غزل- آصف شفیع

غزل:

ہم تو آئے ہیں ابھی شہر سے ہجرت کر کے
آپ خود ہی چلے آئیں ذرا زحمت کر کے

ضرب فرقت کی ابھی اور لگاؤ اس پر
شوق مرتا ہی نہیں ایک محبت کر کے

وہ تو اک بار ہوا تھا کبھی رخصت، لیکن
یاد کرتا ہوں اسے روز میں رخصت کر کے

دل بھی برباد کیا ایک محبت کے عوض
خود بھی برباد ہوئے حسن کی بیعت کر کے

جی میں آیا ہے تجھے دیکھتے جائیں جاناں
دل ٹھہرتا ہی نہیں ایک زیارت کر کے

کوچہء شوق میں خوشبو ہی بکھیریں آصف
جب بکھرنا ہے ہواؤں سے عداوت کر کے

( از: ذرا جو تم ٹھہر جاتے)

مناسب غزل ہے۔
 
Top