غزل : بازار کی گرمی کو حّدت نہیں گردانا :محسن اسرار, کراچی

مغزل

محفلین
غزل
بازار کی گرمی کو حّدت نہیں گردانا​
قیمت کو کسی شے کی قیمت نہیں گردانا​
اعصاب سوالوں میں مصروف ہی ایسے تھے​
فرصت کو کبھی ہم نے فرصت نہیں گردانا​
نیلام کیا ہم نے حسّاس طبیعت کو​
جب دل نے تمنا کو حسرت نہیں گردانا​
دکھ ہجر کے کھولے ہیں بستر کی اذیّت نے​
تکیے کو سرہانے کی خدمت نہیں گردانا​
تاخیر زدہ رکھّا معلوم کے خطروں کو​
اِدراک کی سُرعت کو سُرعت نہیں گردانا​
مُٹھّی میں رکھا ہم نے اُڑتے ہوئے بالوں کو​
وحشت کو کبھی ہم نے وحشت نہیں گردانا​
بدنام ہوئی میری شمشیر کی عریانی​
دشمن نے مروّت کو مہلت نہیں گردانا​
تبدیل کیا گویا ترتیبِ عناصر کو​
جانے کو ترے ہم نے ہجرت نہیں گردانا​
کچھ اُس کے تقرّب کی تسکین ہی ایسی تھی​
جذبات کی شدّت کو شدّت نہیں گردانا​
جب زہر دیا اُس نے ہم جاں سے نہیں گزرے​
حیرانی کے عالم کو حیرت نہیں گردانا​
کچھ دل ہی ملوث تھا خدشوں کی ترقی میں​
اک رنج کو بھی غم کی صورت نہیں گردانا​
حیرت کے تناظر میں دھوکا دیا آنکھوں نے​
سُرخی کو ترے لب کی سُرخی نہیں گردانا​
بیٹھا تھا سرِ محفل ہوکر میں دھواں لیکن​
یاروں نے مجھے حسبِ حالت نہیں گردانا​
میں نے تو اسے محسن سو رُوپ دیے پھر بھی​
اُس نے مری صورت کو صورت نہیں گردانا​
محسن اسرار, کراچی​
 
Top