غزل برائے اصلاح -جب بھی فرصت ہو مرے خواب سجاتی جانا ۔ از محمد اظہر نذیر

جب بھی فرصت ہو مرے خواب سجاتی جانا
قرب احساس بنے، جوت جگاتی جانا

جس ترنّم سے ہے بے بہرہ مری جاں اب تک
جل ترنگوں سا کوئی ساز بجاتی جانا

یوں تو خاموشی سے بھی کٹ ہی سفر جائے گا
گر ہو ممکن تو یہ آواز سناتی جانا

تشنگی بجھ نہ سکی ہائے اری ظلمتِ شب
میری خواہش کے دیے در پہ جلاتی جانا

کفر کے فتوے اگر لگ بھی گئے لگنے دو
تم کوئی دید بھرا جام پلاتی جانا

تیرا انداز منانے کا بڑا اچھا ہے
میں نہ روٹھوں تو بھی بس مجھ کو مناتی جانا

سب کو کہنا کہ بلایا ہے مجھے اظہر نے
چل بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا​

اساتذہ کرام،
ایک کوشش کافی عرصہ پہلے کی تھی، اب آپ کے عطا کردہ علم کی بدولت آپسے سنوارنے کی کوشش کی ہے، رہنمائی فرمائیے
دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ کہوں کہ اس میں عروض کی کوئی غلطی نہیں اور مفہوم بھی اکثر واضح ہے۔ مبارک ہو۔ بس، کہیں کہیں الفاظ کی نشست درست نہیں
 
آپ کی تربیت رنگ لا رہی ہے اُستاد جی، اگر نشاندہی فرما دیں کہاں کہاں نشست درست نہیں تو درست کر لوں
دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
جب بھی فرصت ہو مرے خواب سجاتی جانا
قرب احساس بنے، جوت جگاتی جانا
÷÷÷÷ دوسرا مصرع بدلنے کی سوچو۔ مجھے پسند نہیں آیا۔

جس ترنّم سے ہے بے بہرہ مری جاں اب تک
جل ترنگوں سا کوئی ساز بجاتی جانا
÷÷ درست

یوں تو خاموشی سے بھی کٹ ہی سفر جائے گا
گر ہو ممکن تو یہ آواز سناتی جانا
÷÷÷ ’کٹ ہی سفر جائے گا‘ کی نشست درست نہیں، اس کو یوں کہو
یوں تو خاموشی سے بھی کٹ ہی سفر جائے گا
کٹ ہی جائے گا سفر یوں ہی خموشی سے کبھی
لیکن یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہونے کا امکان ہے، کہ محبوب سے کیا امید کی جاری ہے؟ کیہا آواز سنانے کی فرمائش ہے۔

تشنگی بجھ نہ سکی ہائے اری ظلمتِ شب
میری خواہش کے دیے در پہ جلاتی جانا
÷÷ ’ہائے اری‘ پسند نہیں آیا۔ اس کے علاوہ تشنگی کا کیا ذکر ہے؟ یا تو دوسرے مصرعے میں بھی تشنگی یا پیاس کا ذکر ہو، ’میری خواہش‘ کی جگہ۔ پہلا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے۔

کفر کے فتوے اگر لگ بھی گئے لگنے دو
تم کوئی دید بھرا جام پلاتی جانا
÷÷÷ درست

تیرا انداز منانے کا بڑا اچھا ہے
میں نہ روٹھوں تو بھی بس مجھ کو مناتی جانا
÷÷ ’تو بھی بس مجھ کو ‘ ذہن کو کھٹکتا ہے، اس کو یوں کہو:
میں نہ روٹھوں بھی، مگرمجھ کو مناتی جانا
یا
میں نہ روٹھوں بھی یوں ہی مجھ کو مناتی جانا

سب کو کہنا کہ بلایا ہے مجھے اظہر نے
چل بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا

÷÷چل بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا
کی جگہ یوں بہتر ہے
اس بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا
 
جب بھی فرصت ہو مرے خواب سجاتی جانا
قرب احساس بنے، جوت جگاتی جانا
÷÷÷÷ دوسرا مصرع بدلنے کی سوچو۔ مجھے پسند نہیں آیا۔

جی بہتر ہے
جب بھی فرصت ہو مرے خواب سجاتی جانا
دل میں الفت کی نئی جوت جگاتی جانا


جس ترنّم سے ہے بے بہرہ مری جاں اب تک
جل ترنگوں سا کوئی ساز بجاتی جانا
÷÷ درست

یوں تو خاموشی سے بھی کٹ ہی سفر جائے گا
گر ہو ممکن تو یہ آواز سناتی جانا
÷÷÷ ’کٹ ہی سفر جائے گا‘ کی نشست درست نہیں، اس کو یوں کہو
یوں تو خاموشی سے بھی کٹ ہی سفر جائے گا
کٹ ہی جائے گا سفر یوں ہی خموشی سے کبھی
لیکن یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہونے کا امکان ہے، کہ محبوب سے کیا امید کی جاری ہے؟ کیہا آواز سنانے کی فرمائش ہے۔

جی بہتر
کٹ ہی جائے گا سفر یوں ہی خموشی سے کبھی
اپنے ہونٹوں سے کوئی گیت سناتی جانا


تشنگی بجھ نہ سکی ہائے اری ظلمتِ شب
میری خواہش کے دیے در پہ جلاتی جانا
÷÷ ’ہائے اری‘ پسند نہیں آیا۔ اس کے علاوہ تشنگی کا کیا ذکر ہے؟ یا تو دوسرے مصرعے میں بھی تشنگی یا پیاس کا ذکر ہو، ’میری خواہش‘ کی جگہ۔ پہلا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے۔

جی بہت بہتر
ظلمتِ شب میں نہ بجھ پائی مری تشنہ لبی
اب یہ خواہش کے دیے در پہ جلاتی جانا


کفر کے فتوے اگر لگ بھی گئے لگنے دو
تم کوئی دید بھرا جام پلاتی جانا
÷÷÷ درست

تیرا انداز منانے کا بڑا اچھا ہے
میں نہ روٹھوں تو بھی بس مجھ کو مناتی جانا
÷÷ ’تو بھی بس مجھ کو ‘ ذہن کو کھٹکتا ہے، اس کو یوں کہو:
میں نہ روٹھوں بھی، مگرمجھ کو مناتی جانا
یا
میں نہ روٹھوں بھی یوں ہی مجھ کو مناتی جانا

جی بہتر ہے
تیرا انداز منانے کا بڑا اچھا ہے
میں نہ روٹھوں بھی، مگرمجھ کو مناتی جانا


سب کو کہنا کہ بلایا ہے مجھے اظہر نے
چل بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا

÷÷چل بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا
کی جگہ یوں بہتر ہے
اس بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا

جی بہتر ہے
سب کو کہنا کہ بلایا ہے مجھے اظہر نے
اس بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا

جب بھی فرصت ہو مرے خواب سجاتی جانا
دل میں الفت کی نئی جوت جگاتی جانا

جس ترنّم سے ہے بے بہرہ مری جاں اب تک
جل ترنگوں سا کوئی ساز بجاتی جانا

کٹ ہی جائے گا سفر یوں ہی خموشی سے کبھی
اپنے ہونٹوں سے کوئی گیت سناتی جانا

ظلمتِ شب میں نہ بجھ پائی مری تشنہ لبی
اب یہ خواہش کے دیے در پہ جلاتی جانا

کفر کے فتوے اگر لگ بھی گئے لگنے دو
تم کوئی دید بھرا جام پلاتی جانا

تیرا انداز منانے کا بڑا اچھا ہے
میں نہ روٹھوں بھی، مگرمجھ کو مناتی جانا

سب کو کہنا کہ بلایا ہے مجھے اظہر نے
اس بہانے سے یہ محفل ہی سجاتی جانا​
 
Top