اسلام آباد پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے اجرا کے بعد عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے پیر کو کارروائی کی جائے گی۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سکندر حیات نے بتایا کہ ایس پی رورل کیپٹن الیاس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پرویز مشرف کو یہ وارنٹ پہنچائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ذمہ داری کیپٹن الیاس کو سونپی گئی ہے تاہم کوئی بھی ذمہ دار افسر عدالتی حکم کی تعمیل کروانے کے لیے ہسپتال جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق وہی افسر ذمہ دار ہو گا کہ ضمانتی مچلکے فراہم کیے جانے پر ان کی تصدیق کرے اور تصدیق کے بعد وہ پرویز مشرف کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔
سکندر حیات کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اس سلسلے میں تعاون نہیں کیا جاتا تو وہ عدالت کو مطلع کریں گے جس کے بعد عدالت ناقابلِ ضمانت وارنٹ بھی جاری کر سکتی ہے۔
نو جنوری کو غداری کے مقدمے میں پیشی کے لیے سفر کے دوران علیل ہونے والے پاکستان کے سابق فوجی حکمران اس وقت راولپنڈی میں فوج کے ادارہ برائے امراض قلب ’آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ میں زیرِ علاج ہیں۔
"افسر ذمہ دار ہو گا کہ ضمانتی مچلکے فراہم کیے جانے پر ان کی تصدیق کرے اور تصدیق کے بعد وہ پرویز مشرف کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔"سکندر حیات، آئی جی پولیس اسلام آباد
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے گذشتہ ہفتے ان کی جانب سے بیرونِ ملک علاج کروانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اُن کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو سات فروری کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم بھی دیا تھا اور ان کی ضمانت کے لیے 25 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کو کہا تھا۔
پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ کے بارے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس رپورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی کہ مشرف عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مشرف نے عدالت میں پیش نہ ہونے سے متعلق مناسب جواز عدالت میں پیش نہیں کیا۔
اس پر پرویز مشرف کی وکلاء ٹیم میں شامل فیصل چوہدری نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سابق صدر کے عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ سات فروری کو ہی کیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے قابل ضمانت ورانٹ پر کسی بھی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی۔
تاہم فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سردار اسحاق نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس ملزم کی گرفتاری ضرور ڈالے گی چاہے وہ علامتی ہی کیوں نہ ہو۔
ان کے مطابق اگر ملزم اس بات کی ضمانت دے کہ وہ ضمانتی رقم جمع کروائیں گے اور وہ اگلی سماعت پر عدالت میں پیش ہوں گے تو پھر پولیس اُنھیں پابند کر کے رہا بھی کر سکتی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/02/140203_islamabad_police_musharraf_warrent_zs.shtml
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سکندر حیات نے بتایا کہ ایس پی رورل کیپٹن الیاس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پرویز مشرف کو یہ وارنٹ پہنچائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ذمہ داری کیپٹن الیاس کو سونپی گئی ہے تاہم کوئی بھی ذمہ دار افسر عدالتی حکم کی تعمیل کروانے کے لیے ہسپتال جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق وہی افسر ذمہ دار ہو گا کہ ضمانتی مچلکے فراہم کیے جانے پر ان کی تصدیق کرے اور تصدیق کے بعد وہ پرویز مشرف کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔
سکندر حیات کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اس سلسلے میں تعاون نہیں کیا جاتا تو وہ عدالت کو مطلع کریں گے جس کے بعد عدالت ناقابلِ ضمانت وارنٹ بھی جاری کر سکتی ہے۔
نو جنوری کو غداری کے مقدمے میں پیشی کے لیے سفر کے دوران علیل ہونے والے پاکستان کے سابق فوجی حکمران اس وقت راولپنڈی میں فوج کے ادارہ برائے امراض قلب ’آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ میں زیرِ علاج ہیں۔
"افسر ذمہ دار ہو گا کہ ضمانتی مچلکے فراہم کیے جانے پر ان کی تصدیق کرے اور تصدیق کے بعد وہ پرویز مشرف کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔"سکندر حیات، آئی جی پولیس اسلام آباد
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے گذشتہ ہفتے ان کی جانب سے بیرونِ ملک علاج کروانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اُن کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو سات فروری کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم بھی دیا تھا اور ان کی ضمانت کے لیے 25 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کو کہا تھا۔
پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ کے بارے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس رپورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی کہ مشرف عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مشرف نے عدالت میں پیش نہ ہونے سے متعلق مناسب جواز عدالت میں پیش نہیں کیا۔
اس پر پرویز مشرف کی وکلاء ٹیم میں شامل فیصل چوہدری نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سابق صدر کے عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ سات فروری کو ہی کیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے قابل ضمانت ورانٹ پر کسی بھی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی۔
تاہم فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سردار اسحاق نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس ملزم کی گرفتاری ضرور ڈالے گی چاہے وہ علامتی ہی کیوں نہ ہو۔
ان کے مطابق اگر ملزم اس بات کی ضمانت دے کہ وہ ضمانتی رقم جمع کروائیں گے اور وہ اگلی سماعت پر عدالت میں پیش ہوں گے تو پھر پولیس اُنھیں پابند کر کے رہا بھی کر سکتی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/02/140203_islamabad_police_musharraf_warrent_zs.shtml