عورت پر ہلکا سا تشدد

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ میں کیا کہوں گی ، سوشل میڈیا پر لوگوں نے مولانا شیرانی صاحب کے فتوے پر مذاق بھی اُڑایا ،طرح طرح کی باتیں کی، کچھ لوگوں نے ثبوت کے طور پر قرآن کی آیا ت بمعہ ترجمعہ پیش کیں جن کی رو سے عورت کو مارنا جائز ہے۔
میں یہاں مذہب کی بات نہیں کروں گی کیونکہ اپنے مفاد کی خاطر، اپنی کیے گئے کام کو جائز قرار دینے کے لئے قرآن اور حدیث کا حوالہ دینے والا ہر شخص یہاں موجو د ہے، جب ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہو،اپنے آپ کو سچ ثابت کرنا ہو تو قرآن آگے کر دیتے ہیں،
میں یہاں معاشرے کی بات کرتی ہوں ، پچھلے دنوں جب یہ قانون پاس ہوا کہ اگر مرد عورت پر ظلم کرے تو وہ پولیس سٹیشن جائے رپورٹ درج کروائے خاوند دو چار دن جیل کی ہوا کھا کر باہر آئے گا تو خود بخود ہی عقل ٹھکانے لگ جائے گی۔ مردوں کو تشویش ہوئی، جواب یہ آئے کہ بھئی اگر دو چار دن جیل کی ہوا کھا کر با ہر آئے گا تو بیوی کو گھر نہیں رہنے دے گا بلکہ طلاق دے کر چلتا کرے گا۔ تو صاحب جب یہ فارمولا آپ کے لئے ٹھیک ہے تو عورت کی بھی کوئی عزت نفس ہے کہ نہیں ؟ عورت کے درجات میں بھی انسان ہونا شامل ہے ؟
مگر نہیں صاحب ایسا نہیں ہے ، آپ ماریں پیٹیں گے تب بھی آپ کی عورت آپ کے ساتھ ہی رہے گی۔ میں اکثر ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کا شوہر انہیں مارتا پیٹتا ہے ۔ میری امی کے یہاں ایک کام کرنے والی کی ہی بات بتا دیتی ہوں ، کہا کرتی تھی کہ باجی میں اس لئے نہیں آئی کہ میرے شوہر نے مجھے بہت مارا تھا جگہ جگہ نیل کے نشان پڑے تھے ، میں کام کرنے آتی تو لوگ پوچھتے یہ کیا ہوا ہے ؟ میں کس کس کو کیا کیا بتاؤں ؟

میں نے بڑے تلخی اور بے رحمی سے اسے
کہا چھوڑ کیوں نہیں دیتی تم ایسے گھٹیا انسا ن کو جو تم پر ہاتھ اٹھاتا ؟
جواب ملا : نا باجی میرے سر کا سائیں ہے ، محبت بھی کرتا ہے۔ بس غصے کا تیز ہے ہاتھ اٹھ جاتا ہے ،
تو میری امی نے مجھے بتایا کہ نا صرف مارتا ہے بلکہ کوئی کام بھی نہیں کرتا ، گھر کا خرچہ تو اس کے پیسوں سے چلتا ہے۔ چرس پیتا ہے ساری ساری رات غائب رہتا ہے۔

تو صاحب کوئی میرے سوال کا جواب بھی ہو کسی کے پاس ؟ ایسے گھٹیا لوگوں کے لئے کیا کہنا ہے ؟ بیوی کو نہیں چاہئے کہ تھوک کر چلی جائے ؟
نہیں نہیں بیوی تو بیوی ہوتی ہے اسے اپنی اوقات میں رہنا چاہیے اسے ایسا کچھ کرنے کا اختیار نہیں۔
میری ایک کولیگ میرے ساتھ پڑھایا کرتی تھیں، قریب اڑتیس سال ان کی عمر تھی۔ بائیس سال کی عمر میں ایک بندے سے پسند کی شادی کر لی تھی انہوں نے۔ ایک دن پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں جب میں نے ان کی آنکھ کے نیچے نشان کے بارے میں پوچھا ۔ کہنے لگی ناعمہ زندگی میں ایک ہی غلطی کی تھی اپنی پسند کی شادی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہوں۔
میں نے پوچھا آپ نے چھوڑا کیوں نہیں ؟ کہنے لگیں میں آج بھی اس سے محبت کرتی ہوں نہیں چھوڑ سکتی۔ میں انکی بات سن کر دنگ رہ گئی کہ محبت کے لیے عزت نفس کو مجروح کر رہی ہیں اتنے سالوں سے!!! پر کیوں !!!
کچھ ہوتی ہیں چھوڑ بھی دیتی ہیں ۔ معاشرہ ایسی عورتوں کو کم ہی جینے دیتا ہے ۔ عورت کے پاس آپشن بہت کم ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اس بات کا ناجائز فائد ہ اٹھائیں۔
ارے صاحب جب ایک ساتھ جینے کی ٹھانی ہے تو برداشت کرنا صرف بیوی کا کام ہی نہیں ہے۔ گالم گلوچ مار دھاڑ سے بیوی سدھرتی نہیں ہے ، اس کی نظر میں اپنے مرد کی عزت ختم ہو جاتی ہے۔
شادی سے پہلے کی زندگی کی تمام عادات و اطوار کو بدلنے میں وقت لگتا ہے۔ عورت تو پھر بھی سمجھوتا کر لیتی ہے کہ اسے ساری زندگی سبق ہی یہ دیا جاتا ہے کہ تمھیں ہی برداشت کرنا ہے۔ مردوں کی تربیت بھی اسی طرح ہونی چاہئے۔ میں قرآن کے احکامات پر سوال نہیں اٹھاتی مگر ہمارے ان ہی رویوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہے۔ آپ گھر میں اپنی بیوی کو مار کر اپنے بیٹے کو یہ سبق اور تربیت دیتے ہیں کہ ماں کی کوئی عزت نہیں اور بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھنا پھر یہی آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
اور یہ لازمی نہیں کہ عورت کو مارنے کا فتوی لگا ہے ، یا اسلام میں احکامات ہیں ، عورت کو تو بلاوجہ بھی مارا پیٹا جاتا ہے، بیٹی جنم دینے پر، کسی اور کا غصہ بیوی پر اتارنے کے لئے، بیوی کے سوالات سے تنگ آ کر۔۔ اور کئی وجوہات ہیں
ابھی کچھ ہی دن پہلے میں اپنے میاں کے ایک دوست سے ملی قریب چالیس برس کے تو ہوں گے ۔ نہایت با اخلاق اور خوش گفتا ر شخص تھے۔ ان کی بیگم بھی ہو بہو ان کی کاپی۔ ہم لوگ جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے ان کی گفتگو پلٹ پلٹ کر انکی بیگم کی طرف آ جاتی ، نہایت محبت سے بتاتے کہ ماشااللہ یہ بہت ٹیلینٹد ہیں ، گاڑی خود ہی ٹھیک کر لیتی ہیں ، لوگوں سے ڈیل کرنے میں تو بالکل پیچھے ہوں مگر یہ ہر طرح کے لوگو ں کے لوگوں سے ڈیل کر لیتی ہیں۔ میں نے ان تین چار دنوں میں کئی بار ان کے بارے میں سوچا ۔ وہ کوئی نوجوان عاشق نہیں تھے ان کے بچے جوان تھے ۔ مجھے رشک آیا بے انتہا رشک اور خوشی ہوتی ہے ایسے لوگوں سے مل کر جو اپنی بیوی کو سراہتے ہیں ، انہیں اعتماد کی دولت سے نوازتے ہیں، اسے کچھ سمجھتے ہیں ۔اسے موٹیویٹ کرتےہیں۔ دیکھیے صاحب آپ سراہئے، کیونکہ اس کی دنیا تو آپ سے شروع ہوتی ہے آپ پر ختم ہو جاتی ہے ۔ آپ تو دنیا جہانں سے ملتے ہیں ۔چند گھڑیاں اس کے پاس بیٹھ کر کچھ باتیں کر لیجیے ، امجد اسلام امجد کہتے ہیں کہ ،
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
تو ہر روز ہلکا سا ڈوز دے دیجیے، کہہ دیجیے کہ دنیا میں اس سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ، کہیں گھمانے کے جائیے۔ ارے صاحب عورت تو پیار کی بھوکی ہے آپ ذرا سا دیں گے بدلے میں ڈھیر سارا پا لیں گے۔ تو صاحب ذرا غور کیجیے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت خوب!
آپ کی تحاریر تو آج کل خوب رواں ہیں۔ :)
عثمان بھائی میرے تحریر یں لکھنے میں آپ ہی کا قصور ہے شروع شروع میں جب میں لکھا کرتی تھی تو آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ کہا کرتے تھے کہ اور لکھو اور لکھو ہی ہی ہی
 

عثمان

محفلین
عثمان بھائی میرے تحریر یں لکھنے میں آپ ہی کا قصور ہے شروع شروع میں جب میں لکھا کرتی تھی تو آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ کہا کرتے تھے کہ اور لکھو اور لکھو ہی ہی ہی
اردو نیٹ پر ایسے لکھاریوں کی تعداد کم ہی ہے جو میچور مضامین پر معیاری لکھتے ہیں۔ اور پھر خواتین تو اس معاملے میں مزید کم ہیں۔ ایسے میں آپ کی تحاریر بہت اچھا اضافہ ہیں۔ :)
آپ محفل میں باقاعدہ لکھتی رہا کریں۔ اپنے گذشتہ تحاریر کو دیکھیے کہ کیسے ان دھاگوں نے محفل میں مفصل مکالمہ کو جنم دیا۔ :)
 

آوازِ دوست

محفلین
میں نے بھی بیگم سے کہا تھاکہ نیک بخت آخر حکومتِ وقت کو ہمارا خیال آ ہی گیا اب تک تو میں تمہیں کبھی ڈھنگ سے ڈانٹ بھی نہیں سکا پر اب تو عظیم سہولت ملنے والی ہے بس جس دن قانون پاس ہو جائے مجھے فوراٌ بتا دینا نہ جانے کیوں طبیعیت بے چین ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے۔ مگر افسوس مجھے فی الفور کمر پر ایک دھموکا سہنا پڑا اس اعلان کی شنوائی کے ساتھ کہ ایسے قانون کی ایسی کی تیسی۔ تو صاحب تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ قانون پاس ہونے تک اس سہولت سے محروم ہیں وہ لگتا ہے کہ بعد میں بھی کوئی تیر نہ مار سکیں گے :)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اردو نیٹ پر ایسے لکھاریوں کی تعداد کم ہی ہے جو میچور مضامین پر معیاری لکھتے ہیں۔ اور پھر خواتین تو اس معاملے میں مزید کم ہیں۔ ایسے میں آپ کی تحاریر بہت اچھا اضافہ ہیں۔ :)
آپ محفل میں باقاعدہ لکھتی رہا کریں۔ اپنے گذشتہ تحاریر کو دیکھیے کہ کیسے ان دھاگوں نے محفل میں مفصل مکالمہ کو جنم دیا۔ :)

یہ تو آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں ورنہ میں خود تو اپنے آپ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتی :p
 

ابن عادل

محفلین
سمجھ نہیں آتی کہ محبت اور تشدد اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں۔

ایک بات بہت واضح ہے کہ ہمیں کسی نہ کسی کو تو بڑا بنانا پڑے گا ۔ اور مذہب ہی نہیں عالم انسانیت نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ۔ اب جب ذمہ داری اسے دی گئی تو اختیارات بھی دیے گئے ۔ ان اختیارات کے غلط استعمال کے باعث ہمیں ذمہ داری کو تبدیل کرنے کے بجائے ذمہ دارکو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس وقت انسان کو بگاڑنے کے لیے جس قدر کوشش ہورہی ہے اتنی سدھارنے کیے نہیں ہورہی۔
جہاں تک بات ہےتشدد اور محبت کے ملاپ کی تو ایک عمل ہے اصلاح احوال کے لیے کچھ سزا اور یہ سزا کیسی ہو؟ ہرمعاشرے اور طبقہ ہائے زندگی کا اپنا اصول ہے ہم اس کی حد بندی نہیں کرسکتے ۔ البتہ قرآن نے اس کی بہت مناسب حد بندی کی ہے ۔ بعض اوقات اسی کاروائی کو تشدد بھی کہ دیا جاتا ہے ۔دوم یہ کہ ہمارے معاشرے میں عورت برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ مرد کے زیر سرپرستی رہتی ہے اور زیر سرپرستی رہ کرمحبت کرنا مرد کی بہت سی زیادتیوں اور ناہموار رویوں کو برداشت کرنا اور پھر بھی محبت کرنا ممکن بناتا ہے ۔ میرا خیال ہے ہمارے معاشرے میں گھر کے استحکام میں اس کا بڑا عمل دخل ہے ۔ یہ بات اسی کے مماثل ہے کہ کوئی کمپنی جب ہماری ساری ضروریات کا خیال رکھتی ہو تو ہم اس کی جانب سے تفویض کیے جانے والے بہت سے اضافی امور کو یا تو ہنسی خوشی یا پھر جبر کرکے کرہی دیتے ہیں ۔
ناعمہ عزیز صاحبہ نے عورت کی نمائندگی خوب کی ہے ۔ لیکن معاشرے میں مختلف طبقہ ہائے زندگی کے قریب جاکر مشاہدے سے ان کی رائے میں مزید پختگی آئے گی ۔
 

عثمان

محفلین
ایک بات بہت واضح ہے کہ ہمیں کسی نہ کسی کو تو بڑا بنانا پڑے گا ۔ اور مذہب ہی نہیں عالم انسانیت نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ۔ اب جب ذمہ داری اسے دی گئی تو اختیارات بھی دیے گئے ۔ ان اختیارات کے غلط استعمال کے باعث ہمیں ذمہ داری کو تبدیل کرنے کے بجائے ذمہ دارکو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس وقت انسان کو بگاڑنے کے لیے جس قدر کوشش ہورہی ہے اتنی سدھارنے کیے نہیں ہورہی۔
جہاں تک بات ہےتشدد اور محبت کے ملاپ کی تو ایک عمل ہے اصلاح احوال کے لیے کچھ سزا اور یہ سزا کیسی ہو؟ ہرمعاشرے اور طبقہ ہائے زندگی کا اپنا اصول ہے ہم اس کی حد بندی نہیں کرسکتے ۔ البتہ قرآن نے اس کی بہت مناسب حد بندی کی ہے ۔ بعض اوقات اسی کاروائی کو تشدد بھی کہ دیا جاتا ہے ۔دوم یہ کہ ہمارے معاشرے میں عورت برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ مرد کے زیر سرپرستی رہتی ہے اور زیر سرپرستی رہ کرمحبت کرنا مرد کی بہت سی زیادتیوں اور ناہموار رویوں کو برداشت کرنا اور پھر بھی محبت کرنا ممکن بناتا ہے ۔ میرا خیال ہے ہمارے معاشرے میں گھر کے استحکام میں اس کا بڑا عمل دخل ہے ۔ یہ بات اسی کے مماثل ہے کہ کوئی کمپنی جب ہماری ساری ضروریات کا خیال رکھتی ہو تو ہم اس کی جانب سے تفویض کیے جانے والے بہت سے اضافی امور کو یا تو ہنسی خوشی یا پھر جبر کرکے کرہی دیتے ہیں ۔
ناعمہ عزیز صاحبہ نے عورت کی نمائندگی خوب کی ہے ۔ لیکن معاشرے میں مختلف طبقہ ہائے زندگی کے قریب جاکر مشاہدے سے ان کی رائے میں مزید پختگی آئے گی ۔
جس کمپنی کی مثال آپ نے دی ہے کیا وہ آپ پر جسمانی تشدد کرتی ہے؟
اس تحریر میں عورتوں پر جسمانی تشدد کی بابت بات کی جا رہی ہے۔ فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم کی نہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ گڑیا۔۔۔۔ شاندار۔۔۔
عثمان کی رائے سے بالکل متفق ہوں۔

میں نے بھی بیگم سے کہا تھاکہ نیک بخت آخر حکومتِ وقت کو ہمارا خیال آ ہی گیا اب تک تو میں تمہیں کبھی ڈھنگ سے ڈانٹ بھی نہیں سکا پر اب تو عظیم سہولت ملنے والی ہے بس جس دن قانون پاس ہو جائے مجھے فوراٌ بتا دینا نہ جانے کیوں طبیعیت بے چین ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے۔ مگر افسوس مجھے فی الفور کمر پر ایک دھموکا سہنا پڑا اس اعلان کی شنوائی کے ساتھ کہ ایسے قانون کی ایسی کی تیسی۔ تو صاحب تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ قانون پاس ہونے تک اس سہولت سے محروم ہیں وہ لگتا ہے کہ بعد میں بھی کوئی تیر نہ مار سکیں گے :)
کیا کہہ دیا ظالم۔۔۔ اتنا تلخ سچ۔۔۔۔
 
میں نے بھی بیگم سے کہا تھاکہ نیک بخت آخر حکومتِ وقت کو ہمارا خیال آ ہی گیا اب تک تو میں تمہیں کبھی ڈھنگ سے ڈانٹ بھی نہیں سکا پر اب تو عظیم سہولت ملنے والی ہے بس جس دن قانون پاس ہو جائے مجھے فوراٌ بتا دینا نہ جانے کیوں طبیعیت بے چین ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے۔ مگر افسوس مجھے فی الفور کمر پر ایک دھموکا سہنا پڑا اس اعلان کی شنوائی کے ساتھ کہ ایسے قانون کی ایسی کی تیسی۔ تو صاحب تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ قانون پاس ہونے تک اس سہولت سے محروم ہیں وہ لگتا ہے کہ بعد میں بھی کوئی تیر نہ مار سکیں گے :)
یہ واقعہ تو مری داستاں سے ملتا ہے :mrgreen::moneymouth:
 

ابن عادل

محفلین
جس کمپنی کی مثال آپ نے دی ہے کیا وہ آپ پر جسمانی تشدد کرتی ہے؟
اس تحریر میں عورتوں پر جسمانی تشدد کی بابت بات کی جا رہی ہے۔ فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم کی نہیں۔

توجہ دلانے کا شکریہ ۔۔۔ دراصل انسانی تعلقات میں یہ طے کرنا نہایت دشوار ہے ۔ میں نے محبت بطور سرپرست کہا تھا ۔ آپ اپنی اولاد کے سرپرست ہیں اور محبت بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسے سزا بھی دیتے ہیں ۔ جو ظاہر ہے جسمانی بھی ہوسکتی ہے ۔ اب اسے تشدد کے دائرے میں لانے کے لیے معاشرے کی ہرسطح کے اپنے معیار ہیں ۔جہاں تک بات ہے کمپنی کی تو ظاہر ہے ہمارا اس سے تعلق مختلف نوعیت کا ہے ۔ سو اس کی جانب سے سختی کا طریقہ بھی مختلف ہے ۔
جہاں تک بات ہے ذمہ داریوں کی تقسیم کی تو مقصد یہ ہے کہ ہمارا رویہ صرف کسی مسئلے کی نشاندہی نہ ہو بلکہ اس کا سبب اور حل بھی اپنی دانست میں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تاکہ ہم حل میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں ۔
 

ابن عادل

محفلین
یہ بات بالکل واضح نہیں ہے۔ میاں بیوی میں کسی ایک کو بڑا بنانے کی کوئی ضرورت ہی کیا ہے۔

جہاں دو انسان جمع ہوتے ہیں ، ساتھ رہنے ہیں اور اپنے معاملات نمٹاتے ہیں تو انہیں کسی کو تو ذمہ دار بنانا پڑتا ہے ۔ معاشرہ اسی کا نام ہے ۔ اور معاشرے کی پہلے اکائی گھر ہے ۔ جہاں اس چھوٹی سی مملکت میں معاملات سربراہ کی دانشمندی سے اچھے طریقے سے حل ہوتے ہو تو کیا کہنے ۔۔۔۔! جہاں مسئلے آتے ہیں وہاں فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں ۔
 

عثمان

محفلین
توجہ دلانے کا شکریہ ۔۔۔ دراصل انسانی تعلقات میں یہ طے کرنا نہایت دشوار ہے ۔ میں نے محبت بطور سرپرست کہا تھا ۔ آپ اپنی اولاد کے سرپرست ہیں اور محبت بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسے سزا بھی دیتے ہیں ۔ جو ظاہر ہے جسمانی بھی ہوسکتی ہے ۔ اب اسے تشدد کے دائرے میں لانے کے لیے معاشرے کی ہرسطح کے اپنے معیار ہیں ۔جہاں تک بات ہے کمپنی کی تو ظاہر ہے ہمارا اس سے تعلق مختلف نوعیت کا ہے ۔ سو اس کی جانب سے سختی کا طریقہ بھی مختلف ہے ۔
جہاں تک بات ہے ذمہ داریوں کی تقسیم کی تو مقصد یہ ہے کہ ہمارا رویہ صرف کسی مسئلے کی نشاندہی نہ ہو بلکہ اس کا سبب اور حل بھی اپنی دانست میں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تاکہ ہم حل میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں ۔
نابالغ بچے کی پیٹھ پر چپت لگانا، بالغ عورت پر ایسے تشدد کہ اس کے جسم پر نیل پڑ جائیں کے مماثل نہیں۔
 

ابن عادل

محفلین
جسمانی کیوں ہو سکتی ہے؟

یہ بہت لائق تقلید کیفیت ہوگی کہ جہاں صرف انکھ دکھانے پھر ڈانٹے یا ناراض ہونے معاملات حل ہوجائیں ۔ معاملہ یہ ہے کہ کئی دفعہ معاملہ گوشمالی تک پہنچ جاتا ہے ۔ اب گوشمالی ہرایک کے لیے الگ الگ ہے ۔ میرا خیال ہے یہ بات واضح ہے ۔
 
Top