غزل : اشکوں میں بپا شورشِ غم ہے بھی نہیں بھی - سحرؔ انصاری

غزل
اشکوں میں بپا شورشِ غم ہے بھی نہیں بھی
اب دل تہہِ گردابِ الم ہے بھی نہیں بھی

بے ربطیِ احساسِ کرم ہے بھی نہیں بھی
اب ان کی محبت کا بھرم ہے بھی نہیں بھی

وہ ترکِ محبت پہ کئی دن سے مُصر تھے
اب ان سے بچھڑنے کا الم ہے بھی نہیں بھی

آتے ہیں تو پلکوں پہ ٹھہرتے نہیں آنسو
اب دامنِ مژگاں مرا نم ہے بھی نہیں بھی

گم کردہ مُسافر ہوں پسِ گرد چلا ہوں
منزل کی طرف میرا قدم ہے بھی نہیں بھی

خود ہی سرِ پردہ ہے تو خود ہی پسِ پردہ
وہ زینتِ محرابِ حرم ہے بھی نہیں بھی

وہ باندھ کے پیمانِ محبت ہیں مذبّب
اب ان کو سحرؔ پاسِ قسم ہے بھی نہیں بھی
سحرؔ انصاری
 
Top