غزل برائے اصلاح۔ رہِ وفا میں چراغِ ہوس جلاتے نہیں

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم!
اساتذہ سے اصلاح کی گذارش ہے۔
الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی

رہِ وفا میں چراغِ ہوس جلاتے نہیں
یگانہ ہم کبھی احسانِ غیر اٹھاتے نہیں
دلِ سیاہ میں سیلابِ نور کیسے آئے
وہ اپنے روئے حسیں سے نقاب اٹھاتے نہیں
ہجومِ اشک، سرِ چشم سے لوٹ گیا
کہ شاخِ بید پہ غافل، کبھی پھل آتے نہیں
نفس نفس سے مجھے بوئے دوست آتی ہے
ہوا کے جھونکے کبھی آگ کو بجھاتے نہیں
فراق میں بھی اب احساسِ قرب ہوتا ہے
ہم اپنے جسمِ شکستہ میں روح پاتے نہیں!

شکریہ!
 
ماشأﷲ اچھی غزل ہے

ہجومِ اشک، سرِ چشم سے لوٹ گیا
کہ شاخِ بید پہ غافل، کبھی پھل آتے نہیں
اس کے پہلے مصرعہ میں میرے خیال سے چشم سے کے بعد ہی یا کوئی لفظ ٹائپ ہونے سے رہ گیا ہے

نفس نفس سے مجھے بوئے دوست آتی ہے
ہوا کے جھونکے کبھی آگ کو بجھاتے نہیں
دوسرے مصرعے میں میرے خیال سے" کو "بھرتی کا محسوس ہو رہا ہے اور روانی بھی متاثر کر رہا ہے
 
Top