہے ، کبھی بھی تم
کھاتا بہی نہ رکھنا فراق و وصال کا
.. پہلا متبادل بہتر ہے
ٹھیک ہے سر
بہت شکریہ
فردا کی فکر ہے نہ مجھے دی کا رنج ہے
قیدی نہیں ہوں میں کسی بھی "کل" کے جال کا
.. 'کسی بھی' کا اسقاط نا پسندیدہ ہے
"فردا" کی فکر ہے نہ مجھے "دی" کا رنج ہے
یعنی اسیر میں نہیں ہوں "کل" کے جال کا
سارے گناہ دھل گئے بس ایک قطرے سے
یا
سارے گناہ دھو دیے گرتے ہی گال پر
ہے اشکِ انفعال کا رتبہ کمال کا
.. پہلا متبادل بہتر ہے لیکن قطرے کی ے کے اسقاط سے نہیں۔ بوند کہنا بہتر ہے
باقی سب درست لگ رہے ہیں
جی سر بہتر ہے
بہت بہت شکریہ
اشرف ہے انتہائے مسرت کی اک گھڑی
اس میں نہیں ہے ایک بھی کانٹا ملال کا
سر کیا یہ مقطع ٹھیک رہے گا اس کی جگہ ...

اشرف ہے انتہائے مسرت کا وہ فلک
جس پر نہیں ہے ایک بھی تارا ملال کا

ایک مطلع اور ایک شعر دیکھ لیں سر ...

یہ کائنات عکس ہے کس کے جمال کا
کیوں سلسلہ رواں ہے یہاں ماہ و سال کا

لگ جاتی ہے اک آگ سی پردے میں کان کے
سنتا ہوں جب بھی قصہ کسی کے وصال کا
 
استادِ محترم نے غزل کی اصلاح خوب کی ہے۔

مزید ایک نکتہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ غزل کا عنوان نہیں ہوا کرتا۔ اگر ضرورت ہو تو پورا مصرع ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس غزل کا عنوان یوں لکھیے

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
 

الف عین

لائبریرین
دراصل مبتدا ہے وہی ہر زوال کا
یا
ہوتا ہے مبتدا بھی وہیں سے زوال کا
یا
کیا ہو جو کل سبب وہی نکلے زوال کا
کیا ہو اگر سبب وہی... شاید بہترین ہے

اک بوجھ اس کے سر پہ ہے اہل و عیال
اک بوجھ اس کے سر پہ ہو.... بہتر ہے
یعنی اسیر میں نہیں ہوں "کل" کے جال کا
بہتر ہے یہ مصرع
مقطع اور نئے اشعار درست لگ رہے ہیں
 

اشرف علی

محفلین
استادِ محترم نے غزل کی اصلاح خوب کی ہے۔
جی بے شک
مزید ایک نکتہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ غزل کا عنوان نہیں ہوا کرتا۔ اگر ضرورت ہو تو پورا مصرع ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس غزل کا عنوان یوں لکھیے

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
ٹھیک ہے سر
بہت بہت شکریہ
جزاک اللّٰہ خیراً
 

اشرف علی

محفلین
کیا ہو اگر سبب وہی... شاید بہترین ہے
اک بوجھ اس کے سر پہ ہو.... بہتر ہے
بہتر ہے یہ مصرع
مقطع اور نئے اشعار درست لگ رہے ہیں
غزل کی اصلاح فرمانے کے لیے میں آپ کا مشکور ہوں سر
جزاک اللّٰہ خیراً
 

اشرف علی

محفلین
استادِ محترم نے غزل کی اصلاح خوب کی ہے۔

مزید ایک نکتہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ غزل کا عنوان نہیں ہوا کرتا۔ اگر ضرورت ہو تو پورا مصرع ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس غزل کا عنوان یوں لکھیے

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
عنوان تبدیل نہیں ہو پا رہا ہے سر
 

اشرف علی

محفلین
غزل (اصلاح کے بعد)

یہ کائنات عکس ہے کس کے جمال کا
کیوں سلسلہ رواں ہے یہاں ماہ و سال کا

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
رکھتا ہے ہوش کب وہ جنوب و شمال کا

کیوں ماہِ عید دیکھنے چھت پر گئے تھے تم
دل آ گیا ہے تم پہ نجوم و ہلال کا

رکھتا ہوں بے خیالی میں بھی جس کا میں خیال
اس کو خیال تک نہیں میرے خیال کا

مجھ کو بھی اس کے بارے میں مل جاتی ہے خبر
چل جاتا ہے اسے بھی پتا میرے حال کا

میں کس سے پیار کرتا ہوں ، شادی کروں گا کب
دیتا نہیں جواب میں ایسے سوال کا

دن رات تیرے ساتھ گزرتا ہے جس کا وقت
رکھّے وہ کیوں حساب بھلا ماہ و سال کا

کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
کیا ہو اگر سبب وہی نکلے زوال کا

فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح وہ شخص
اک بوجھ اس کے سر پہ ہے اہل و عیال کا

یہ بھی خلافِ رسمِ وفا و خلوص ہے
کھاتا بہی نہ رکھنا فراق و وصال کا

فردا کی فکر ہے نہ مجھے دی کا رنج ہے
یعنی اسیر میں نہیں ہوں "کل" کے جال کا

سارے گناہ دھل گئے بس ایک بوند سے
ہے اشکِ انفعال کا رتبہ کمال کا

لگ جاتی ہے اک آگ سی پردے میں کان کے
سنتا ہوں جب بھی قصہ کسی کے وصال کا

اشرف ہے انتہائے مسرت کا وہ فلک
جس پر نہیں ہے ایک بھی تارا ملال کا
 

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب ..!
براہِ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _

غزل

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
رکھتا ہے ہوش کب وہ جنوب و شمال کا

کیوں ماہِ عید دیکھنے چھت پر گئے تھے تم
دل آ گیا ہے تم پہ نجوم و ہلال کا

رکھتا ہوں بے خیالی میں بھی جس کا میں خیال
اس کو خیال تک نہیں میرے خیال کا

مجھ کو بھی اس کے بارے میں مل جاتی ہے خبر
چل جاتا ہے اسے بھی پتا میرے حال کا

میں کس سے پیار کرتا ہوں ، شادی کروں گا کب
دیتا نہیں جواب میں ایسے سوال کا

دن رات تیرے ساتھ گزرتا ہے جس کا وقت
رکھّے وہ کیوں حساب بھلا ماہ و سال کا

کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
آغاز ہوتا ہے وہیں سے ہر زوال کا

فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح کوئی
جب ہو تفکّر اک طرف اہل و عیال کا

یہ بھی خلافِ رسمِ وفا و خلوص ہے
یا
یہ بھی خلافِ رسمِ وفا ہے ، کبھی بھی تم
کھاتا بہی نہ رکھنا فراق و وصال کا

فردا کی فکر ہے نہ مجھے دی کا رنج ہے
قیدی نہیں ہوں میں کسی بھی "کل" کے جال کا

سارے گناہ دھل گئے بس ایک قطرے سے
یا
سارے گناہ دھو دیے گرتے ہی گال پر
ہے اشکِ انفعال کا رتبہ کمال کا

اشرف ہے انتہائے مسرت کی اک گھڑی
اس میں نہیں ہے ایک بھی کانٹا ملال کا
غزل کی پسندیدگی کا اظہار فرمانے کے لیے اور میری حوصلہ افزائی کے لیے میں تہہِ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں محترم سید عاطف علی صاحب
اللّٰہ آپ کو سلامت رکھے ، آمین _
 

اشرف علی

محفلین
غزل (اصلاح کے بعد)

یہ کائنات عکس ہے کس کے جمال کا
کیوں سلسلہ رواں ہے یہاں ماہ و سال کا

جس پر چڑھا ہو نشّہ کسی کے جمال کا
رکھتا ہے ہوش کب وہ جنوب و شمال کا

کیوں ماہِ عید دیکھنے چھت پر گئے تھے تم
دل آ گیا ہے تم پہ نجوم و ہلال کا

رکھتا ہوں بے خیالی میں بھی جس کا میں خیال
اس کو خیال تک نہیں میرے خیال کا

مجھ کو بھی اس کے بارے میں مل جاتی ہے خبر
چل جاتا ہے اسے بھی پتا میرے حال کا

میں کس سے پیار کرتا ہوں ، شادی کروں گا کب
دیتا نہیں جواب میں ایسے سوال کا

دن رات تیرے ساتھ گزرتا ہے جس کا وقت
رکھّے وہ کیوں حساب بھلا ماہ و سال کا

کہتے ہیں منتہائے عروج آپ ہم جسے
کیا ہو اگر سبب وہی نکلے زوال کا

فکرِ سخن کرے تو کرے کس طرح وہ شخص
اک بوجھ اس کے سر پہ ہے اہل و عیال کا

یہ بھی خلافِ رسمِ وفا و خلوص ہے
کھاتا بہی نہ رکھنا فراق و وصال کا

فردا کی فکر ہے نہ مجھے دی کا رنج ہے
یعنی اسیر میں نہیں ہوں "کل" کے جال کا

سارے گناہ دھل گئے بس ایک بوند سے
ہے اشکِ انفعال کا رتبہ کمال کا

لگ جاتی ہے اک آگ سی پردے میں کان کے
سنتا ہوں جب بھی قصہ کسی کے وصال کا

اشرف ہے انتہائے مسرت کا وہ فلک
جس پر نہیں ہے ایک بھی تارا ملال کا
مشکور و ممنون ہوں محترمہ زوجہ اظہر صاحبہ
 
Top