غزل برائے اصلاح۔۔۔ قیدی اپنی قید میں جب تھک گیا تھا

سر الف عین و دیگر اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
افاعیل:-
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

تیرے پیچھے آخری حد تک گیا تھا
قیدی اپنی قید میں جب تھک گیا تھا

اب مجھے بتلا مری جاں میں کہاں ہوں
میں جو تیرے پاس خود کو رکھ گیا تھا

پھر اسے مجھ سے محبت بھی ہوئی تھی
وہ محبت کا مزا بھی چکھ گیا تھا

وہ پرندوں کی بنا خوراک آخر
پھل جو محنت کا شجر پر پک گیا تھا

آخرش جاتے ہوئے اک پھول کے ساتھ
خط مری دہلیز پر وہ رکھ گیا تھا

آگ لینے آیا تھا وہ میرے گھر سے
اور لگا کر ہر جگہ کالک گیا تھا

یادیں بچپن کی سبھی تازہ ہوئی ہیں
گاؤں اپنے آج میں ' نوتک ' گیا تھا

ضد میں، تھا عمران میں نے در نہ کھولا
وہ تو دے کر بار ہا دستک گیا تھا
شکریہ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
آگ لینے آیا تھا وہ میرے گھر سے
اور لگا کر ہر جگہ کالک گیا تھا
"سے" اضافی ہے۔ شعر واضح بھی نہیں

یادیں بچپن کی سبھی تازہ ہوئی ہیں
گاؤں اپنے آج میں ' نوتک ' گیا تھا
۔۔دوسرا مصرع گرامر کے حساب سے درست نہیں
باقی درست
 
آگ لینے آیا تھا وہ میرے گھر سے
اور لگا کر ہر جگہ کالک گیا تھا
"سے" اضافی ہے۔ شعر واضح بھی نہیں

یادیں بچپن کی سبھی تازہ ہوئی ہیں
گاؤں اپنے آج میں ' نوتک ' گیا تھا
۔۔دوسرا مصرع گرامر کے حساب سے درست نہیں
باقی درست
بہت شکریہ سر۔۔۔
گاؤں اپنے آج میں نوتک گیا تھا۔
سر اس مصرعہ میں جو غلطی ہے واضح کر دیں تاکہ آئندہ غلطی نہ ہو۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ سر۔۔۔
گاؤں اپنے آج میں نوتک گیا تھا۔
سر اس مصرعہ میں جو غلطی ہے واضح کر دیں تاکہ آئندہ غلطی نہ ہو۔۔۔
درست یوں ہو گا "میں اپنے گاوں نوتک" ۔ دوسری غلطی یہی کہ محض قافیے کا استعمال نظر آ رہا ہے شعر میں۔
 
Top