غزل: آدھی رات کی تنہائی کا ۔۔۔

عزیزان من، آداب!

ایک اور پرانی اور عامیانہ سی غزل پیشِ خدمت ہے۔ جب تک کچھ نیا لکھنے کی تحریک نہیں ہوتی ۔۔۔ پرانے سے ہی کام چلا لیجیے ۔۔۔کہ کسی طرح تو گلشن کا کاروبار چلے!
کچھ اور عرصہ یہاں جمود طاری رہا تو دمے کے مریض تو گردی کی دبیز تہوں کے ڈر سے یہاں کا رخ ہی نہ کرسکیں گے ۔۔۔اور زیک کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا :)

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھی رات کی تنہائی کا ساتھی بس تھا اس کا غم
کیسے اس کو چھوڑتے جو انمول تھا یارا اس کا غم

دیکھ، مجھے تو چھوڑ دے میرے حال پر اب، اور غم مت کر
ہاں میں خوش ہوں!اب ہے میری پوری دنیا اس کا غم!

کس نے تم سے یہ کہہ ڈالا، بھول گیا سب، بدلا میں
دیکھو اب بھی نم آنکھوں سے جھانک رہا تھا اس کا غم!

اس کو آگے بڑھتا دیکھ کے خوش ہیں، وہ آباد رہے
اپنا کیا ہے! وہیں پڑے ہیں اور پرانا اس کا غم

میں پھر بھی پہچان گیا اس کو، گرچہ تھے دھندلے نقش
یادوں کے صندوق سے تھا جب آج نکالا اس کا غم

دیکھنا اس کے چہرے پر شاید رونق واپس آجائے
وقت کی اڑتی دھول تلے جب چھپ جائے گا اس کا غم

اتنے برسوں بعد بھی راحلؔ، ہے اپنا معمول وہی
شام کی چائے، جلتا سگرٹ، اور سلگتا اس کا غم!
۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب احسن بھائی!

اس کو آگے بڑھتا دیکھ کے خوش ہیں، وہ آباد رہے
اپنا کیا ہے! وہیں پڑے ہیں اور پرانا اس کا غم
خوب!
اتنے برسوں بعد بھی راحلؔ، ہے اپنا معمول وہی
شام کی چائے، جلتا سگرٹ، اور سلگتا اس کا غم!
عمدہ!

یہاں پر ڈسکلیمر ہونا چاہیے کہ تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
خوبصورت غزل۔ واہ

کس نے تم سے یہ کہہ ڈالا، بھول گیا سب، بدلا میں
دیکھو اب بھی نم آنکھوں سے جھانک رہا تھا اس کا غم!
اس کو آگے بڑھتا دیکھ کے خوش ہیں، وہ آباد رہے
اپنا کیا ہے! وہیں پڑے ہیں اور پرانا اس کا غم
بہت عمدہ۔ داد قبول کیجیے ۔
 
بہت خوب احسن بھائی!


خوب!

عمدہ!

یہاں پر ڈسکلیمر ہونا چاہیے کہ تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے۔ :)
ہمارے اساتذہ نے تو شراب تک پر وارننگ نہیں دی ۔۔۔ پھر ہم سے سگرٹ پر ڈسکلیمر کی توقع کیوں؟ :)
داد و پذیرائی کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ جزاک اللہ
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے اساتذہ نے تو شراب تک پر وارننگ نہیں دی ۔۔۔ پھر ہم سے سگرٹ پر ڈسکلیمر کی توقع کیوں؟ :)

بھئی شراب کے پیچھے تو ایک پورا پس منظر ہے۔ صراحی، شیشہ، ساقی۔

اور جب کوئی تنقید کرے تو کہیے کہ جناب یہ تو عشقِ حقیقی کے استعارے ہیں۔ اور ساقی سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے۔ :) :)

لیکن سگریٹ ؟ اس کو جسٹی فائی کرنا ذرا دشوار ہو جائے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھئی شراب کے پیچھے تو ایک پورا پس منظر ہے۔ صراحی، شیشہ، ساقی۔

اور جب کوئی تنقید کرے تو کہیے کہ جناب یہ تو عشقِ حقیقی کے استعارے ہیں۔ اور ساقی سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے۔ :) :)

لیکن سگریٹ ؟ اس کو جسٹی فائی کرنا ذرا دشوار ہو جائے گا۔
بات تو واقعی پتے کی ہے۔جیسا کہ چچا غالب فرماتے ہیں۔

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
 
عزیزان من، آداب!

ایک اور پرانی اور عامیانہ سی غزل پیشِ خدمت ہے۔ جب تک کچھ نیا لکھنے کی تحریک نہیں ہوتی ۔۔۔ پرانے سے ہی کام چلا لیجیے ۔۔۔کہ کسی طرح تو گلشن کا کاروبار چلے!
کچھ اور عرصہ یہاں جمود طاری رہا تو دمے کے مریض تو گردی کی دبیز تہوں کے ڈر سے یہاں کا رخ ہی نہ کرسکیں گے ۔۔۔اور زیک کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا :)

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھی رات کی تنہائی کا ساتھی بس تھا اس کا غم
کیسے اس کو چھوڑتے جو انمول تھا یارا اس کا غم

دیکھ، مجھے تو چھوڑ دے میرے حال پر اب، اور غم مت کر
ہاں میں خوش ہوں!اب ہے میری پوری دنیا اس کا غم!

کس نے تم سے یہ کہہ ڈالا، بھول گیا سب، بدلا میں
دیکھو اب بھی نم آنکھوں سے جھانک رہا تھا اس کا غم!

اس کو آگے بڑھتا دیکھ کے خوش ہیں، وہ آباد رہے
اپنا کیا ہے! وہیں پڑے ہیں اور پرانا اس کا غم

میں پھر بھی پہچان گیا اس کو، گرچہ تھے دھندلے نقش
یادوں کے صندوق سے تھا جب آج نکالا اس کا غم

دیکھنا اس کے چہرے پر شاید رونق واپس آجائے
وقت کی اڑتی دھول تلے جب چھپ جائے گا اس کا غم

اتنے برسوں بعد بھی راحلؔ، ہے اپنا معمول وہی
شام کی چائے، جلتا سگرٹ، اور سلگتا اس کا غم!
۔۔۔
اچھی غزل ہے ، راحل صاحب ! مقطع سے سگریٹ کو خارج کر دیں تو میرا بھی یہی معمول ہے ! :)
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
آدھی رات کی تنہائی کا ساتھی بس تھا اس کا غم
کیسے اس کو چھوڑتے جو انمول تھا یارا اس کا غم

دیکھ، مجھے تو چھوڑ دے میرے حال پر اب، اور غم مت کر
ہاں میں خوش ہوں!اب ہے میری پوری دنیا اس کا غم!

کس نے تم سے یہ کہہ ڈالا، بھول گیا سب، بدلا میں
دیکھو اب بھی نم آنکھوں سے جھانک رہا تھا اس کا غم!

اس کو آگے بڑھتا دیکھ کے خوش ہیں، وہ آباد رہے
اپنا کیا ہے! وہیں پڑے ہیں اور پرانا اس کا غم

میں پھر بھی پہچان گیا اس کو، گرچہ تھے دھندلے نقش
یادوں کے صندوق سے تھا جب آج نکالا اس کا غم

دیکھنا اس کے چہرے پر شاید رونق واپس آجائے
وقت کی اڑتی دھول تلے جب چھپ جائے گا اس کا غم

اتنے برسوں بعد بھی راحلؔ، ہے اپنا معمول وہی
شام کی چائے، جلتا سگرٹ، اور سلگتا اس کا غم!
واہ۔ بہت عمدہ غزل۔ کیا بات ہے احسن بھائی۔
بہت خوبصورت اشعار۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

کہاں ہیں بھائی ؟
عمدہ غزل ہے -نہ جعلی غالب، نہ جعلی میر، نہ جعلی اقبال ،راحل کی غزل سے راحل ہی جھلکتا ہے -

بس مطلع کا دوسرا مصرع کمزور ہے بہت -اسے دوبارہ دیکھ لیں -
 
السلام علیکم

کہاں ہیں بھائی ؟
عمدہ غزل ہے -نہ جعلی غالب، نہ جعلی میر، نہ جعلی اقبال ،راحل کی غزل سے راحل ہی جھلکتا ہے -

بس مطلع کا دوسرا مصرع کمزور ہے بہت -اسے دوبارہ دیکھ لیں -
بس ذرا دفتری امور میں مصروف ہوں ایک دو ماہ سے.
داد و پذیرائی کے لیے شکر گزار ہوں. جزاک اللہ.
آپ سنائیں، کیا احوال ہیں؟ آپ بھی کافی عرصہ بعد نظر آئے. سب خیریت رہی؟
 

یاسر شاہ

محفلین
Top