غزل: آخری بار تجھ سے مل رہا ہوں!

غزل

آخری بار تجھ سے مل رہا ہوں
میں کہ تیرا قرارِ دل رہا ہوں

تو سراپا خدا کی صورت ہے
اور میں تجھ پہ ایک تل رہا ہوں

یہ جو اب ہو گیا ہوں پتھر کا
اس سے پہلے میں خشت و گل رہا ہوں

میں نے دریا کو مضطرب کیا ہے
میں کنارا بھی مضمحل رہا ہوں

اب جو میں آگ ہوں بھڑکتی آگ
کون مانے گا میں خجل رہا ہوں؟

ایک ہی بات ہے حجازؔ مری
چاہے ٹھہرا ہوں چاہے ہل رہا ہوں

مہدی نقوی حجازؔ
 

الف عین

لائبریرین
خوب کرتب دکھائے ہیں!! لیکن تِل کا قافیہ کا استعمال پسند نہیں آیا۔ ویسے تو اس قسم کی ردیف بھی مجھے پسند نہیں جس میں کیا، رہا کا الف گرا دیا جائے اور یہاں تو ہ کی تکرار بھی اچھی نہیں لگ رہی۔
 
خوب کرتب دکھائے ہیں!! لیکن تِل کا قافیہ کا استعمال پسند نہیں آیا۔ ویسے تو اس قسم کی ردیف بھی مجھے پسند نہیں جس میں کیا، رہا کا الف گرا دیا جائے اور یہاں تو ہ کی تکرار بھی اچھی نہیں لگ رہی۔
حضور، یہ غزل در اصل مشقِ قافیہ ہے۔ آپ ٹھیک فرماتے ہیں۔ ایسی ردیفیں سماعت کو نہیں بھاتیں۔ بہت شکریہ!
 
Top