غالب کی 150ویں برسی اور ہماری زمہ داریاں

"ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے"
اردو و فارسی شاعری کا برصغیر میں سب سے اونچا نام, اسد اللہ خان غالب.
اپنے نام کی طرح تمام سخنوران پر "غالب"
ان کے زمان حیات میں ان کی وہ قدر نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی. لیکن ان کی وفات کو جتنا وقت گزرتا گیا, پرانی شراب کی طرح اس کا نشہ بھی بڑھتا گیا اور دیوان غالب مقبولیت کے آسمان کو چھونے لگی. 15-فروری-2019 کو غالب کی وفات کو 150 سال پورے ہورہے ہیں جس کو بہت کم عرصہ باقی ہے.
میرا زاتی نظریہ یہ کہتا ہے کہ غالب کے 150ویں برسی کو پاکستان میں حکومتی سطح پر منایا جائے, یادگاری ٹکٹ جاری کیا جائے اور مرکز میں غالب کی یاد میں ایک بڑی سمینار کا انعقاد کیا جائے جس میں تمام اردو انجمنیں اور شعراء و ادباء شرکت کریں.
اس تجویز کو کیسے کامیاب بنایا جاسکتا ہے, کس سے رابطہ کیا جائے.
اس سلسلے میں ارباب محفل کی رائے درکار ہے.
 

سیما علی

لائبریرین
ڈیئر غالب، سالگرہ مبارک!

دو دن کی تاخیر سے مبارک باد دینے پر معذرت قبول فرمائیں۔

ویسے فیس بک پر تو میں نے اُسی روز گلی قاسم جان، کوچہ بَلّی ماراں، پرانی دلی میں واقع آپ کی حویلی کے صدر دروازے پر کھینچی ہوئی اپنی تصویر پوسٹ کر دی تھی۔ آپ کی تاریخ پیدائش یعنی 27 دسمبر 1797 کا بھی ذکر کر دیا تھا اور یہ بھی کہ ’ریختہ کے استاد' کو پیدا ہوئے 220 سال ہو چکے ہیں۔

اب تک 77 لائکس مل چکے ہیں اس پوسٹ کو۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396520_photo15-11-2017094105.jpg

Image caption1969 میں غالب کی 100ویں
برسی پر متحدہ پاکستان میں جاری کردہ 15 پیسے مالیت کا یادگار ڈاک ٹکٹ جس کا نمونہ غالب کی حویلی میں آویزاں ہے
ویسے کیا آپ نے کبھی اپنی سالگرہ منائی؟ یا اس زمانے میں ہیپی برتھ ڈے، سالگرہ مبارک اور جنم دن کی شُبھ کامناؤں کا رواج نہیں تھا۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں اردو، کہاں اسد اللہ خان غالب کی زبان اور کہاں یہ آفریدی پٹھان!

یہ بات میرے لیے بھی حیرانی کا باعث ہے۔

ہوا یہ کہ اِسی موسمِ خزاں میں بی بی سی اردو کے وظیفے پر ولایت (لندن) سے آپ کے شہر دِلی گیا تھا تاکہ وہاں ہندی والوں سے ڈِیجیٹل میڈیا کی تربیت حاصل کروں۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396628_photo15-11-2017094741.jpg

اوہ ہو، آپ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ آخر کو ہے نا پٹھان، خالص اردو میں بھی انگریزی اصطلاحوں کی آمیزش کر ڈالی۔

آپ تو خیر فورٹ وِلیئم کالج میں استاد کی نوکری ٹھکرا کر وہاں سے اس لیے لوٹ آئے تھے کہ انگریز پرنسپل یعنی صدر مدرس آپ کے استقبال کے لیے کالج کے دروازے پر موجود نہیں تھا۔ مگر انگریز ہندوستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں ایسی چھاپ چھوڑ گئے ہیں کہ انگریزی الفاظ ہر زبان کا حصہ بن گئے ہیں۔

ہندی بولنے والوں نے بعض انگریزی اصطلاحوں کے ہندی متبادل اختراع کیے مگر سچ یہ ہے کہ سننے میں مضحکہ خیز سے لگتے ہیں۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396630_photo15-11-2017093827.jpg

Image captionغالب کی مہر کا عکس
اردو والوں نے یہ کہہ کر کہ 'اردو کا دامن بڑا وسیع ہے'، دھڑا دھڑ ان ولایتی الفاظ کو سمو لیا۔

ویسے بھی جن انگریزی الفاظ کا اردو متبادل ہے بھی ان میں سے بھی بعض کانوں کو بھلے نہیں لگتے۔ مثلاً لبلبے کو انگریزی میں 'پینکرِیاس' کہتے ہیں۔ خدا لگتی کہیے صوتی اعتبار سے آپ کو کونسا لفظ بھایا؟

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396632_photo15-11-2017094825.jpg

Image captionغالب کی پوشاک
ارے آپ تو ویب سائٹ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سمارٹ فون، سیلفی، فیس بُک، پوسٹ، بی بی سی، ڈیجیٹل اور میڈیا سے بھی مانوس نہیں۔ صرف آپ کے لیے میں ان کا بالترتیب لفظی ترجمہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں: جالا مقام، برقیاتی شمارکنندہ، بین الجال، ذہین آلۂ سماعت، خودعکسی، چہرہ کتاب، چسپی، فرنگی نشریاتی ادارہ، ہندسئی، وسلیہ۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396800_photo15-11-2017093554.jpg

Image captionان کے بعض اشعار کو اردو کے ساتھ ہندی میں بھی لکھا گیا ہے جب کہ انگریزی میں شعر کا مفہوم بیان کیا گیا ہے
مان گئے نا آپ بھی کہ ترجمے سے اصل فصیح تر ہے۔ ویسے اردو اور انگریزی کے ملاپ سے بننے والی زبان کو بعض لوگ 'اُردریزی' کہتے ہیں۔

برا مت مانیے گا آپ کے شہر دلی میں بھی اردو کا حال بے حال ہے۔

بات ہو رہی تھی آپ کی سالگرہ اور آپ کی حویلی پر میری حاضری کی۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396634_photo15-11-2017093649.jpg

Image captionغالب نے اپنا روزہ بہلانے کے لیے حقہ پینے کا ذکر کیا ہے
آپ کے شہر کے تاریخی آثار اور سلاطینِ دلی کی قبریں دیکھنے کے علاوہ میں نظام الدین اولیا، امیرخُسرو، بختیار کاکی اور مٹکا پیر کے مزاروں کو بھی دیکھنے کی غرض سے گیا۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396636_photo15-11-2017094246.jpg

Image captionغالب پسِ مرگ کسی مصور کی آنکھ سے
گزر تو آپ کی آخری آرام گاہ کے پاس سے بھی دو مرتبہ ہوا۔ مگر بقول شخصے آپ نے 'حاضری' کی اجازت نہیں دی۔ کیونکہ مجاور سورج ڈوبتے ہی آپ کی قبر کے احاطے کو مقفل کر دیتا تھا۔

خیر، میں جہاں بھی جاتا وہاں کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کر دیتا۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396798_photo15-11-2017094806.jpg

Image captionغالب کی شادی تیرہ برس کی عمر میں ہوگئی تھی
میرے رفقائے فیس بک میں سعودی عرب (حجاز) سے ڈاکٹر اسمعیل بھی شامل ہیں۔ انھوں نے شکایت کی کہ تم ہر جگہ گئے مگر غالب کے مزار پر نہیں گئے۔ آپ کی اطلاع کے لیے ان کا اصل وطن سوات ہے۔ یعنی وہ بھی میری طرح پٹھان ہیں۔

ان کی فرمائش پر میں آپ کی حویلی گیا کہ 'سر زیرِ بارِ منت درباں' کر کے 'چند تصاویرِ بتاں' حاصل کر کے پوسٹ کر دوں۔

اب پالکی کا زمانہ تو رہا نہیں، اس لیے چاندنی چوک سے آپ کی حویلی کے لیے سائیکل رکشا لیا۔ مگر رکشابان نے آدھے راستے میں یہ کہہ کر اتار دیا کہ آگے سڑک پر گاڑیوں کا ازدحام ہے لہذا پیدل جانا بہتر ہوگا۔ آپ کی گلی کا پوچھتے پوچھتے آپ کی دہلیز پر پہنچ گیا۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396276_photo15-11-2017095238.jpg

Image captionحکومت نے غالب کی حویلی سے ہیٹر بنانے والوں کو نکال کر اسے قومی ورثے کا درجہ دیدیا ہے
حکومتِ ہند نے بائیس سال پہلے عوامی دباؤ میں آکر حویلی کو ہیٹر (گرمالہ) بنانے والوں سے خالی کروا کر اِسے قومی وِرثہ قرار دیدیا تھا۔ ویسے آدھے حصے میں اب بھی کوئی 'رقیبِ روسیا' دفتر لگائے بیٹھا ہے۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396518_photo15-11-2017095314.jpg

Image captionغالب کی حویلی کے ایک حصے میں ’سفری انصرام کے گماشتے‘ دفتر اور کاغذات کی نقول بنانے والی کی دکان
آپ کو یہ سن کر دکھ ہوگا کہ حویلی کی حالت زیادہ اچھی نہیں۔ آپ کی کچھ یادگاریں محفوظ تھیں۔ گرد میں اٹے اشعار کے طُغرے دیواروں پر آویزاں تھے۔ گھر اور دشت کی ویرانی میں مماثلت پیدا کر کے اپنی حویلی کی بے رونقی کا اقرار تو آپ اپنی زندگی ہی میں کر چکے تھے۔

ستم یہ ہے کہ جس شعر میں آپ نے اس ویرانی کا ذکر کیا ہے اس کے مِصْرَعِ ثانی میں کسی ستم ظریف نے تصرف کر کے اسے الٹا کر دیا ہے۔ یعنی 'دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا' کی بجائے 'گھر کو دیکھ کے دشت یاد آیا' لکھ دیا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ہندی رسم الخط میں بالکل صحیح طور سے نقل کیا گیا ہے۔ جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی اصل شعر کے خاصا قریب ہے۔ اپنی بات کا یقین دلانے کے لیے میں تصویر بھی ساتھ لایا ہوں۔ یہ دیکھیے!

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396272_photo15-11-2017094942.jpg

Image captionکاش غالب کے شعر کے ساتھ ان ہی کی حویلی میں ایسی زیادتی نہ ہوتی
آپ تو خیر انتہائی کمزور مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کے مصاحب تھے۔ دلی والوں نے تو ایک سڑک کی لوح پر شہنشاہ اکبر اعظم کا نام بھی الٹا لکھ دیا ہے۔ اور یہ سب ایسے میں ہو رہا ہے کہ دلی میں آپ کی قبر کے ساتھ ہی غالب اکیڈیمی قائم ہے اور اب تو شہر میں جشنِ ریختہ کا اہتمام بھی باقاعدگی سے ہونے لگا ہے۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396274_img_3503.jpg

Image captionکیا اکبر روڈ کے اکبر کو کسی نے غور سے نہیں دیکھا
ویسے بقول آپ کے جو 'چند تصویر بتاں، کچھ حسینوں کے خطوط' بعد مرنے کے آپ کے گھر سے نکلے، ان کا وہاں کوئی سراغ نہ تھا۔ ہو سکتا ہے اسی کوتوالِ شہر کی شرارت ہو جو نواب جان کے دل میں آپ کے لیے محبت کی وجہ سے آپ کا عدو بن گیا تھا۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396524_photo15-11-2017093931.jpg

Image captionحویلی میں رکھا دیوانِ غالب کا بوسیدہ نسخہ
ذکر حویلی کی ویرانی کا ہو رہا تھا۔ میں پہنچا تو وہاں ایک گارڈ (دربان) موجود تھا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان نے اندر کی کچھ تصاویر بنائیں۔ پھر دو ادھیڑ عمر افراد آئے۔ نام یاد نہیں مگر ایک ہندو تھا دوسرا سِکھ۔ تعارف کے بعد بتایا کہ آس پاس ہی رہتے ہیں اور انھیں اردو پڑھنا نہیں آتی مگر کبھی کبھار اس عظیم شاعر (یعنی آپ) کی حویلی کا چکر لگا لیتے ہیں۔

ان صاحبانِ ذوق سے ملاقات کے بعد جس چیز نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈالا وہ تھی آپ کی حویلی میں دو مزید پٹھانوں کی موجودگی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ افغانستان کے صوبے لغمان سے ہندوستان کسی کام سے آئے تھے اور اگلے روز واپسی سے پہلے مرزا غالب کی حویلی دیکھنے آئے ہیں۔

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396522_photo15-11-2017093417.jpg

Image copyrightUMER AFRIDI
_99396526_photo15-11-2017094006.jpg

Image captionبحیثیتِ شاعر دوسروں نے تو غالب کا لوہا مانا ہی ہے، انھیں بھی اپنی عظمت کا بخوبی احساس تھا
گویا سوات کے ایک پٹھان کی فرمائش پر، تیراہ کا ایک پٹھان آپ کی حویلی جاتا ہے اور وہاں دو افغان پٹھانوں سے ملاقات ہوتی ہے۔

استاد ذوق نے تو آپ کی قدر نہیں کی مگر شاید اب وہ گلشن آباد ہو گیا ہے جس کا ذکر آپ نے کیا تھا: 'میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں'

فقط

آپ کے دَرَجات کی بلندی کے لیے دعا گو

غالب کی دلی میں اردو کی حالتِ زار

عمر آفریدی بی بی سی اردو سروس، لندن
  • 29 دسمبر
  • 2017
عمر آفریدی


 

سیما علی

لائبریرین
مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ، گوگل کا بھی خراج عقیدت
ویب ڈیسک

December 27, 2017



177451_426745_updates.jpg

مرزا غالب کی سالگرہ پر تخلیق کیا گیا گوگل ڈوڈل—۔

اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی آج 220 ویں سالگرہ ہے۔

اس موقع پر گوگل نے بھی مرزا غالب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک ڈوڈل تخلیق کیا، جس میں غالب کو کاغذ اور قلم تھامے اپنے تخیلات کو یکجا کرنے میں مگن دیکھا جاسکتا ہے۔

گوگل ڈوڈل کے پس منظر میں مغل طرز تعمیر کی ایک عمارت بھی نہایت بھلی معلوم ہورہی ہے۔

177451_8420686_updates.jpg

مرزا غالب 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے—۔فائل فوٹو

مرزا اسد اللہ خان غالب، جنہیں لوگ پیار سے 'مرزا نوشہ' کہتے تھے، 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور لڑکپن سے ہی شاعری کا آغاز کردیا۔

1812 میں وہ دلی چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔

شاعری ہو یا نثر، انشا پردازی ہو یا خطوط نویسی، غالب نے ہر شے میں منفرد و رنگین جدتیں پیدا کیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے

غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی سے بیان کرنے کا ملکہ حاصل تھا، بقول غالب:

نکتہ وروں نے ہم کو سجھایا، خاص بنو اور عام رہو

محفل محفل صحبت رکھو، دنیا میں گم نام رہو

اُن کی شاعری کا حسنِ بیان اپنی جگہ مُسلَّم ہے، مگر اُن کا اصل کمال تلخ حقائق کا ادراک اور انسانی نفسیات کی پرکھ ہے اور اسی کو غالب نے نہایت آسان الفاظ میں ڈھالا۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

الغرض زندگی کی تمام کیفیتیں، احساس کی کروٹیں اور خیال کے زاویے، مرزا غالب کی شاعری میں سبھی کچھ ملتا ہے۔

غالب نے فرمایا:

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی، دردِ لادوا پایا

ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

1850 میں مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر نے انہیں مختلف خطابات سے نوازا۔

غالب پر کئی ڈاکیومینٹریز، فلمیں اور ڈرامے بھی بنتے رہے ہیں۔

فارسی اور اردو شاعری کے نوشہ میاں کے قلم کا اعجاز ہے کہ آج اردو دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔

غالب کا انتقال 15 فروری 1869 کو ہوا۔

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
 
Top