سکین صفحہ 21
(کتاب)
ص 38
(2)
مولانا کا مکتوب سرینگر
ہاؤس بوٹ۔ سرینگر
24 اگست 1845ء
(11) گہے از دست ، گاہے از دل ، و گاہے ز پا مانم
بہ سُرعت می روی اے عمر! مہ ترسم کہ دا مانم 1
صدیق مکرم
زندگی کے بازار میں جنس مقاصد کی بہت سی جستجوئیں کی تھیں ، لیکن اب ایک نئی متاع کی جستجو میں مبتلا ہو گیا ہوں یعنی اپنی کھوئی ہوئی تندرستی ڈھونڈ رہا ہوں۔ معالجوں نے وادیء کشمیر کی گل گشتوں میں سراغرسانی کا مشورہ دیا تھا چنانچہ گزشتہ ماہ کے اواخر میں گلمرگ پہنچا اور تین ہفتہ تک مقیم رہا۔ خیال تھا کہ یہاں کوئی سراغ پا سکوں گا ، مگر ہر چند جستجع کی ، متاع گم گشتہ کا کوئی سراغ نہ ملا۔
نکل گئی ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں میں
آپ کو معلوم ہے کہ یہاں فیضی نے بھی کبھی بارِ عیش کھولا تھا:
(12) ہزار قافلہء شوق می کشد شبگیر،
کہ بارِ عیش کشاید بخطہ کشمیر 2
لیکن میرے حصے میں ناخوشی و علالت کا بار آیا۔ یہ بوجھ جس طرح کندھوں پر اُٹھائے آیا تھا ، اُسی طرح اُٹھائے واپس جا رہا ہوں۔ خود زندگی بھی سر تا سر ایک بوجھ ہی ہے۔ خوشی سے اٹھائیں یا نا خوشی سے ، مگر جب تک بوجھ سر پر پڑا ہے ، اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔
ص 39
(13) مازندہ ازانیم کہ آرام نہ گیریم! 3
گلمرگ سے سرینگر آ گیا ہوں اور ایک بوٹ ہاؤس میں مقیم ہوں۔ کل گلمرگ روانہ ہو رہا تھا کہ ڈاک آئی اور اجمل خاں صاحب نے آپ کا مکتوبِ منظوم حوالہ کیا۔ کہہ نہیں سکتا کہ اس پیامِ محبت کو دلِ درد مند نے کن آنکھوں سے پڑھا اور کن کانوں سے سنا۔ میرا اور آپ کا معاملہ تو وہ ہو گیا ہے جو غالب نے کہا تھا: 4
(14) باچوں توئی معاملہ ، برخویش منت ست
از شکوہء تو شکرگزارِ خودیم ما!
آپ نے اپنے تین شعروں کا پیام دلنواز نہیں بھیجا ہے لطف و عنایت کا ایک پورا دفتر کھول دیا ہے:
(15) قلیل منک یکفینی ، ولا کن
قلیلک لا یقال لہ ، قلیل 5
ان سطور کو آیندہ خامہ فرسائیوں کی تمہید تصور کیجیے۔ رہائی کے بعد جو کہانی سنانی تھی وہ ابھی تک نوکِ قلم سے آشنا نہ ہو سکی۔
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ابوالکلام