غزل برائے اصلاح- تہِ دریا میں ہے طوفانِ قرار

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم!
اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے

الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی


خمِ گیسو میں پریشاں ہے ہوا
کہ اسے ملتی نہیں راہِ فرار
قیدِ ہستی کو بہاراں جو کہیں
تو کہیں یوں کہ ہے گل سوز بہار
برہمئ دودِ چراغاں سے ہوا
پرتوِ نقشِ کفِ پائے نگار
زیرِ ہر ذرہِ خاکِ صحرا
جامۂ عقل و خرد کا اک تار
پھر ہوا نے ہیں کھلائے نئے گل
پھر کرو زخمِ دلِ زار شمار
بلبلِ ہست، تجھے ہوش نہیں؟
بہ گلِ باغِ عدم، بوس و کنار؟
نالۂ دل سے ہویدا ہے یہ راز
تہِ دریا میں ہے طوفانِ قرار
دل پہ اوہام کی یورش ہے بہت
کہ یہ ہے خواہش و ارماں کا مزار

شکریہ!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر غزل ہو تو کے لیے تو مطلع ضرور لانا ہوگا۔ مقطع خواہ نہ بھی ہو ۔ یا پھر قطعہ کہہ لیں ۔
البتہ یہاں تغزل کے زیادہ کیفیاتی تفکر کا اک گونہ تسلسل کی فضا ہے اشعار میں ، سو اس کو کوئی موضوع دے کر کسی فکری مضمون پر ختم کر کے موضوعاتی نظم کہہ لیا جانا زیادہ بہتر ہو گا ۔ یہ میرا مشورہ ہے ۔
 
0 تہِ دریا میں ہے طوفانِ قرار ) تہِ دریا کے ساتھ (میں ) لگانا عجیب سا لگتا ہے ۔جیسے آبِ زم زم کا پانی کہا جائے اور ہر شعر کا پہلا مصرع (فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن ) میں ہے لیکن دوسرا ساتھ نہیں دیتا
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل، بطور غزل بھی قبول کی جا سکتی ہے
صرف یہ مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے
برہمئ دودِ چراغاں سے ہوا
اس شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں ہوا
 
Top