اکبر الہ آبادی غزل: بت کدے میں مطمئن رہنا مرا دشوار تھا

بت کدے میں مطمئن رہنا مرا دشوار تھا
بت تو اچھے تھے، برہمن در پئے آزار تھا

اکبرِ مرحوم کتنا بے خود و سرشار تھا
ہوش ساری عمر اس کی زندگی پر بار تھا

نزع میں آئی تجلی روئے جاناں کی نظر
زہر سمجھے تھے جسے وہ شربتِ دیدار تھا

دل ہی دل میں ہو لیے مستِ مئے منصور ہم
شرع میں رخنے کا خطرہ تھا نہ خوفِ دار تھا

خانۂ تن کی خرابی کا میں کرتا رنج کیا
گوہرِ جاں پر فقط اک گرد کا انبار تھا

رنگِ گلزارِ جہاں کا قدر داں مجھ سا تھا کون
جو گلِ رنگیں تھا میرے ہی گلے کا ہار تھا

٭٭٭
اکبر الٰہ آبادی
 
Top