عکسِ روشن

الف عین

لائبریرین
عکسِ روشن
نام کتاب عکسِ روشن
مصنٓف اسحٰق انور
ناشر اخبار اڑیسہ پبلی کیشنز، دیون بازار، کٹک 753001، اڑیسہ
مبصّر اعجاز عبید

اڑیسہ ریاست اگر چہ اردو کے حساب سے گوشۂ گم نامی میں پڑی ہے۔ لیکن اردو والے چاہے کتنی ہی کم تعداد میں ہوں، ان میں ضرور کچھ لوگوں میں ادبی ذوق پایا جاتا ہے۔ اردو میں نعت گوئ کی روایت بھی برسوں پرانی ہے اور اسی روایت کا ثبوت زیر نظر مجموعہ ہے۔ اسحٰق انور نے اگرچہ شاعری کافی عمر گزرنے کے بعد شروع کی ہے لیکن اس مجموعے سے کافی کہنہ مشقی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر نے کلاسیکی ادب کا غائر مطالعہ کیا ہے۔ اور بطور خاص نعت گوئ سے ان کا شغف نہ صرف ان کے حبِّ رسول کی روشن مثال ہے بلکہ اس کتاب میں شامل مضامین سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اردو ادب میں قوالی گائیکی کے راستے سے وارد ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مشہور نعتوں کو اپنی نوا دیتے دیتے انھیں خیال آیا کہ وہ اپنے ہی الفاظ کو بھی نوا دے سکتے ہیں۔ کلام کی پاکیزگی کا ثبوت ان کے وہ اشعار بخوبی دیتے ہیں جو کتاب کے شروع میں دئے گئے ہیں:
لگا رکھا ہے میں نے ان کی یادوں کا شجر دل میں
سکوں کی چھاؤں میں محفوظ میرے گھر کا آنگن ہے
چمکتا ہے اجالوں سے نواح جاں کا ہر گوشہ
کہ میرے دل کے شیشے میں انہیں کا عکسِ روشن ہے
مجموعے کا پیش لفظ علامہ عبد المجید فیضی سمبل پوری کا تحریر کردہ ہے اور ایک اور مضمون اسحٰق انور کے استاد سعید رحمانی نے لکھا ہے۔ ایک تحریر ’میں اور میری شاعری‘ خود شاعر کا بیان ہے۔ مجموعے میں 61 نعتیں ہیں اور ہر نعت کا عنوان اسی کے کسی مصرعے سے دیا گیا ہے جس کی اگر چہ ضرورت نہیں تھی کہ یہ محض اردو اخباروں میں چھپنے والی غزلوں کا اندازِ پیشکش ہے۔ ایک بات اور ان کی نعتوں کو نمایاں بناتی ہے وہ ہے کچھ نعتوں میں ردیف میں ایک ہی لفظ کا دہرایا جانا۔ جیسے ’دھیرے دھیرے‘ ’پاکیزہ پاکیزہ‘ ردیف والی نعتیں، یا وہ نعت جس کے قوافی ہیں نورانی نورانی، پریشانی پریشانی۔ ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے قوّالی میں بہتر طور پر پیشکش کی وجہ سے اس قسم کے الفاظ کو ردیف و قوافی بنانے کی کوشش کی ہے۔
نمونے کے لئے کچھ اشعار پیش ہیں:
جس نور سے روشن ہے کونین کا ہر گوشہ
اس نور کی ہر دم ہے برسات مدینے میں

کر کے وضو ہم اشکوں سے پڑھتے ہوئے درود
اللہ کے حبیب کی مدحت کریں گے ہم

دنیا کا ہے سب سے اول گھر یہ کعبۂ اقدس سچ ہے مگر
کعبے کی عمدہ انگوٹھی کا طیبہ میں نگینہ دیکھیں گے

اجل تو ملنا ہمیں آ کے اب مدینے میں
قسم خدا کی ترا انتطار دیکھیں گے

آخری شعر میں انتظار دیکھنا کے غیر فصیح محاورے کے باوجود شعر جذبہ و فکر کے لحاظ سے عمدہ ہے۔
مصنف نے اپنے قلم سے کتابت کی کئ غلطیوں کی تصحیح کی ہے، بلکہ اصلاح بھی کہ کئ الفاظ بدل دئے ہیں۔ اس کے باوجود زبان و بیان اور عروض کی کچھ غلطیاں باقی رہ گئ ہیں۔
کافر تھا بو جہل کہ وہ کافر ہی رہ گیا
کنکر نے پھر بھی پڑھ لیا کلمہ رسول کا
میں بو جہل اور کلمہ کے تلفظ صحیح نہیں ہیں۔
اسی طرح اس مصرعے میں تعالیٰ کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے:
بفضلِ تعالیٰ نبی کا مزار دیکھیں گے
’کوئ میرے سرکار سا ذیشان نہیں ہے‘ والی نعت میں یہ دو مصرعے مختلف بحر میں ہیں:
فرمانِ مصطفیٰ پہ عمل جو نہیں کرتا
اور
دوزخ میں اس کے جلنے کا امکان نہیں ہے
ان اسقام کے باوجود شاعر کے جذبات قابلِ تعریف ہیں اور یہ حب رسول ہر شعر میں نمایاں ہے۔ یہ کتاب بطور خاص میلاد کی مجلسوں کے لئے بہترین تحفہ ہے۔
104 صفحات کی اس کتاب کی قیمت چالیس روپئے بہت مناسب بلکہ کم ہے۔
 
Top