غزل برائے اصلاح۔۔۔ لیکن بروز عید مرا دل اداس ہے۔

سر الف عین و دیگر اساتذہ تازہ غزل کی اصلاح فرما دیجئے۔
افاعیل : مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

جو آج تو نہیں تو یہ محفل اداس ہے
محفل میں جو بھی شخص ہے شامل اداس ہے

کیسے اداس میں نہ ہوں اپنے ہی قتل پر۔
جو قتل کر کے مجھ کو مرا قاتل اداس ہے

یوں تو وجہ اداسی کی کوئی نہیں بنی
لیکن بروز عید مرا دل اداس ہے

کاجل تمہاری آنکھ میں پھیلا ہوا ہے یوں۔
جیسے تمہاری آنکھ کا یہ تل اداس ہے

تجھ کو ادھورا دیکھ کے عمران ، دیکھ تو
اس دنیا میں جو ذات ہے کامل اداس ہے

شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع بحر سے خارج
جو قتل کر کے مجھ کو مرا قاتل اداس ہے
اور
یوں تو وجہ اداسی کی کوئی نہیں بنی
وجہ میں ہ ساکن ہے، بطور فعل، بر وزن درد۔ یہ ان 'سبب اداسی کا' کہو۔
مقطع میں
اس دنیا میں ' میں الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا ہے
دنیا میں جو بھی ذات ہے ۔۔۔۔ کیا جا سکتا ہے
 
اب سر الف عین درست ہے؟
جو آج تو نہیں تو یہ محفل اداس ہے
محفل میں جو بھی شخص ہے شامل اداس ہے

کیسے اداس میں نہ ہوں اپنے ہی قتل پر۔
جو قتل کر کے وہ مرا قاتل اداس ہے
یا
جو قتل کر کے میرا قاتل اداس ہے
(تسکین اوسط
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن)


یوں تو سبب اداسی کا کوئی نہیں بنا
لیکن بروز عید مرا دل اداس ہے

کاجل تمہاری آنکھ میں پھیلا ہوا ہے یوں۔
جیسے تمہاری آنکھ کا یہ تل اداس ہے

جو پھر رہا ہوں راستے میں میں اِدھر اُدھر
میرے بنا وہاں مری منزل اداس ہے

تجھ کو ادھورا دیکھ کے عمران ، دیکھ تو
دنیا میں جو بھی ذات ہے کامل اداس ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست ہو گئے ہیں اشعار لیکن قاتل والا شعر نہیں جم رہا۔ تسکین اوسط میری سمجھ میں نہیں آتا اور آ بھی جائے تو مجھے اس میں روانی محسوس نہیں ہوتی
 
Top