غربت کے خاتمہ کا اسلامی حل

ابن جمال

محفلین
آج پوری دنیا میں مہنگائی کے بڑھتے طوفان نے غربت کا دائرہ بڑھادیاہے اوراسی تناسب سے غریبوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہاہے۔غربت اب صرف تیسری دنیا کی خاصیت نہیںنہیں رہ گئی ہے بلکہ دوسری اورپہلی دنیا میں بھی غربت نے اپنے پائو ں پھیلالئے ہیں اور وہ ممالک جو کبھی خوابوں کی سرزمین کہلاتے تھے یعنی امریکہ اوریوروپ وہ بھی بے روزگار کی بڑھتی شرح اورغریبوں کی تعداد میں اضافہ سے پریشان ہیں۔گویاکہاجاسکتاہے کہ غربت کا بھی گلوبلائزیشن ہواہے۔

سیاسی پارٹیوں سے اس کی توقع کہ وہ غریبوں کے حق میں کچھ بھلاکریں گے دن میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے سواکچھ نہیں ہے۔وطن عزیز کو آزاد ہوئے 66برس گزرچکے لیکن کسی بھی پارٹی کے پاس غربت کو ختم کرنے اورغریبوں کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل اورپروگرام تک نہیں ہے۔ اس کا نفاذ تودور کی بات ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے غربت کاعلاج ریزرویشن میں تلاش کررکھاہے کہ اگرکوئی جماعت معاشی طورپر پسماندہ ہے تواس کوریزرویشن دے دیاجائے۔ اولاتوریزرویشن سے کسی قوم کی مجموعی طورپر حالت نہیں سدھرسکتی اگرایساہوتا تو دلت اورپسماندہ طبقات کی صورت حال مجموعی طورپر بہترہوگئی ہوتی۔ علاوہ ازیں ریزرویشن کا مفاد سوائے اس کے اورکیاہے کہ کسی کا حق ماراجائے اورحق دار کی حق تلفی کی جائے۔

ملک کاارب پتی طبقہ:حقیقت یہ ہے کہ اگریہ طبقہ چاہتاتوملک سے غربت کو دور کرنے یاکم کرنے میں موثر اورنمایاں کردار اداکرسکتاتھا جیساکہ امریکہ اوریوروپ میں مالدارمخیرافراد نے کیاہے۔اگرمبالغہ نہ کہاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ امریکہ کی موجودہ ترقی بہت حد تک امریکہ کے ارب پتی اورمالدار طبقہ کے افراد کی عوام الناس کی فلاح وبہبود کیلئے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے بالمقابل ہندوستان کاارب پتی طبقہ ہمیشہ اس کوشش میں رہاکہ وہ عوام سے کتناکماسکتاہے اس نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ جس عوام سے ہم کماتے ہیں ہمیں بھی کچھ ان کو ریٹرن کرناچاہئے۔ جس سے ہماری تجوری اورخزانے بھررہے ہیں ان کی بھی حالت سدھارنے کی جانب کوئی قدم بڑھاناچاہئے۔ کوئی آخر بتائے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے مالدار مکیش امبانی نے اپنی ذاتی رہائش کیلئے دنیا کا سب سے مہنگا مکان بنالیالیکن عوام کیلئے اس نے کیاکیا؟اسی طرح دیگر تمام سے پوچھاجاسکتاہے اورجواب نفی میں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی بہتری وغیرہ کیلئے اگرکسی نے کسی حد تک کچھ دریادلی دکھائی ہے تووہ ٹاٹا خاندان ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو ان کا تعلق ہندوستان سے باہر یعنی پارسی مذہب سے ہے اوردولت اورمایاکی وہ حرص جووطن عزیز میں راجائوں اورپنڈتوں کاخاصہ رہاہے اس سے بڑی حد تک بچے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ اورغربت:
اقوام متحدہ غربت کے خاتمے کیلئے بڑے بڑے پروگرام چلاتاہے۔ غریبوں کی عملی امدادبھی کرتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی اب تک کی کارگزاری کیارہی ہے اوراس کا عملی نتیجہ کیانکلاہے۔ اقوام متحدہ کو وجود پذیر ہوئے اورغربت کے خاتمے کیلئے پروگرام چلاتے ہوئے دہائیاں گزرچکیں لیکنہرگزرے دن کے ساتھ متوسط طبقہ غریب،غریب مزید غریب اورامیر امیرتراورامیرترین ہوتاجارہاہے۔ دولت چند خاندان اورچند افراد تک سمٹتی جارہی ہے۔ ذرائع ووسائل پر کچھ مخصوص افراد کاقبضہ ہے۔مارکیٹ پر کچھ خاص لوگوں کی اجارہ داری قائم ہورہی ہے۔ بلاشک وشبہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اقوام متحدہ غربت سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے اوراس کی ہرتدبیر ''مرض بڑھتاگیاجوں جوں دوا کی''کی مثال بن گیا۔

کیاغربت مکمل طورپر ختم ہوسکتی ہے؟
ایک بڑاسوال یہ ہے کہ کیاغربت کو مکمل طورپر ختم کیاجاسکتاہے ۔جواب ہے کہ نہیں ۔ اللہ نے دنیا کانظام ہی ایسارکھاہے اس میں کچھ افراد کو امیر اورکچھ افراد کو غریب بنایاہے۔ کمیونزم نے بہت کوشش کی کہ وہ تمام لوگوں کی یکساں حیثیت کرسکے لیکن وہ اس میں ناکام رہااور80سال کے تجربے کے بعد پوری دنیا پر یہ بات کھل گئی کہ تمام افراد کو بزور طاقت یکساں حیثیت کا نہیں بنایاجاسکتا۔ یہ خدا کی بنائی دنیا ہے کہیں پہاڑ ہیں توکہیں کھائی،کہیں صحرا ہے تو کہیں دریا ۔ویسے ہی انسانوں کی دنیامیں کچھ لوگ مالدار اورکچھ لوگ غریب ہوں گے۔ اس کو بزور بازوختم نہیں کیاجاسکتا۔ معلوم تاریخ سے لے کر آج تک کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ کوئی ایسامعاشرہ ،ایساملک وجود میں نہیں آیا جہاں امیر غریب نہ ہوں۔سب یاتو امیر یاپھر سبھی غریب ہوں۔

پھرغربت کا علاج کیاہے:
یہ توصحیح ہے کہ غربت کو مکمل طورپر ختم نہیں کیاجاسکتا لیکن غربت کے بڑھتے دائرے کو ضرور کم کیاجاسکتاہے اوردولت کی گردش،وسائل پر قبضہ ،بازارپرگرفت کو چند افراد تک محدود ہونے سے روکاجاسکتاہے ۔اسلام نے بھی اسی کی تعلیم دی ہے۔ اسلام کی راہ کمیونزم اورکیپٹل ازم دونوں سے الگ اورجدا ہے۔ وہ نہ سب کوبزور بازو یکساں حیثیت کا بناناچاہتاہے اورنہ ہی وسائل وذرائع پر چند افراد کی اجارہ داری کا حامی ہے۔ وہ تو دولت کی منصفانہ گردش کی تعلیم دیتاہے اوربازار کو ہرشخص کیلئے آزاد رکھناچاہتاہے کہ ہرشخص کسب حلال کرسکے ۔ ہرشخص محنت مزدوری کے بعد اتناپس انداز کرسکے کہ اپنے خاندان کی کفالت کرسکے۔ بیوی بچوںکا پیٹ بھرسکے اوران کو اگربہترمعیار زندگی نہ دے سکے توکم ازکم اتناضرور ہی دے سکے کہ وہ سفید پوشی کی بھرم کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ انہیں کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرناپڑے۔

اسلام میں غربت کا حل :
سرمایہ دارانہ نظام یاپھرکمیونزم دونوںنے غربت کا حل اورطریقہ کار پیش کیاہے لیکن دونوں میں افراط وتفریط موجود ہے ۔یعنی دونوں دوانتہائوں پر کھڑے ہیں ،درمیان کی اعتدال وتواز ن والی راہ کسی نے اختیار نہیں کی۔ کمیونسٹ ملک نے اگرفرد کی آزادی چھین کر اس کو مکمل طورپر معاشرہ اورسماج کے تابع کردیا توسرمایہ دارانہ نظام میں فرد کی آزادی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ معاشرہ کے اجتماعی مصالح اورفوائد بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔جب کہ اسلام نے دونوں انتہائوں سے بچتے ہوئے درمیان کی راہ اختیار کی ہے اوراس کی تعلیم ہے کہ فرد کی آزادی ضرور اہم ہے لیکن اجتماعی فوائد اورمصالح کے آگے دوسرے لفظوں میں اگرمعاشرہ اورفرد کے مفاد میں ٹکرائو ہوگا تو معاشرہ کے مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔ آج جدید دور میں اگرآزادی کا تصور یہ ہے ''کہ تم وہیں تک آزاد ہو جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے''۔تواسلام میں فرد کی آزادی کاتصور بھی یہی ہے کہ اس کی آزادی بھی وہیں تک ہے جہاں سے معاشرہ کااجتماعی مفاد شروع ہورہاہے۔ اسلام نے دولت کی گردش رواں رکھنے ،وسائل وذرائع پر اجاردہ داری کو ختم کرنے اورغریبوں کی حالت کوبہتر بنانے کیلئے کچھ تعلیمات دی ہیں کچھ طریقہ کار بتائے ہیں آئیے ان کاجائزہ لیتے ہیں۔

(1)نظام زکوٰ ة:ہروہ شخص جوصاحب نصاب ہے۔ یعنی جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونا یااس کی مالیت ضروری اشیاء ،گھراورسواری وغیرہ کے علاوہ ہے تو وہ اپنی سال کی آمدنی کا ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ یعنی اگرکسی کے پاس ایک لاکھ روپے ہیں تو وہ ڈھائی ہزار اللہ کے راستے میں نکالے اورغریبوں ومسکینوں پر خرچ کرے۔ زکوٰة کی رقم کس کس کو دی جاسکتی ہے اوراس کے مستحقین کون ہیں اس کی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں۔ یہاں تفصیل سے بتانے کا موقعہ نہیں ہے۔

نظام زکوة سے دوبنیادی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
(1) نمبرایک مال گردش میں رہتاہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس ایک کڑور ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ڈھائی لاکھ روپے کی زکوة نکالے ۔اسی طرح مالیت جس قدر بڑھتی جائے گی ۔زکوٰة کی رقم کا تناسب بھی بڑھتاجائے گا۔اس طرح دیکھیں تو مال کی بڑی مقدار سالانہ طورپر گردش میں رہتی ہے۔

(2)دوسرے غریبوں اورمسکینوں کی مدد ہوتی ہے۔ان کی مالی معاونت کرکے ان کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچایاجاتاہے۔ (اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی نظام حکومت ختم ہونے سے زکوة کا نظام بری طرح متاثر ہواہے یعنی ایک مرکزی بیت المال کے تحت زکوٰة کی رقم لی جائے اورپھر منظم طورپر غریبوں کو دیاجائے۔

اگرہم عرب ممالک کوچھوڑدیں اورہندوستان کی بات کریں تو غیرسرکاری اندازہ کے مطابق یہاں 24کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ اگرمان لیں کہ صرف چار کروڑ مسلمان ایسے ہیں جو زکوٰة دے سکتے ہیں اورہرمسلمان صرف تین کروڑ ہی زکوٰة دے سکتاہے تو اندازہ لگائیں کہ کتنی بڑی رقم اکھٹی ہوسکتی ہے اوراگرمنظم طورپر زکوٰة کی رقم کی تقسیم کا انتظام کیاجائے توہندوستانی مسلمانوں کی معاشی حالت کتنی جلد سدھرسکتی ہے اورپسماندہ طبقات سے زیادہ پسماندگی کا جوروناہم روتے ہیں اورحکومت کے سامنے بھیک کے کٹورے لے کر گڑگڑاتے ہیں اس کی قطعاکوئی ضرورت نہ پڑے لیکن چونکہ صدیوں کے زوال کے بعد ہم نے اچھے کام بھی غیر منظم انداز میں کرنے لگے ہیں ہراک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنارکھی ہے نتیجہ یہ ہے کہ زکوْة کے نظام سے جوفائدہ پہنچناچاہئے اس سے مسلم معاشرہ عمومی طورپر محروم ہے۔

(2)نظام خیرات:اسلام نے زکوٰة کو لازمی کرنے کے علاوہ اس کی تاکید کی ہے کہ ہرمسلمان اپنی آمدنی میں سے کچھ رقم غریبوں اورمسکینوں کو دے، ان کی حاجت روائی کرے، ان کی ضرورت میں کام آئے، اگران کے پاس کپڑے نہیں ہیں توان کو کپڑے دے ،اگران کے پاس کھانانہیں ہے توان کو کھانادے اورمدد کی سب سے بہترشکل یہ ہے کہ ان کو اپنے پائوں پر کھڑاکیاجائے یاتوانہیں قلیل مدت میں ایساہنرسکھادیاجائے جس کی وجہ سے وہ برسرروزگار ہوسکیں یاپھرانہیں کم ازکم اتنی رقم دے دی جائے جس کی وجہ وہ اپناکاروبار چھوٹے پیمانہ پر شروع ہوسکرسکیں۔

غریبوں کو باہنربنانایاان کو روزگار کیلئے رقم دینے کا کام زکوٰة کے ذریعہ بھی کیاجاسکتاہے لیکن اس میں مستحقین کو ہی شامل کرناہوگا۔جب کہ خیرات کے ذریعہ عمومی طورپر ہرایک کی مدد کی جاسکتی ہے چاہے وہ کسی بھی حیثیت کاہو۔

سب سے بڑاطریقہ کار یہ ہے کہ ایسے افراد جو بے روزگار ہیں لیکن تعلیم یافتہ ہیں اورکچھ کرنے کاجذبہ رکھتے ہیں توانکوایسے افراد جن کے پاس سرمایہ ہیں لیکن کاروبار کیلئے وقت نہیں یاپھر اس کا تجربہ نہیں وہ ان تعلیم یافتہ بے روزگارافراد کو نفع میں شریک بناکر معاشرہ کا ایک بڑامسئلہ حل کرسکتے ہیںاسلام میں اس کومضاربت کے نام سے جاناجاتاہے یعنی ایک جانب سے محنت اوردوسری جانب سے سرمایہ ہو۔ اگرایمانداری اوردیانت داری سے کیاجائے توکوئی بعید نہیں کہ اس سے نہ صرف بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ مسلمان تجارت کے میدان میں بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑیں گے۔ شرط یہ ہے کہ دونوں فریق ایمانداری برتے اوراپنے شریک کے سرمایہ یاپھرمحنت کے استحصال کرنے کا ذہن نہ بنالے۔

(3)نظام میراث:ایسانہ صرف ممکن ہے بلکہ تجربہ ومشاہدہ ہے کہ اگرکسی ایک شخص کو تجارت میں کامیابی ملتی ہے تورفتہ رفتہ اسی خاندان میں دولت کے انبار لگ جاتے ہیں۔اس کے مرنے کے بعد اس کی دولت محضبیٹوں تک محدود کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے دولت پر کچھ افراد کا ہی قبضہ برقراررہتاہے۔ اسلام نے اس تصور کونظام میراث کے ذریعہ ختم کیاہے ۔اسلام نے میراث کاپورانظام قائم کیاکہ اگرکسی فردکاانتقال ہوتاہے تواس کے اولین وارث کون کون ہوں گے۔ ان کی غیرموجودگی میں بقیہ کون کون وارث ہوں گے۔ واضح رہے کہ اسلام نے شوہر وبیوی کو بھی میراث میں حق دار بنایاہے۔ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دیاہے۔ مرنے والے کے ماں باپ کو بھی حصہ دیاہے اورمرنے والے کو اختیار دیاہے کہ وہ اگرچاہے تو کسی کے حق میں تہائی مال کی وصیت کرسکتاہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظام میراث بے توجہی کا شکار ہے۔ دیندار گھرانے بھی اس سے غفلت برتتے ہیں۔جس کی وجہ سے دولت کی گردش نہیں ہوپاتی اوردولت کچھ افراد تک سمٹ کررہ جاتی ہے۔خاص طورپر بیٹیوں کے ساتھ اس معاملے میں زیادتی کی جاتی ہے اوران کو مرنے والے کے مال سے محروم رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے ۔اگربیٹیوں کوبھی وراثت میں پوراحصہ دیاجائے تواس سے نہ صرف دولت کی تقسیم ہوگی بلکہ مال کچھ ہی خاندان اورافراد میں سمٹنے سے بچے گا۔

(4)نظام اوقاف:اس کے علاوہ اسلام نے دولت کی گردش کو رواں دوراں رکھنے اورمعاشرہ کے کمزور طبقہ کی مالی امداکیلئے اوقاف کا نظام قائم کیاہے۔اس کی بنیادی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی جائداد کو کارخیر کیلئے وقف کردیتاہے ۔مثلاایک شخص اپنی زمین وقف کردیتاہے ۔اب اس زمین میں گھر بناکر یادکان بناکر اس کو کرایہ پر دے کر آمدنی کومسلمانوں کے حق میں استعمال کیاجاسکتاہے۔ یاایک شخص نے کوئی دینی درسگاہ بنادیاکسی نے مسجد بنادی ۔کسی نے کچھ اور۔وقف کیلئے ضروری ہے کہ وقف کی آمدنی کو واقف کے منشاء کے مطابق ہی صرف کیاجائے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی 700سوسال تک حکومت رہی ہے۔ اس عرصے میں مسلم شاہان، نواب،امراء اورصاحب حیثیت مسلمان مردوخواتین نے بڑی بڑی جائیداد وقف کی ہیں ۔لیکن انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ اور1857کے واقعہ نے وقف املاک کو بری طرح تباہ کیا۔ آزادی کے بعد بننے والے حکومتوں نے بھی وقف املاک کو سرکاری جاگیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی کانتیجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے بڑے بڑے دفاتر،فوج کی چھائونیاں، پولس کے کیمپس وغیرہ وقف کی زمین پر کھلے ہیں۔یہ چال بھی چلی گئی کہ جہاں وقف کا دعوی مضبوط تھا تو وہاں وقف کی زمین کو اونے پونے داموں لیز پر لے لیاگیا۔ حیرت کی بات ہے کہ دلی کے مرکزی علاقے میں ایک سرکاری عمارت وقف کی زمین پر ہے اوراس کاکرایہ کتناہے ماہانہ ایک روپے۔ اس درمیان دنیا ادھر کی ادھر ہوگئی۔ مہنگائی نے آسمان چھولیا لیکن سرکاری محکمہ ابھی تک پوری ایمانداری سے وہی ایک روپیہ اداکررہاہے۔

آندھراپردیش میں 2006کو اقلیتی بہبود سے متعلق ریاستی اسمبلی کی ایک کمیٹی نے حیدرآباد اوراطراف میں وقف زمینوںکاسروے کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہاتھا
ریاستوں میں اوقافی جائیداد کی لوٹ
آندھراپردیش
آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ ، انڈین سکول آف بزنس ، مائیکرو سافٹ کیمپس ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، ہارڈ ویر پارک اور فیاب سٹی جیسے پراجیکٹوں کے لیے وقف اراضی کو غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا ہے-
کمیٹی نے مزید کہا
جامعہ نظامیہ کی 490 ایکڑ زمین پر حیدرآباد اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے قبضہ کرلیا ہے- اسی طرح درگاہ حسین شاہ ولی کی 1654 ایکڑ اراضی مختلف اداروں نے آپس میں بانٹ لی ہے- اس میں سے 250 ایکڑ زمین انڈین سکول آف بزنس کو ، 200 ایکڑ زمین مولانا آزاد یونیورسٹی اور 660 ایکڑ زمین ریاستی انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کو دے دی گئی ہے-
بی بی سی اردو 2006،رپورٹ عمرفاروق

کولکاتہ
صرف کولکاتا میں میسور فیملی فاتحہ فنڈ وقف اسٹیٹ پر چار ہزار لوگوں کا ناجائز قبضہ ہے۔ اسی طرح کولکاتا اور اس کے اردگرد کے اضلاع میں سیکڑوں مسجدیں اور وقف زمینیں ہیں جن پر لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے قبضہ کر رکھا ہے۔ مغربی بنگال میں 64 مساجد ایسی ہیں جن پر باہری لوگوں نے غیر قانونی قبضہ جما رکھا ہے۔ مغربی بنگال کے اندر تقریبا 184 ہزار وقف جائیدادیں ہیں، جو کہ پورے ملک کی وقف جائیدادوں کا 31 فیصد ہے، لیکن بائیں بازو کی حکومت کے دوران ان میں سے زیادہ تر کو فروخت کیا جاچکا ہے۔ سی پی آئی (ایم) نے وقف کی زیادہ تر زمینوں پر اپنے پارٹی دفاتر بنا رکھے ہیں۔ اسی طرح بایاں محاذ کی حکومت نے کوچ بہار کے طوفان گنج علاقہ میں 50 ہزار مربع میٹر کی وقف اراضی پر، جس کی قیمت تقریبا 20 کروڑ روپے ہے، بس ڈپو بنا دیا ہے۔ مدناپور (کھرگ پور) میں قبرستان کی ایک زمین پر بڑا ڈپارٹمینٹل اسٹور اور دیگر کمرشیل کمپلیکس تعمیر کیے گئے ہیں۔ بردوان ضلع میں وقف کی سیکڑوں بیگھے زمین کو پرائیویٹ کوئلہ کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔
بشکریہ تحریر عزیز اے مبارکی

دہلی
مرکزی حکومت نے محترم ایس ایم ایچ برنی کی چیرمین شپ میں کمیٹی بنادی، محترم برنی صاحب نے تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس میں ایسی ٢٥٠ وقف جائدادوں کی فہرست دی گئی تھی، جنہیں کمیٹی کی رائے میں وقف بورڈ کے حوالہ کرینا چاہئے ، کیونکہ ان کے وقف ہونے میںکہیں سے کوئی شبہ نہیں تھا، اور برابر وہ بطور وقف استعمال میں رہی تھیں___
بشکریہ تحریر مولانا ولی رحمانی

غیروں کو کیاکیجئے۔ جن کو وقف کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی، جن کومحافظ بنایاگیاانہوں نے بھی وقف کو لاوارث زمین سمجھ کر غیروں کے ہاتھ بیچنے اوربیچ کر جائیداد خریدنے اوراپنی عاقبت رسواکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہندوستان میں یوں تو ہرصوبہ میں اوقاف کا ادارہ موجود ہے لیکن اوقافی زمین کی حفاظت اورغیروں کے قبضہ میں جاچکی زمین کی بازیابی کا ریکارڈ انتہائی سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ ایسے واقعات بھی کم نہیں ہے کہ وقف بورڈ کے چیرمین حضرات نے ہی وقف کی قیمتی زمین کو سازش کرکے بیچ ڈالا اورجب سیاں بھئیل کوتوال کے مصداق جب چیرمین اوربورڈ کے اراکین کے اس پستی میں گرنے کے بعد وقف بورڈ کے عملہ نے بھی وقف کی زمین دھڑلے سے بیچنی شروع کردی۔

کبھی کبھی ایسالگتاہے کہ اگروقف بورڈ نام کا ادارہ نہ بنایاجاتاتوشاید وقف کی زمین کی اتنی خرد برد نہ ہوتی۔ وقف بورڈ کا ادارہ بنایاگیاتواس لئے تھاکہ وقف کی زمین کی حفاظت ہو لیکن شاید اس کے ذمہ داروں نے مطلب الٹاسمجھ لیاکہ وقف بورڈ کا مطلب یہ ہے کہ وقف کی زمین کو باپ کی زمین سمجھ کر بیچ کر کھاجائو ۔
معنی بیت المال کا لیڈر نے سمجھاگھر کامال​
اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ کیجئے
چنئی: 1997 میں تمل ناڈو وقف بورڈ نے مدراس کے کمرشیلائزڈ ٹرپلی کین ہائی اسٹریٹ پر واقع وقف کی 1,719 مربع فٹ اراضی کو محض 3 لاکھ روپے میں بیچنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، ضابطہ کے مطابق، اس قسم کی فروخت کے لیے بورڈ کے کم از کم دو تہائی اراکین کی منظوری لینی ضروری ہوتی ہے۔
ممبئی : مہاراشٹر وقف بورڈ نے الٹا ماونٹ روڈ پر واقع 4,532 مربع میٹر کی وقف اراضی کو محض 16 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا، اور خریدار کوئی اور نہیں بلکہ مکیش امبانی تھے، جنہوں نے اس جگہ پر اپنا 27 منزلہ گھر بنایا ہے۔
بنگلور : تقریبا پانچ ایکڑ کی اراضی پر بنا یہاں کا وِنڈسر مینر ہوٹل وقف کی زمین پر واقع ہے جو وقف بورڈ کو ہر ماہ صرف 12 ہزار روپے بطور کرایہ ادا کرتا ہے، جب کہ اس کی قیمت 500 کروڑ روپے سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
فرید آباد : وقف بورڈ نے تقریبا پانچ ایکڑ زمین کئی سالوں سے گیارہ ماہ کے پٹے پر دے رکھی ہے، جس کا کرایہ صرف 500 روپے سے 1,500 روپے ماہانہ آتا ہے۔ اس جگہ پر ایک فیکٹری بنا دی گئی ہے اور اس طرح زمین کے استعمال میں ہیر پھیر ہوئی ہے۔

بشکریہ تحریر عزیز اے مبارکی

بہرحال اب مسلمانوں میں وقف کے تعلق سے تھوڑاشعور آیاہے اور بقول حالی
'وہ سوتے میں کچھ کلبلانے لگے ہیں'​
لہذا وقف کے تعلق سے حکومت پر دبائو بناکر ایک قانون بھی پاس کرایاگیا۔ وقف ایکٹ کے تعلق سے بلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ اس سلسلے میں حضرت مولاناولی رحمانی کی کوششیں اورکاوشیں نہ صرف قابل تحسین بلکہ ہررہنما ولیڈر اوراثرورسوخ والے عالم کیلئے قابل تقلید بھی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں اوقاف لاکھوں کی تعداد میں ہیں اوران کی مالیت اربوں میں ہے۔ اگرپورے ہندوستان میں بکھرے اوقاف کا سائنسی اعتبار سے ڈیٹا تیار کیاجائے اورپھران اوقاف کو قابل آمدنی بنایاجائے تومسلمانوں کو اربوں کی آمدنی اس سے ہوگی اورمسلمانوں کو حکومت سے بھیک مانگنے اوربجٹ کی پیشی کے موقع پر اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ بڑھانے کا رونانہیں روناپڑے گا۔

اوقاف کی بہت سی جائیداد تباہ ہوچکی ہیں۔ بہت سوں پر غیروں نے قبضہ اورپکاقبضہ یعنی قانونی طورپر غیرقانونی قبضہ کرلیاہے لیکن ابھی اوقاف کی بہت بڑی جائیداد ایسی ہے جو ہمارے قبضہ میں ہے اوربہت سی وقف جائیدادیں ایسی ہیں جن کو تھوڑی بہت قانونی کارروائی کرکے بازیاب کیاجاسکتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جید علماء کرام(جن کے اندر قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنے کی لیاقت ہو ،صرف خاندانی بڑے عالم نہ ہوں،ملت کے رہنمایان ،سیاسی لیڈران اکٹھے ہوں اورمل بیٹھ کرسہ رخی لائحہ عمل تشکیل دیں۔

(1)ایک کام تویہ کریں کہ جوجائیدادیں وقف بورڈ کے پاس محفوظ ہیں۔ ان کاڈیٹا تیار کیاجائے اوران کے کاغذات درست کئے جائیں تاکہ کسی قانونی سقم کی بناء پر ابھی یاآئندہ چل کر کوئی دعوی ٰ نہ کرسکے۔
(2)ایسی جائیدادوں کی نشاندہی کی جائے جوپورے کاغذات ہونے کے باوجود کسی قانونی سقم کی بناء غیرمجاز قبضہ میں ہے۔ اورتھوڑی بہت قانونی کارروائی سے واپس لی جاسکتی ہے۔ ایسی جائیدادوں کی شناخت کرکے قانونی کاروائی کرکے ایسی جائیدادیں بازیاب کی جائیں۔
(3)جن اوقاف پر کاغذات نہ ہونے کی بناء پر یادیگروجوہات کی بناء پر مرکزی یاریاستی حکومت نے قبضہ کرلیاہے۔ اس کے سلسلے میں سیاسی دبائو بنایاجائے اوروقف کی جائیداد کی بازیابی کیلئے لمبی لڑائی کی تیاری کی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے مقدمات میں دیر ہوگی لیکن صبر کا میٹھاپھل بھی ہم کھائیں گے اگرہم نے ہمت نہ ہاری اورمحاذ پر ڈتے رہے۔
 

دوست

محفلین
ڈھائی فیصد زکوۃ کے علاوہ بھی حکومتِ وقت جتنا چاہے جائز ٹیکس عائد کر سکتی ہے۔ شرط ایماندارانہ استعمال ہے۔
 
شکریہ دوست :) کیا وجہ ہے کہ زکواۃ کو ٹیکس نا سمجھا جائے؟ اور اس کو قرآن کی فراہم کردہ مقدار کو نظر انداز کردیا جائے؟؟؟
 

دوست

محفلین
کوئی وجہ نہیں جی. لیکن اگر اس سے حکومتی ضرورت پوری نہ ہو تو ذمیوں پر بھی ٹیکس لگتا رہا ہے.
 
Top