غزل۔

رشید حسرت

محفلین
غزل


ہستی کا مِری حشر بپا دیکھتے ہوئے

وہ رو ہی دیا مُجھ کو بُجھا دیکھتے ہوئے


ہم وہ کہ کبھی وقت سے بھی ہار نہ مانیں

برباد کِیا آپ نے کیا دیکھتے ہوئے


انجان علاقہ تھا، کِیا میں نے تعیُّن

قِبلے کا، فقط قِبلہ نُما دیکھتے ہوئے


مرمر تھا ماں کی قبر پہ نہ باپ کی کبھی

چھلکی ہے آنکھ کتبہ لگا دیکھتے ہوئے


سو جانا چاہیئے کہ نہِیں شب کا جاگنا

اچھّا، وہ شب کا ایک بجا دیکھتے ہوئے


کل تک جو مِرے ایک اِشارے پہ فدا تھے

مُنہ پھیر گئے وقت بُرا دیکھتے ہوئے


بوسِیدہ ہو کے چاک ہوئی ہے جگہ جگہ

مزدُور کے جو تن پہ قبا، دیکھتے ہوئے


بھائی کی یاد آئی ہے بے ساختگی کے ساتھ

بیریں کا پیڑ گھر میں لگا دیکھتے ہوئے


لوٹ آ تو مِرے دوست ترے بعد تِری بزم

نمناک ہوئی آنکھ سجا دیکھتے ہوئے


اللہ کا تُو شُکر ادا کر کہ نہیں ہے

تذلِیل نہ کر، اُس کو گدا دیکھتے ہوئے


بیٹی جو کہہ دیا ہے تُجھے، دل سے کہہ دیا

حسرتؔ ہے سر پہ ہاتھ حیا دیکھتے ہوئے


رشِید حسرتؔ
 
Top