غزل۔ اور کچھ دور پر تان کر دھوپ میں۔ مظفر حنفی

فرحت کیانی

لائبریرین
اور کچھ دور پر تان کر دھوپ میں
سایہ کرنے لگا ہے سفر دھوپ میں

میں مسافر نوازوں کا مارا ہُوا
بیج بوتا رہا عمر بھر دھوپ میں

ایک دیوار پرچھائیاں کھا گئی
ہم بھٹکتے رہے دربدر دھوپ میں

اس نے اپنے لیے چاندنی کھینچ لی
اور مجھ سے کہا، عیش کر دھوپ میں

اوس ہے یا گُہر خود ہی کُھل جائے گا
ہم نے رکھ دی متاعِ ہُنر دھوپ میں

ایک دریا تھا بہتا رہا سامنے
تشنگی کو نہ آیا نظر دھوپ میں

ہم کہ سورج زمیں پر لگاتے رہے
آخرش جل گئے بال و پَر دھوپ میں

اے مظفر یہ مقطع ردیفوں میں ہے
بس اسی آنچ کی تھی کسر دھوپ میں

--مظفر حنفی
 

محمد وارث

لائبریرین
اوس ہے یا گُہر خود ہی کُھل جائے گا
ہم نے رکھ دی متاعِ ہُنر دھوپ میں

واہ واہ واہ، لاجواب، کیا خوبصورت شعر ہے۔

بہت شکریہ فرحت یہ غزل شیئر کرنے کیلیے اور بہت خوشی ہوئی آپ کو کافی دیر کے بعد دیکھ کر :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اوس ہے یا گُہر خود ہی کُھل جائے گا
ہم نے رکھ دی متاعِ ہُنر دھوپ میں

واہ واہ واہ، لاجواب، کیا خوبصورت شعر ہے۔

بہت شکریہ فرحت یہ غزل شیئر کرنے کیلیے اور بہت خوشی ہوئی آپ کو کافی دیر کے بعد دیکھ کر :)

بہت شکریہ وارث۔ :) کوشش کے باوجود محفل سے غیر حاضری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔


بہت خوب محترمہ اچھا انتخاب ہے شریک محفل کرنے کا شکریہ ۔

بہت اچھی‌غزل ہے۔ شیئر کرنے کے لیے شکریہ فرحت صاحبہ

امید، شاہ حسین اور عمران شناور، آپ سب کا بہت شکریہ
 
Top