غبارِ خاطر از مولانا ابوالکلام آزاد۔ ص 32-42

فرحت کیانی

لائبریرین
سکین صفحہ 17

(کتاب) ص 32

جائے- اکثر حالتوں میں مطالب کا سلسلہ اس طرح پھیلتا تھا کہ پورا مضمون نثر کے چھوٹے چھوٹے پیراگرافوں سے مرکب ہوتا اور ہر پیراگراف کسی ایک شعر پر ختم ہوتا۔ یہ شعر نثر کے مطلب سے ٹھیک اسی طرح جڑا اور بندھا ہوا ہوتا جس طرح ایک ترکیب بند کا ہر ٹیپ کے کسی شعر سے وابستہ ہوتا ہے اور وہ شعر بند کا ایک ضروری جز بن جاتا ہے۔
لوگ نثر میں اشعار لاتے ہیں تو عموماً اس طرح لاتے ہیں کہ کسی جزئی مناسبت سے کوئی شعر یاد آ گیا اور کسی خاص محل میں درج کر دیا گیا لیکن مولانا اس قسم کی تحریرات میں جو شعر درج کریں گے ، اس کی مناسبت محض جزئی مناسبت نہ ہو گی ، بلکہ مضمون کا ایک ٹکڑا بن جائے گا۔ گویا خاص اسی محل کے لیے شاعر نے یہ شعر کہا ہے اور مطلب کا تقاضا پورا کرنے اور ادھوری بات کو مکمل کر دینے کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس طرزِ تحریر پر وہی شخص قادر ہو سکتا ہے جو کامل درجے کا شاعرانہ فکر رکھنے کے ساتھ ساتھ ، اساتذہ کے لیے بے شمار اشعار بھی اپنے حافظہ میں محفوظ رکھتا ہو اور مطالب کی ہر قسم اور ہرنوعیت کے لیے جس طرح کے اشعار بھی مطلوب ہوں ، فوراً حافظہ سے نکال لے سکتا ہو۔ پھر ساتھ ہی اس کا ذوق بھی اس درجہ سلیم اور بے داغ ہو کہ صرف اعلےٰ درجے کے اشعار ہی قبول کرے اور حسنِ انتخاب کا معیار کسی حال میں بھی درجہ سے نہ گرے۔ اس اعتبار سے مولانا کے حافظے کا جو حال ہے ، وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ قدرت نے انہیں جو خصائص بخشے ہیں ، شاید ان سب میں حافظے کی نعمتِ لازوال سب سے بڑی نعمت ہے۔ عربی ، فارسی اور اردو کے کتنے اشعار ان کے حافظے میں محفوظ ہوں گے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ غالباً خود انہیں بھی معلوم نہیں لیکن جوں ہی وہ قلم اٹھاتے ہیں اور مطالب کی مناسبتیں ابھرنے لگتی ہیں معاً ان کے حافظے کے بند کواڑ کھلنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم اور ہر نوعیت کے سینکڑوں شعر پرّا باندھے
سامنے کھڑے ہیں۔ جس شعر کی جس جگہ ضرورت ہوئی ، فوراً اسے نکالا اور انگوٹھی کے نگینے کی طرح مضمون میں جڑ دیا۔
عام علمی اور دینی مباحث کی تحریرات میں مولانا بہت کم اشعار لایا کرتے ہیں۔ صفحوں کے صفحے لکھ جائیں گے اور ایک شعر بھی نہیں آئے گا لیکن اس خاص اسلوبِ تحریر میں وہ اس کثرت کے ساتھ اشعار سے کام لیتے ہیں کہ ہر دوسری تیسری سطر کے بعد ایک شعر ضرور آ


ص 33

جاتا ہے اور مطلب کے حسن و دل آویزی کا ایک نیا پیکر نمایاں کر دیتا ہے۔
قلعہ احمد نگر کے اکثر مکاتیب اسی طرزِ تحریر میں لکھے گئے ہیں، انہوں نے نثر میں شاعری کی ہے اور جس مطلب کو ادا کیا ہے ، اس طرح کیا ہے کہ جدّتِ فکر ، نقش آرائی کر رہی ہے اور وُسعتِ تخیل رنگ و روغن بھر رہی ہے۔ اجہتادِ فکر اور تجدیدِ اسلوب مولانا کی عام اور ہمہ گیر خصوصیت ہے۔ قلم اور زبان کے ہر گوشے میں ، وہ طرزِ عام سے اپنی روش الگ رکھیں گے اور الفاظ و تراکیب سے لے کر مطالب اور ادائے مطالب کے طرز تک ہر بات میں تقلیدِ عام سے گریزاں اور اپنے مجتہدانہ انداز میں بے میل اور بے لچک نظر آئیں گے۔ انہوں نے جس وقت سے قلم سنبھالا ہمیشہ پیش رو اور صاحبِ اسلوب رہے ہیں۔ کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ کسی دوسرے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلیں چنانچہ ان مکاتیب میں بھی ان کا مجتہدانہ انداز ہر جگہ نمایاں ہے۔ بغیر کسی اہتمام اور کاوش کے قلم برداشتہ لکھتے گئے ہیں۔ لیکن قدرتِ بیان ہے جو بے ساختگی میں بھی ابھری چلی آتی ہے اور کاوشِ فکر ہے جو آمد میں بھی آورد سے زیادہ بنتی اور سنورتی رہتی ہے۔
ظرافت ہے تو وہ اپنی بے داغ لطافت رکھتی ہے ، واقعہ نگاری ہے تو اس کی نقش آرائی کا جواب نہیں۔ فکر کا پیمانہ ہر جگہ بلند اور نظر کا معیار ہر جگہ ارجمند ہے۔
ان مکاتیب پر نظر ڈالتے ہوئے سب سے زیادہ اہم چیز جو سامنے آتی ہے ، وہ مولانا کا دماغی پس منظر ( بیک گراؤنڈ) ہے۔ اسی پسِ منظر پر افکار و احساسات کی تمام جلوہ طرازیوں نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ ایک شخص 9 اگست کو صبح بستر سے اٹھا تو اچانک اسے معلوم ہوا کہ وہ گرفتار شدہ قیدی ہے اور کسی لامعلوم مقام پر لے جایا جا رہا ہے۔ پھر ایک ایسی شدید فوجی نگرانی کے اندر جس کی کوئی پچھلی مثال ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں موجود نہیں اسے قلعہ احمد نگر کی ایک عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے اور دنیا سے تمام علائق یک قلم منقطع ہو جاتے ہیں۔ وہ اس حادثہ کے چوبیس گھنٹے بعد دوسری صبح کو اٹھتا ہے اور قلم اٹھا کر خامہ فرسائی شروع کر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن حالات کی تحریک ، خیالات میں جنبش پیدا کرتی رہتی ہے اور جو کچھ دماغ میں ابھرتا ہے ، بے روک نوکِ قلم کے حوالے ہو جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے حوصلہ فرسا حالات میں ان کا دماغی پس
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سکین صفحہ 18

(کتاب) ص 34
منظر کیا تھا اور وقت کے تمام مخالفانہ حالات کو کس نظر اور کس مقام سے دیکھ رہا تھا؟ یہی دماغی پس منظر ہے جس کی نوعیت سے ہر عظیم شخصیت کی عظمت کا اصل مقام دنیا کے آگے نمایاں ہوتا ہے ، یہی کسوٹی ہے جس پر ہر انسانی عظمت کسی جا سکتی ہے اور یہی معیار ہے جو ہر انسان کی عظمت و پستی کا فیصلہ کر دیتا ہے۔
ان مکاتیب میں مولانا نے خود کوشش کی ہے کہ اپنا دماغی پس منظر دنیا کے آگے رکھ دیں اور اسی لیے یہ غیر ضروری ہو گییا ہے کہ اس بارے میں بحث و نظر سے کام لیا جائے۔ میں صرف معاملے کے اس پہلو پر اہلِ نظر کی توجہ دلانا چاہتا ہوں ، میں خود کچھ کہنا نہیں چاہتا۔
گزشتہ جولائی میں جونہی ان مکاتیب کی اشاعت کا اعلان ہوا ، ملک کے ہر گوشے سے تقاضے ہونے لگے کہ ان کے ترجمے کا بھی سرو سامان ہونا چاہیے۔ کلکتہ ، بمبئی ، دہلی ، الہٰ آباد ، کانپور اور پٹنہ کے پبلشروں کا تقاضا تھا کہ انگریزی ، ہندی ، گجراتی ، بنگالی ، تامل وغیرہ زبانوں میں ان کے ترجمے کی اجازت دے دی جائے۔ میں نے یہ تمام درخواستیں مولانا کی خدمت میں پیش کر دیں لیکن انہوں نے ترجمے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے فرمایا کہ چند مکاتیب کے سوا یہ تمام مکاتیب ایک ایسے اسلوب میں لکھے گئے ہیں کہ ان کا کسی دوسری زبان میں صحت و ذوق و معیار کے ساتھ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کیا جائے گا تو اصل کی ساری خصوصیات مٹ جائیں گی۔ چنانچہ اس وقت تک ترجمے کی اجازت کسی فرم کو نہیں دی گئی ہے۔مولانا نے جس خیال سے ترجمے کو روکا ہے مجھے یقین ہے کہ اس سے ہر صاحبِ نظر اتفاق کرے گا۔ یہ نثر میں شاعری ہے اور شاعری ترجمے کی چیز نہیں ہوتی۔ البتہ دو چار مکتوب جو بعض فلسفیانہ اور تاریخی مباحث پر لکھے گئے ہیں ، ترجمہ کیے جا سکتے ہیں انہیں مستثنیٰ کر دینا چاہیے۔
یہ تمام مکاتیب “صدیق مکرم“ کے خطاب شروع ہوتے ہیں۔ یہ “صدیق“ تشدید کے ساتھ “صدیق“ نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض اشخاص پڑھنا چاہیں گے بلکہ بغیر تشدید کے ہے۔ “صداقہ“ عربی میں دوستی کو کہتے ہیں۔ “صَدِیق“ یعنی دوست۔
11۔اپریل 1943ء کے مکتوب کے آخر میں متمم بن نویرہ کے مرثیے کے اشعار نقل کیے گئے ہیں۔



ص 35
یہ مرثیہ اس نے اپنے بھائی مالک کی یاد میں لکھا تھا:
لقد لا منی عند القبور علی البکا رفیقی لتذ راف الدموع السّوافک
فقال اتبکی کل قبر رایتہ لقبر ثوی بین اللوی فالد کادک
فقلت لہُ ان الشجابیعت الشجا فدعنی ، فھٰذا کلہ قبر مالک
ان اشعار کے مطلب کا خلاصہ یہ ہے:
“میرے رفیق نے جب دیکھا کہ قبروں کو دیکھ کر میرے آنسو بہنے لگتے ہیں تو اس نے مجھے ملامت کی۔ اس نے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ اس ایک قبر کی وجہ سے جو ایک خاص مقام پر واقع ہے تو ہر قبر کو دیکھ کر رونے لگتا ہے؟ میں نے کہا ، بات یہ ہے کہ ایک غم کا منظر دوسرے غم کی یاد تازہ کر دیا کرتا ہے ، لہٰذا مجھے رونے دے ، میرے لیے تو یہ تمام قبریں مالک کی قبریں بن گئی ہیں!“
“حکایت بے ستون و کوہ کن“ ایران کے قدیم آثار میں ایک اثر “ بے ستون“ کے نام سے مشہور ہے اور داستان سراؤں نے اسے فرہاد کوہ کن کی طرف منسوب کر دیا ہے مگر دراصل یہ “بے ستون“ ہے۔ “ بہ ستون“ (بہستان یا باغستاں) ہے۔ فارسی قدیم میں “ باغ“ خدا یا دیوتا کو کہتے ہیں یعنی یہ مقام “ خداؤں کی جگہ “ ہے۔

محمد اجمل خاں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سکین صفحہ 20

(کتاب) ص 36
دیباچہ
میر عظمت اللہ بیخبر بلگرامی 1، مولوی غلام علی آزاد بلگرامی 2 کے معاصر اور ہم وطن تھے اور جدّی رشتہ سے قرابت بھی رکھتے تھے۔ آزاد بلگرامی نے اپنے تذکروں میں جا بجا ان کا ترجمہ لکھا ہے اور سراج الدین علی خاں آرزو 3 اور آنند رام مخلص 4 کی تحریرات میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے ایک مختصر سا رسالہ “غبارِ خاطر“ کے نام سے لکھا تھا۔ میں یہ نام ان سے مستعار لیتا ہوں:
(8 ) مُپرس تاچہ نوشت ست کلک قاصرِ ما
خطِ غبارِ من ست ایں غُبارِ خاطرِ ما!
یہ تمام مکاتیب نج کے خطوط تھے اور اس خیال سے نہیں لکھے گئے تھے کہ شائع کیے جائیں گے لیکن رہائی کے بعد جب مولوی محمد اجمل خاں صاحب 5 کو ان کا علم ہوا تو مُصِر ہوئے کہ انہیں ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کر دیا جائے۔ چونکہ ان کی طرح ان کی خاطر بھی مجھے عزیز ہے اس لیے ان مکاتیب کی اشاعت کا سروسامان کر رہا ہوں۔ جس حالت میں یہ قلم برداشتہ لکھے ہوئے موجود تھے ، اسی حالت میں طباعت کے لیے دے دیئے گئے ہیں۔ نظرِ ثانی کا موقع نہیں ملا۔
(9) نسخہء شوق بہ شیرازہ نہ گنجد زنہار
بگزارید کہ ایں نسخہء مجّزا ماندا! 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیشنل ایئر لائن
(مابین کراچی۔ جودھپور)
2 فروری 1946ء
ابوالکلام​



ص 37
(1)

رہائی کے بعد کے بعض مکاتیب نواب صدر یار جنگ کے نام


شملہ
27 جون 1945ء

اے غائب از نظر کہ شُدی ہم نشینِ دل (10)
می بینمت عیان و دعا می فرستمت 1
دل حکایتوں سے لبریز ہے مگر زبان درماندہء فرصت کو یارائے سخن نہیں۔ مہلت کا منتظر ہوں۔ 2

ابوالکلام​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سکین صفحہ 21

(کتاب) ص 38
(2)​

مولانا کا مکتوب سرینگر​

ہاؤس بوٹ۔ سرینگر
24 اگست 1845ء
(11) گہے از دست ، گاہے از دل ، و گاہے ز پا مانم
بہ سُرعت می روی اے عمر! مہ ترسم کہ دا مانم 1
صدیق مکرم
زندگی کے بازار میں جنس مقاصد کی بہت سی جستجوئیں کی تھیں ، لیکن اب ایک نئی متاع کی جستجو میں مبتلا ہو گیا ہوں یعنی اپنی کھوئی ہوئی تندرستی ڈھونڈ رہا ہوں۔ معالجوں نے وادیء کشمیر کی گل گشتوں میں سراغرسانی کا مشورہ دیا تھا چنانچہ گزشتہ ماہ کے اواخر میں گلمرگ پہنچا اور تین ہفتہ تک مقیم رہا۔ خیال تھا کہ یہاں کوئی سراغ پا سکوں گا ، مگر ہر چند جستجع کی ، متاع گم گشتہ کا کوئی سراغ نہ ملا۔
نکل گئی ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں میں
آپ کو معلوم ہے کہ یہاں فیضی نے بھی کبھی بارِ عیش کھولا تھا:
(12) ہزار قافلہء شوق می کشد شبگیر،
کہ بارِ عیش کشاید بخطہ کشمیر 2
لیکن میرے حصے میں ناخوشی و علالت کا بار آیا۔ یہ بوجھ جس طرح کندھوں پر اُٹھائے آیا تھا ، اُسی طرح اُٹھائے واپس جا رہا ہوں۔ خود زندگی بھی سر تا سر ایک بوجھ ہی ہے۔ خوشی سے اٹھائیں یا نا خوشی سے ، مگر جب تک بوجھ سر پر پڑا ہے ، اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔




ص 39


(13) مازندہ ازانیم کہ آرام نہ گیریم! 3
گلمرگ سے سرینگر آ گیا ہوں اور ایک بوٹ ہاؤس میں مقیم ہوں۔ کل گلمرگ روانہ ہو رہا تھا کہ ڈاک آئی اور اجمل خاں صاحب نے آپ کا مکتوبِ منظوم حوالہ کیا۔ کہہ نہیں سکتا کہ اس پیامِ محبت کو دلِ درد مند نے کن آنکھوں سے پڑھا اور کن کانوں سے سنا۔ میرا اور آپ کا معاملہ تو وہ ہو گیا ہے جو غالب نے کہا تھا: 4

(14) باچوں توئی معاملہ ، برخویش منت ست
از شکوہء تو شکرگزارِ خودیم ما!
آپ نے اپنے تین شعروں کا پیام دلنواز نہیں بھیجا ہے لطف و عنایت کا ایک پورا دفتر کھول دیا ہے:
(15) قلیل منک یکفینی ، ولا کن
قلیلک لا یقال لہ ، قلیل 5
ان سطور کو آیندہ خامہ فرسائیوں کی تمہید تصور کیجیے۔ رہائی کے بعد جو کہانی سنانی تھی وہ ابھی تک نوکِ قلم سے آشنا نہ ہو سکی۔

والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ابوالکلام​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سکین صفحہ 22

(کتاب) ص 40

(3)
مکتوبِ نسیم باغ​

نسیم باغ۔ سرینگر
3 ستمبر 1945ء

(16) ازما مپرس دردِ دل ، ما کہ یک زباں
خودرا بحیلہ پیشِ تو خاموش کردہ ایم1

صدیق مکرم
وہی صبح چار بجے کا جانفزا وقت ہے۔ ہاؤس بوٹ میں مقیم ہوں۔ داہنی طرف جھیل کی وسعت شالامار اور نشاط باغ تک پھیلی ہوئی ہے 2۔ بائیں طرف نسیم باغ کے چناروں کی قطاریں دور تک چلی گئی ہیں۔ چائے پی رہا ہوں اور آپ کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔
(17) گرچہ دُوریم ، بیادِ تو قدح مہ نوشیم
بُعدِ منزل نہ بود درسفرِ روحانی 3
گرفتاری سے پہلے آخری خط جو آپ کے نام لکھ سکا تھا ، وہ 3 اگست 1942ء کی صبح کا تھا۔ کلکتہ سے بمبئی جا رہا تھا۔ ریل میں خط لکھ کر رکھ لیا کہ بمبئی پہنچ کر اجمل خاں صاحب کے حوالے کر دوں گا۔ وہ نقل کر کے آپ کو بھیج دیں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ انہوں نے خطوط کی نقول رکھنے پر اصرار کیا تھا اور میں نے یہ طریقہ منظور کر لیا تھا لیکن بمبئی پہنچتے ہی کاموں کے ہجوم میں اس طرح کھویا گیا کہ اجمل خاں صاحب کو خط دینا بھول گیا۔
9 اگست کی صبح کو جب مجھے گرفتار کر کے احمد نگر لے جا رہے تھے تو بعض کاغذات



ص 41

رکھنے کے لیے راہ میں اٹاچی کیس کھولا اور یکایک وہ خط سامنے آ گیا۔ اب دنیا سے تمام علاقے منقطع ہو چکے تھے۔ ممکن نہ تھا کہ کوئی خط ڈاک میں ڈالا جا سکے۔ میں نے اسے اٹاچی کیس سے نکال کر مسودات کی فائل میں رکھ دیا اور فائل کو صندوق میں بند کر دیا۔
دو بجے ہم احمد نگر پہنچے اور پندرہ منٹ کے بعد قلعہ کے اندر محبوس تھے۔ اب اس دنیا میں جو قلعہ سے باہر تھی اور اس دنیا میں جو قلعہ کے اندر تھی ، برسوں کی مسافت حائل ہو گئی:
(18 ) کیف الوصول الیٰ سعاد و دونھا
قلل الجبال و بینھن حتوف
دوسرے دن یعنی 10 اگست کو حسبِ معمول صبح تین بجے اُٹھا۔ چائے کا سامان سفر میں ساتھ رہتا ہے ، وہاں بھی سامان کے ساتھ آ گیا تھا۔ میں نے چائے دم دی۔ فنجان سامنے رکھا اور اپنے خیالات میں ڈوب گیا۔ خیالات مختلف میدانوں میں بھٹکنے لگے تھے ، اچانک وہ خط جو 3 اگست کو ریل میں لکھا تھا اور کاغذات میں پڑا تھا ، یاد آ گیا۔ بے اختیار جی چاہا کہ کچھ دیر آپ کی مخاطبت میں بسر کروں اور آپ سن رہے ہوں یا نہ سن رہے ہوں ، مگر روئے سخن آپ ہی کی طرف رہے۔ چنانچہ اس عالم میں ایک مکتوب قلم بند ہو گیا اور اس کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن مکتوبات قلم بند ہوتے رہے۔ آگے چل کر بعض دیگر احباب و اعزّہ کی یاد بھی سامنے آئی اور ان کی مخاطبت میں بھی گاہ گاہ طبع واماندہء حال دراز نفسی کرتی رہی۔ قید خانہ سے باہر کی دنیا سے اب سارے رشتے کٹ چکے تھے اور مستقبل پردہء غیب میں مستور تھا۔ کچھ معلوم نہ تھا کہ یہ مکتوبات کبھی مکتوب الیہم تک پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ تاہم ذوق مخاطبت کی طلب گاریاں کچھ اس طرح دلِ مستمند پر چھا گئی تھیں کہ قلم اٹھا لیتا تھا تو پھر رکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ لوگوں نے نامہ بری کا کام بھی کبھی قاصد سے لیا ، کبھی بال کبوتر سے ، میرے حصے میں عنقا آیا:
(19) ایں رسم وراہِ تازہ زحرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بر نہ بود 4
10 اگست 1942ء سے مئی 1943ء تک ان مکتوبات کی نگارش کا سلسلہ جارہ رہا لیکن اس کے بعد رک گیا کیونکہ 9 اپریل 1943ء کے حادثہ5 کے بعد طبع درمانہء حال بھی رُک۔۔۔
 
Top