غالب کی زمین میں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غالب کی زمین میں
بحر:
متقارب مثمن سالم​
افاعیل:
فعولن ؛ فعولن ؛ فعولن ؛ فعولن​
تقطیع:
اگر مے ؛ مگر مے ؛ کر دے ؛ کتے ہے​
تجی سے ؛ تجی تک ؛ ارم دے ؛ کتے ہے​
ادر سے ؛ ادر تک ؛ جدر بی ؛ ہُ آئی​
و فا کا ؛ ہِ نقشے ؛ قدم دے ؛ کتے ہے​
طبیعت ؛ شگفتہ ؛ و افسر ؛ دَ بی ہے​
غریبو ؛ کَ قا ئم ؛ برم دے ؛ کتے ہے​
محبت ؛ ہِ کیسی ؛ عجب اک ؛ نشہ ہے​
خیالو ؛ مِ خابو ؛ مِ تم دے ؛ کتے ہے​
مچل سک ؛ تِ ہے یہ ؛ طبیعت ؛ کبی بی​
کہ ہر جا ؛ تمی کو ؛ صنم دے ؛ کتے ہے​
اشعار:
اگر میں مگر میں کرم دیکھتے ہیں​
تجھی سے تجھی تک ارم دیکھتے ہیں​
اِدھر سے اُدھر تک، جدھر بھی ہو آئیں​
وفا کا ہی نقشِ قدم دیکھتے ہیں​
طبیعت شگفتہ و افسردہ بھی ہے​
غریبو ں کا قائم بھرم دیکھتے ہیں​
محبت یہ کیسی، عجب ایک نشہ ہے​
خیالوں میں خوابوں میں تم دیکھتے ہیں​
مچل سکتی ہے یہ طبیعت کبھی بھی​
کہ ہر جاء تمہی کو صنم دیکھتے ہیں​
 

الف عین

لائبریرین
اوزان تو خطا نہیں ہو رہے، مگر اس شعر میں
محبت یہ کیسی، عجب ایک نشہ ہے​
خیالوں میں خوابوں میں تم دیکھتے ہیں​
یہاں تُم قافیہ نہیں آ سکتا، اس کے علاوہ پہلے مصرع میں ’اک‘ کا محل ہے، طویل ایک کا نہیں۔ باقی بعد میں دیکھتا ہوں​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک سوال پوچھنے کی گستاخی کر رہا ہوں، امید ہے آپ در گزر فرمائیں گے۔
مگر غالب نے تو ہم اور کم کے قافیے استعمال کیے ہیں، پھر تم کا کیا چکر ہے۔
یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک سوال پوچھنے کی گستاخی کر رہا ہوں، امید ہے آپ در گزر فرمائیں گے۔
مگر غالب نے تو ہم اور کم کے قافیے استعمال کیے ہیں، پھر تم کا کیا چکر ہے۔
یہ سمجھ میں نہیں آیا۔

ہم اور کم میں قافیہ اَم ہے یعنی میم سے پہلے زبر کی آواز ہے، اس کے ساتھ قافیے صنم، جنم، قدم، بھرم، سَم، دَم، کرم، ارم، نم، بم سب آ سکتے ہیں۔

تُم میں میم سے پہلے پیش کی آواز ہے سو قافیہ بدل گیا اور اُم ہو گیا اس لیے ہم اور کم کے ساتھ تم قافیہ غلط ہے۔ تُم کے ساتھ دُم تو آ سکتا ہے دَم نہیں، غور کیجیے :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک تبدیلی کی ہیں۔

اگر میں مگر میں کرم دیکھتے ہیں
تجھی سے تجھی تک ارم دیکھتے ہیں
اِدھر سے اُدھر تک، جدھر بھی ہو آئیں
وفا کا ہی نقشِ قدم دیکھتے ہیں
طبیعت شگفتہ و افسردہ بھی ہے
غریبو ں کا قائم بھرم دیکھتے ہیں
محبت یہ کیسی ہے تصویرِ غم ہے
دل و جاں الم ہی الم دیکھتے ہیں
مچل سکتی ہے یہ طبیعت کبھی بھی
کہ ہر جاء تمہی کو صنم دیکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
قوافی تو درست ہو گئے ہیں، اب دوسری باتیں۔
پہلی تو یہ کہ ابلاغ کی کمی ہے، خاص کر مطلع میں ہی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہنا چاہتے ہو۔
دوسرے
ادھر سے اُدھر تک، جدھر بھی ہو آئیں
میں ’ہُ آئیں‘ تقطیع ہوتا ہے، جو ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بجائے یوں کہیں تو کیا حرج ہے
ادھر سے اُدھر تک، جدھر بھی چلے جائیں
اور
طبیعت شگفتہ و افسردہ بھی ہے
میں ’شگفتاؤ‘ تلفظ کی تقطیع ہو رہی ہے۔ بر وزن فعولن۔ ’شگفتہ و‘ کا درست وزن ’مفاعلن‘ ہوتا ہے۔
طبیعت شگفتہ بھی، غمگین بھی ہے
کر دوم یہ ’غمگین‘ معلنہ نون کے ساتھ ہے، غنہ کے ساتھ نہیں، اگر جمیل نستعلیق میں نظر آ رہا ہے تو فانٹ کی غلطی ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
قوافی تو درست ہو گئے ہیں، اب دوسری باتیں۔
پہلی تو یہ کہ ابلاغ کی کمی ہے، خاص کر مطلع میں ہی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہنا چاہتے ہو۔
دوسرے
ادھر سے اُدھر تک، جدھر بھی ہو آئیں
میں ’ہُ آئیں‘ تقطیع ہوتا ہے، جو ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بجائے یوں کہیں تو کیا حرج ہے
ادھر سے اُدھر تک، جدھر بھی چلے جائیں
اور
طبیعت شگفتہ و افسردہ بھی ہے
میں ’شگفتاؤ‘ تلفظ کی تقطیع ہو رہی ہے۔ بر وزن فعولن۔ ’شگفتہ و‘ کا درست وزن ’مفاعلن‘ ہوتا ہے۔
طبیعت شگفتہ بھی، غمگین بھی ہے
کر دوم یہ ’غمگین‘ معلنہ نون کے ساتھ ہے، غنہ کے ساتھ نہیں، اگر جمیل نستعلیق میں نظر آ رہا ہے تو فانٹ کی غلطی ہے۔


اس پہ کوشش کرتا ہوں مزید، اگر کچھ بات بن گئی تو ٹھیک ورنہ اس کو پھر کسی اور مناسب وقت کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کچھ مزید مشورے

اِدھر سے اُدھر تک، جدھر بھی ہو آئیں
وفا کا ہی نقشِ قدم دیکھتے ہیں
//’ہ’آئیںُ بجائے ہو آئیں اچھا نہیں لگتا۔ ادھر ادھر سے بہتر یہاں وہاں ہو سکتا ہے۔
یہاں سے وہاں تک جہاں تک بھی دیکھیں

طبیعت شگفتہ و افسردہ بھی ہے
غریبو ں کا قائم بھرم دیکھتے ہیں
//’شگفتاؤ‘ تقطیع ہوتا ہے جو غلط ہے۔
بظاہر شگفتہ بباطن فسردہ
سے واضح ہو جاتا ہے؟

محبت یہ کیسی، عجب ایک نشہ ہے
خیالوں میں خوابوں میں تم دیکھتے ہیں
’تم دیکھتے ہیں‘ سمجھ میں نہیں آیا۔

مچل سکتی ہے یہ طبیعت کبھی بھی
کہ ہر جاء تمہی کو صنم دیکھتے ہیں
// پہلا مسرع بہتر ہو گا۔
طبیعت ہے ایسی، کبھی بھی مچل جائے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جناب جو ہے وہ مشکل ہے اور جو نہیں ہے وہ آسان ہے۔ یقین نہ آوے تو خود ہی آزما کر دیکھ لو ’’ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘‘ ;)

جناب میں نے اس زمین میں ایک غزل کہی تھی،
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اقبال-کی-زمین-میں.52086/
یہ آسان لگی مجھ کو۔
غالب کے تو قافیہ ہی نہیں ملتے۔
 
سیدہ سارہ غزل صاحبہ نے اس قافیہ پے ایک غزل پابند بحور میں پوسٹ کی ہے. اسے بھی دیکھلو. تھوڑا اسان ہوجائے شاید.
بعض اوقات قافیہ ملتا نہیں لگانا پڑتا ہے.
 
کچھ مزید مشورے

اِدھر سے اُدھر تک، جدھر بھی ہو آئیں
وفا کا ہی نقشِ قدم دیکھتے ہیں
//’ہ’آئیںُ بجائے ہو آئیں اچھا نہیں لگتا۔ ادھر ادھر سے بہتر یہاں وہاں ہو سکتا ہے۔
یہاں سے وہاں تک جہاں تک بھی دیکھیں

طبیعت شگفتہ و افسردہ بھی ہے
غریبو ں کا قائم بھرم دیکھتے ہیں
//’شگفتاؤ‘ تقطیع ہوتا ہے جو غلط ہے۔
بظاہر شگفتہ بباطن فسردہ
سے واضح ہو جاتا ہے؟

محبت یہ کیسی، عجب ایک نشہ ہے
خیالوں میں خوابوں میں تم دیکھتے ہیں
’تم دیکھتے ہیں‘ سمجھ میں نہیں آیا۔

مچل سکتی ہے یہ طبیعت کبھی بھی
کہ ہر جاء تمہی کو صنم دیکھتے ہیں
// پہلا مسرع بہتر ہو گا۔
طبیعت ہے ایسی، کبھی بھی مچل جائے

طبیعت ہے ایسی, کبھی بھی مچل جائے

کیا یہ مصرعہ فعولن چار بار ہے ؟
 
Top