عیدی شب برات از اسمٰعیل میرٹھی

ش

شہزاد احمد

مہمان
نظم میں سے چند اشعار
جو زور و شور تھا سو حقیقت میں کھیل تھا
جب ہو چکا تمام یہ سرمایہء حیات
دکھلا کے اپنا رنگ فنا ہو گئے تمام
عقل و قیاس و فکر و خیال و توہمات
ہے اصلِ نور و نار فقط ذاتِ بے نشاں
دھوکا نگاہ کا ہے قیودِ تعینات
مستور ہے ظہور میں ظاہر بطون میں
بے رنگ و بے نشان ہے بے کیف و بے جہات
شانیں جدا جدا ہیں تجلی تو ایک ہے
کعبہ ہو ہردوار ہو یا دیرِ سومنات
عیدی ہو یا قصیدہ، رباعی ہو یا غزل
معنی میں مشترک ہیں بکثرت ہیں گو لغات
 
Top