غزل برائے اصلاح تنقید و تبصرہ!

غزل (تازہ)

مجھ پہ پوری جو تو کھلی ہوئی ہے
آگ اوروں کو کیوں لگی ہوئی ہے

حالِ دل جاننے کی نعمتِ خاص
میرے رب سے مجھے ملی ہوئی ہے

شکر ہے میرے علم کی کشکول
میرے رحمٰن نے بھری ہوئی ہے

پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے

دے رہی ہے مری شہادت وہ
مجھ پہ انگلی اگر اٹھی ہوئی ہے

کپکپاتی اجل مرے آگے
ہاتھ باندھے ہوئے کھڑی ہوئی ہے

ایک ہڈّی ہمارے آگے ہے
اور وہ بھی گلی سڑی ہوئی ہے

ناسمجھ جبرئیل سے اک بار
گفتگو میری سرسری ہوئی ہے

وہ سمجھتا ہے میری سب باتیں
یار سے گفتگو مری ہوئی ہے

سات افلاک سے تو بس میرے
سر پہ اک چھاؤنی بنی ہوئی ہے

میں اگر چاہوں تو خدا بن جاؤں
یہ اجازت مجھے ملی ہوئی ہے

میرا رخ دیکھ کر نکلتا ہے
چاند پر ایسے روشنی ہوئی ہے

اس لیے پاک ہے حجازؔ کی ذات
کیونکہ اس ذات سے جڑی ہوئی ہے

مہدی نقوی حجازؔ

الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد یعقوب آسی
 
حالِ دل جاننے کی نعمتِ خاص
میرے رب سے مجھے ملی ہوئی ہے

شکر ہے میرے علم کی کشکول
میرے رحمٰن نے بھری ہوئی ہے

پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے

واہ
 
حالِ دل جاننے کی نعمتِ خاص
میرے رب سے مجھے ملی ہوئی ہے

شکر ہے میرے علم کی کشکول
میرے رحمٰن نے بھری ہوئی ہے

پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے

واہ
محبت اور خیر حضور!
کچھ شاعری پر بھی بات کیجیے
 
جی اصلاح سخن میں خوش آمدید۔
جیسا کہ استاد جی الف عین نے نشاندہی فرمائی تھی کہ قوافی درست نہیں ہیں۔ اسی سلسلے میں وضاحت کی جاتی ہے کہ
قافیہ کا دار و مدار اصل پر ہوتا ہے وصل پر نہیں۔
یہاں لفظی ساخت کے اعتبار سے لگی اور کھلی میں اصل "گاف" اور "لام" ہے۔ اور وصل انکے بعد والی "ی" ہے۔ اب چونکہ حرف وصل ایک ایسا حرف ہے جو لفظ میں اصلی نہیں بلکہ زائد ہوتا ہے اور قافیہ بنتا اصلی سے ہے تو ہمیں اس اصول سے ان قوافی کو رد کرنا پڑے گا۔ کیونکہ لگی اور کھلی میں "ی" ہٹا دیں تو پوری غزل میں کوئی قافیہ باقی نہیں رہے گا۔
اس صورت میں بطور حیلہ شعرا اور اساتذہ یہ کرتے ہیں کہ آزادی کی خاطر ایک اصل اور ایک زائد کو مطلعے میں قافیہ بنا کر آگے اصل اور زائد دونوں رواں دواں رکھتے ہیں۔
مثلاً:
لگی اور بھی، تھی، گئی، کو قافیہ کرنا درست ہے۔
یا پھر کھلی اور کبھی کو قافیہ کرلیں۔ یا اسی طرح مطلع کے ایک مصرعے کو ایسے بدلیں کہ ایک "ی" بطور اصلی آجائے اور ایک زائد۔
 
جی اصلاح سخن میں خوش آمدید۔
جیسا کہ استاد جی الف عین نے نشاندہی فرمائی تھی کہ قوافی درست نہیں ہیں۔ اسی سلسلے میں وضاحت کی جاتی ہے کہ
قافیہ کا دار و مدار اصل پر ہوتا ہے وصل پر نہیں۔
یہاں لفظی ساخت کے اعتبار سے لگی اور کھلی میں اصل "گاف" اور "لام" ہے۔ اور وصل انکے بعد والی "ی" ہے۔ اب چونکہ حرف وصل ایک ایسا حرف ہے جو لفظ میں اصلی نہیں بلکہ زائد ہوتا ہے اور قافیہ بنتا اصلی سے ہے تو ہمیں اس اصول سے ان قوافی کو رد کرنا پڑے گا۔ کیونکہ لگی اور کھلی میں "ی" ہٹا دیں تو پوری غزل میں کوئی قافیہ باقی نہیں رہے گا۔
اس صورت میں بطور حیلہ شعرا اور اساتذہ یہ کرتے ہیں کہ آزادی کی خاطر ایک اصل اور ایک زائد کو مطلعے میں قافیہ بنا کر آگے اصل اور زائد دونوں رواں دواں رکھتے ہیں۔
مثلاً:
لگی اور بھی، تھی، گئی، کو قافیہ کرنا درست ہے۔
یا پھر کھلی اور کبھی کو قافیہ کرلیں۔ یا اسی طرح مطلع کے ایک مصرعے کو ایسے بدلیں کہ ایک "ی" بطور اصلی آجائے اور ایک زائد۔
صحیح! اس قاعدے کو تو میں نے بھلا ہی دیا تھا!! :) :)
 

ابن رضا

لائبریرین
جی اصلاح سخن میں خوش آمدید۔
جیسا کہ استاد جی الف عین نے نشاندہی فرمائی تھی کہ قوافی درست نہیں ہیں۔ اسی سلسلے میں وضاحت کی جاتی ہے کہ
قافیہ کا دار و مدار اصل پر ہوتا ہے وصل پر نہیں۔
یہاں لفظی ساخت کے اعتبار سے لگی اور کھلی میں اصل "گاف" اور "لام" ہے۔ اور وصل انکے بعد والی "ی" ہے۔ اب چونکہ حرف وصل ایک ایسا حرف ہے جو لفظ میں اصلی نہیں بلکہ زائد ہوتا ہے اور قافیہ بنتا اصلی سے ہے تو ہمیں اس اصول سے ان قوافی کو رد کرنا پڑے گا۔ کیونکہ لگی اور کھلی میں "ی" ہٹا دیں تو پوری غزل میں کوئی قافیہ باقی نہیں رہے گا۔
اس صورت میں بطور حیلہ شعرا اور اساتذہ یہ کرتے ہیں کہ آزادی کی خاطر ایک اصل اور ایک زائد کو مطلعے میں قافیہ بنا کر آگے اصل اور زائد دونوں رواں دواں رکھتے ہیں۔
مثلاً:
لگی اور بھی، تھی، گئی، کو قافیہ کرنا درست ہے۔
یا پھر کھلی اور کبھی کو قافیہ کرلیں۔ یا اسی طرح مطلع کے ایک مصرعے کو ایسے بدلیں کہ ایک "ی" بطور اصلی آجائے اور ایک زائد۔

شیخ صاحب اختلافِ روی و توجیہ تو مجوزہ طور پر ختم ہوجائے گا مگر قوافی کی تکرار بھی کیا جائز یا مستحسن شمار کی جاتی ہے؟ جیسے ملی تین بار استعمال کیا گیا؟
 
آخری تدوین:
شیخ صاحب اختلافِ روی و توجیہ تو مجوزہ طور پر ختم ہوجائے گا مگر قوافی کی تکرار بھی کیا جائز ہے؟ جیسے ملی تین بار استعمال کیا گیا؟

اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اصول قافیہ کے مطابق تو آپ مطلع کے بعد تمام اشعار میں ایک ہی قافیہ رکھ لیں تب بھی غزل درست ہوگی لیکن غزل کی چاشنی ختم ہو جائے گی اس واسطے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ورنہ قاعدہ یہ ہے کہ ایسا کرنا بھی درست ہے۔ باقی ایک غزل میں ایک ہی لفظ کو ایک سے زائد بار قافیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
 

شیرازخان

محفلین
پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے

ناسمجھ جبرئیل سے اک بار
گفتگو میری سرسری ہوئی ہے

میں اگر چاہوں تو خدا بن جاؤں
یہ اجازت مجھے ملی ہوئی ہے


جناب ایسے اشعار کیا سوچ کر لکھ رہے ہیں ؟؟ ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آیا؟؟
 
پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے

ناسمجھ جبرئیل سے اک بار
گفتگو میری سرسری ہوئی ہے

میں اگر چاہوں تو خدا بن جاؤں
یہ اجازت مجھے ملی ہوئی ہے


جناب ایسے اشعار کیا سوچ کر لکھ رہے ہیں ؟؟ ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آیا؟؟
سرکار، ہم تو سوچ سمجھ کر نہیں پی کر لکھتے ہیں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے۔۔۔
ہمارا قلم تو محض وسیلہ ہے، ہم خیانت تو کر نہیں سکتے۔ الہامی اشعار میں ہم اپنی طرف سے رد و بدل کرنے کے قائل نہیں!
 
سرکار، ہم تو سوچ سمجھ کر نہیں پی کر لکھتے ہیں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے۔۔۔
ہمارا قلم تو محض وسیلہ ہے، ہم خیانت تو کر نہیں سکتے۔ الہامی اشعار میں ہم اپنی طرف سے رد و بدل کرنے کے قائل نہیں!


توبہ توبہ کر یار مولویاں دے ہتھے چڑھ گیا تے فیر خیر نہیں۔ کفر دا فتویٰ سیکنٹاں وچ لا دینا اے۔
 
توبہ توبہ کر یار مولویاں دے ہتھے چڑھ گیا تے فیر خیر نہیں۔ کفر دا فتویٰ سیکنٹاں وچ لا دینا اے۔
میرے چاروں طرف منافق ہیں
اس لیے شہر سے چڑا ہوا ہوں
اور وہی
اپنے اپنے خداؤں کے قاتل
واجب القتل کہہ رہے ہیں مجھے!
حق سائیں سوہنا!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں تو احباب کے پیشِ نظر "مرحوم حسرت موہانی کی رائے ہے کہ ۔ شعردراصل ہیں وہی حسرت۔سنتے ہی دل میں جو اتر جایئں۔۔۔۔
اگراس مجرد الہام کو کسی منتج تخیل کے اسلوب میں ڈھال کر قاری تک پہنچائیں تو مثل المعنی فی البطن الشاعر کا سہارا نہ لینا پڑے۔۔۔
ویسے قوافی اور تکنیکی پہلؤوں سے قطع نظر کچھ اشعار کی داد لازم ہے۔:)
 
میرے خیال میں تو احباب کے پیشِ نظر "مرحوم حسرت موہانی کی رائے ہے کہ ۔ شعردراصل ہیں وہی حسرت۔سنتے ہی دل میں جو اتر جایئں۔۔۔ ۔
اگراس مجرد الہام کو کسی منتج تخیل کے اسلوب میں ڈھال کر قاری تک پہنچائیں تو مثل المعنی فی البطن الشاعر کا سہارا نہ لینا پڑے۔۔۔
ویسے قوافی اور تکنیکی پہلؤوں سے قطع نظر کچھ اشعار کی داد لازم ہے۔:)
سرکار، ہر بات دل میں نہیں اترتی۔ حسرت کی بات سے اختلاف نہیں، اس پر تضمین ہے کہ
دل میں اترے گا خود کلامِ حجاز
پہلے ظرف اپنا تم بڑا کر لو!

قوافی کے علاوہ جو تکنیکی پہلو ہیں ان پر بھی روشنی ڈالیے حضور والیٰ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سرکار، ہر بات دل میں نہیں اترتی۔ حسرت کی بات سے اختلاف نہیں، اس پر تضمین ہے کہ
دل میں اترے گا خود کلامِ حجاز
پہلے ظرف اپنا تم بڑا کر لو!
قوافی کے علاوہ جو تکنیکی پہلو ہیں ان پر بھی روشنی ڈالیے حضور والیٰ
واہ مہدی بھائی۔ آپ کا یہ شعر سنتے ہی دل میں اتر گیا ۔:)
آپ کی مشق سخن اور ہمارے ظرف کی چکی کی مشقت سے اسی طرح ہمارا ظرف و فہم بھی " بڑا " ہو ہی جائے گا ۔اور ہم بالآخر کلام کے متحمل بھی ہو جائیں گے۔۔
تکنیکی بحث میں تو قوافی ہی ہیں بس وہ بھی قدرے تکلّف کے ساتھ لیکن میرے نزدیک آپ کے ان قوافی میں بھی کوئی خاص عیوب نہیں۔البتہ بہتری ممکن کہی جاسکتی ہے۔بہت آداب اور آفرین۔
 
Top