غالب کی شاعری

مومن مخلص

محفلین
غالب کی شاعری کو سمجھنے کے لئے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کن حضرت کی کتاب پڑھی جائے جس میں غالب کی شاعری کو بہترین اور صحیح انداز میں سمجھا یا گیا ہو؟
 

اوشو

لائبریرین
کیا آپ کوئی سب سے بہترین غالب کی شرح کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو آپ کے نز دیک جامع ہو؟

محترم الف عین کے دئیے گئے لنک پر موجود نظم طبابائی کی شرح غالب مطالعہ آپ کے لیے مفید ہو گا۔

غالب کی کئی شرحیں بھی ہیں۔ مثلاً نظم طباطبائی کی، میری برقی کتابوں میں دیکھیں،

http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/NazmTabatabai.html

میں نے بھی کافی عرصہ پہلے اسی لنک سے یہ شرح ڈاؤنلوڈ کی تھی۔
ویسے میرے خیال میں اس شرح کی بھی شرح ہونی چاہیے تھی :)
جیسا کہ لنک پرموجود صفحے ہی سے ایک نمونہ ہے۔
شعر:
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

شرح:
مصنف کی غرض یہ ہے کہ میری نیستی و فنا یہاں تک پہنچی کہ اب میں عدم میں بھی نہیں ہوں اور اس سے آگے نکل گیا ہوں ، ورنہ جب تک میں عدم میں تھا ، جب تک میری آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گیا ہے ، عنقا ایک طائر معدوم کو کہتے ہیں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھی عدم میں ہوا اور ایک ہی میدان میں آہِ آتشیں و بالِ عنقا کا اجتماع ہوا ، اسی سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل گیا ، لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی باہر ہوں ، اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقیضین مجھ سے مرتفع ہیں ، شاید ایسے ہی اشعار پر دلی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معنی کہا کرتے ہیں اور اُس کے جواب میں مصنف نے یہ شعر کہا ؂
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ میں ناسخؔ کے زمانہ سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے ، لیکن دلی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں ، میں نے اس امر میں نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے تحقیق چاہی تھی ، اُنھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا ، مگر یہ کہا کہ مومنؔ خاں صاحب کے اس شعر میں ؂
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ
اے شبِ ہجر تیرا کالا منھ
اگر پرے کی جگہ اُدھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے ، میں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس میں ’ پرے ‘ کی جگہ ‘ اُدھر ‘ کہنا محاورہ میں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ‘ بولتے تھے اب اُسی محل پر دور بھی محاورہ ہو گیا ہے ، اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا : ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلا منھ ‘ اور تحسین کی ۔
اب شرح الشرح یا تشریح الشرح جو بھی ترکیب ٹھیک بنتی ہے ، کے لیے کہاں رجوع کیا جائے محترم الف عین :)

ویسے معلومات کے لیے یہ بھی بتا دیں کہ شرح کی شرح بھی ہوتی ؟ اگر ہوتی ہے تو اس کے لیے کیا لفظ مستعمل ہے؟
کیا دیوان غالب کی کوئی ایسی شرح بھی ہے جو سادہ اردو سمجھنے والوں کے لیے مفید ہو؟
 

سید ذیشان

محفلین
اس پر پہلے بھی محفل پر چند روابط دیئے تھے اب دوبارہ ان کو ایک ہی پوسٹ میں لکھ دیتا ہوں:

اگر آپ کی انگریزی اچھی ہے تو اس ویبسائٹ سے کافی مدد مل سکتی ہے:
A Desertful of Roses

نظم طباطبائی کی شرح تصویری شکل میں موجود ہے۔ ربط

مولانا حالی کی یادگارِ غالب۔ اگرچہ یہ مکمل شرح نہیں ہے لیکن اس میں کچھ غزلوں پر حالی کے خیالات درج ہیں۔

ہدیہ سعید از ڈاکٹر قاضی سعید الدین احمد

مولوی عبد الباری آسی کی نایاب شرح


 
Top