غالب اور ماریشس

رضوان

محفلین
غالب اور ماریشس
(رضاعلی عابدی کے سفر نامہ ماریشس “جہازی بھائی“ سے اقتباس)
کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ماریشس سے میرزا غالب کا کیا رشتہ ہے؟
جزیرے کے صدر قاسم التیم صبح اپنی تقریر میں یہ سوال کرکے چلے گئے۔ اس کے بعد دن بھر غالب کا ذکر رہا لیکن اس سوال کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔
غالب کی 125ویں برسی کے موقع پر اس مجلسِ مذاکرہ کا اہتمام وہیں مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں کیا گیا تھا۔ ہم پہنچے تو بیشتر مہمان آچکے تھے۔ چائے سے تواضع ہو رہی تھی اور ایک اچھی بات یہ تھی کہ لوگ بَن سنور کر، اہتمام کر کے آئے تھے۔ وہاں پہلی بار ماریشس کے اردوداں طبقے سے ملاقات ہوئی۔ ہر ایک گرم جوشی سے ملا ہر ایک سے گفتگو ہوئی اور یہ سیدھے سادے لوگ اچھے لگے۔
اس دن محکمہ تعلیم نے اردو کے تمام طالب علموں اور استادوں کو چھٹی دے دی تھی۔مقصد یہ تھا کہ وہ سب غالب سیمینار میں شریک ہوں۔ چنانچہ ادھیڑ عمر اساتذہ سے لے کر نوخیز لڑکے لڑکیوں تک مجمع میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے۔ عمائدینِ شہر بھی تھے۔ صنعت کار، تاجر اور بینکار بھی تھے۔ کچھ علمائے دین نظر آئے۔ کچھ مختلف وزارتوں کے حکام نظر آئے۔ جس کا اردو سے ذرا سا بھی تعلق تھا وہ آیا تھا۔ آیا نہ آیا، سفارت خانہ پاکستان کا عملہ ہی نہ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتظمین نے مجھ سے کہا تھا کہ غالب کی مقبولیت میں میڈیا کے کردار پر تقریر کروں۔ میں ہلکا پھلکا سا مقالہ لکھ کر لے گیا جس میں کہا گیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ غالب ہوں یا میر، سودا ہوں یا اقبال ان کے متعلق ساری کتابیں اہلِ علم لکھتے ہیں اور اہلِ علم ہی پڑھتے ہیں کبھی کسی کو خیال نہیں آیا کہ جن عوام سے میر گفتگو کرتے تھے کوئی ان کے لیے بھی میر کی زندگی پر سہل سی کتاب لکھ دے اور جن گانے والوں کے لیے غالب کو آسان زبان میں غزلیں لکھنی پڑیں تھیں۔ کوئی ان کے لیے بھی غالب کی شاعری پر آسان زبان میں کتاب لکھ دے۔
میں نے کہا کہ بالآخر یہ کام میڈیا کو انجام دینا پڑا۔
میں نے کہا کہ غالب کی زندگی پر فیچر فلمیں اور ٹیلی ویژن کے سیریل نہ بنے ہوتے تو عام لوگوں کے لیے غالب کبھی کے مر گئے ہوتے اور یہ کہ سڑک چلتے لوگ غالب کے وہی شعر گنگناتے ہیں جو ثریا اور طلعت محمود نے گائے تھے اور گفتگو میں لوگ غالب کے وہی شعر دہراتے ہیں جو ٹی وی سیریل میں نصیرالدین شاہ نے پڑھے تھے۔
میں نے کہا کہ اخباروں میں غالب پر جو مضمون چھپتے ہیں اور ریڈیو اور ٹیلیویژن پر غالب کے متعلق جو گفتگو ہوتی ہے وہی ہمارے آنگن اور دالان میں ‌سنی جاتی ہے اور غالب کی صدسالہ تقریبات پر ڈاکٹروں اور پروفیسروں نے کیا کہا تھا، وہ تو کسی کو خبر نہیں لیکن لندن میں یوسف خان عرف دلیپ کمار نے جو کچھ بھی کہا تھا، بی بی سی کی نشریات کے ذریعے وہ گھر گھر پہنچا تھا۔
اس کے بعد سیمینار میں ساری گفتگو میرے مقالے پر ہوئی۔
آخر سوال و جواب کا مرحلہ آ گیا اور سامعین کے اتنے بڑے مجمعے کو دعوت دی گئی کہ وہ مقررین سے سوال پوچھے۔ ہال میں سناٹا چھا گیا۔
آخر میں اٹھا اور کہا کہ آپ کے صدرِمملکت صبح ایک سوال پوچھ رہے تھے کہ غالب اور ماریشس میں کیا تعلق ہے، لیجیے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ یہ بات سنی تو اہلِ جلسہ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ میں نے کہا کہ 1820 کے لگ بھگ کلکتے میں اردو کتابیں چھپنی شروع ہوگئیں تھیں۔ اس کے 32 سال بعد جب بہار اور یوپی کے لوگ ماریشس کے لیے بھرتی کیے جانے لگے اور جہازوں میں بیٹھنے کے لیے انہیں کلکتہ پہنچایا جانے لگا تو پانچ سال کے وعدے پر اتنی دور جانے سے پہلے پڑھے لکھےلوگ کلکتے کے بازاروں میں جاکر ایک دو کتابیں ضرور خریدتے ہوں گے۔ اور ظاہر ہے ان میں ایک نسخہ قرآن کا ہوتا ہوگا اور چونکہ کلکتہ کا چھپا ہوا دیوانِ میر بہت وزنی تھا اس لیے بہت ممکن ہے کہ ان کے مال و اسباب میں دوسرا نسخہ دیوانِ غالب کا ہوتا ہوگا۔ سنا ہے کہ ان میں کچھ لوگ شاعر تھے اور کچھ گلوکار بھی تھے اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ دیوانِ غالب ان ہی دنوں ماریشس میں پہنچ گیا ہو گا۔
میں نے کہا کہ جب غالب خود کلکتے گئے اور وہاں دخانی جہاز چلتے دیکھ کر اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ اپنے فارسی اشعار میں ان کا ذکر کیا تو ممکن ہے کہ ان جہازوں پر انہیں اتنا پیار اس لیے آیا ہو کہ ان پر لادے جانے والے مال اسباب میں انہوں نے اپنا دیوان بھی دیکھا ہوگا۔
میں نے کہا کہ بریصغیر میں ان دو کتابوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک زمانے میں تاج کمپنی بس یہی دو کتابیں چھاپتی تھی۔ چنانچہ اردو ادب و شاعری کا اس جزیرہ میں پہلا بیج دیوانِ غالب کی شکل میں پڑا ہو اور اگر یہ سچ ہے کہ پہلا عشرہ محرم 1860 میں منایا گیا تو کیا عجب کہ یہاں‌انیس و دبیر کے مرثیوں کی بیاضیں بھی پہنچ گئی ہوں گی۔
 
Top