عورت اور پردہ

کچھ روز قبل ایک مباحثے کے دوران ایک صاحب نے فرمایا کہ مسلم عورت نوکری نہیں کر سکتی کیونکہ اسلام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ گھر سے باہر نکلے یا مردوں سے میل جول رکھے. ان صاحب کا یہ بیان میرے لئے نیا نہیں تھا.
کلکتہ کی ایک اسلامی یونیورسٹی کے طلبا نے ایک خاتون استاد سے پڑھنے سے اسوجہ سے انکار کر دیا کہ وہ خاتون برقع نہیں پہنتی تھیں. عالیہ یونیورسٹی کلکتہ کے طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ تمام خواتین اساتزہ کو برقعہ پہننے کی ہدایت کی جائے اور بصورت دیگر انہیں یونیورسٹی میں پڑھانے کی اجازت نہ دی جائے.¹
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں شریعت نافذ تھی اور اسکے مطابق عورتوں کے لئے خاص قوانین تھے جن میں سے کچھ یہاں بیان کیے جارہے ہیں:
عورتوں کو سکول اور کالجوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی، عورتوں کو مرد کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، عورتوں کو برقع کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، عورتوں کو شوخ رنگ کے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں تھی. حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی عورت نیل پالش بھی لگا لیتی تو اسکی انگلیاں کاٹ دی جاتی تھی کیونکہ طالبان کی شریعت کے مطابق عورت بناؤ سنگھار نہیں کر سکتی تھی. ²
اسی قسم کے قوانین بہت سی دوسری اسلامی تنظیموں (جیسے صومالیہ کی الشباب) کے پوسٹرز پر دیکھے جا سکتے ہیں. یہ تمام تنظیمیں اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہتی ہیں.
ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کے ایسے بہیمانہ قوانین نافذ کیے جایئں؟ ان تمام قوانین کی بنیاد پردہ کے احکام پر مبنی ہے سو بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام میں پردہ کے کیا احکامات ہیں؟اور کیا واقعی اسلام میں عورتوں کےعملی معاشرتی کردار کی کوئی جگه نہیں؟


کچھ لوگ تو پردے کے حق میں دلائل ڈھونڈتے ہوے اس حد تک بے ہودگی پر اتر جاتے ہیں کہ بے ڈھنگ مثالوں کا سہارا لیتے ہیں جیسے کہ یہ پوسٹر جو کچھ دیر سے انٹرنیٹ پر کافی مقبول ہے.

اس آرٹیکل میں ان تمام سوالوں کا قران اور حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیا جائے گا. ملاحظہ ہو:
قرآن میں پردے کے احکامات:
قرآن میں مختلف مقامات پر پردے کے بارے میں احکامات آتے ہیں. ان احکامات کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:
لباس اور تقویٰ - قرآن میں لباس کا ذکر سب سے پہلے ان آیات میں اتا ہے جن میں حضرت آدم اور حضرت حوا کے واقعے کا ذکر ہے. چنانچہ الله فرماتا ہے کہ جب آدم اور حوا کو اپنی عریانی کا احساس ہوا تو انھوں نے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنا شروع کردیا (٢٢: ٧ ). آیت ( ٢٦ : ٧ ) میں الله لباس کو اپنی نعمتوں میں شمار کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ تقویٰ بہترین لباس ہے. اس آیت میں ظاہری لباس کا ذکر تقویٰ کے ساتھ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ظاہری لباس اہم ہے لیکن تقویٰ اہم ترین مقام رکھتا ہے.
قران کی اگلی آیات میں الله لباس اور تقویٰ کے بارے میں اپنے احکام اور وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں. چنانچہ سوره نور میں فرمان ہے کہ
‘ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں’ (٣٠ : ٢٤ )
یہاں ‘نگاہیں نیچی رکھو’ سے مراد بلکل ہی نیچے کی طرف دیکھنا نہیں ہے. اس آیت میں لفظ ‘غدّا’ استعمال کیا گیا ہے جسکا مطلب ہے کہ کسی چیز کو کم کرنا مگر اسطرح کے وہ بلکل ختم نہ ہو جائے. آیات (٣: ٤٩ ) اور (٣١: ١٩ ) میں یہی لفظ ‘غدّا’ آواز کو کم کرنے کے لیا استعمال کیا گیا ہے. سو نگاہیں نیچی کرنے کا مطلب اس طرح دیکھنا کہ آپ ہر چیز کا بغور جایزہ نہ لے رہے ہو. عام فہم میں اسکا مطلب ہے کہ آپ کسی کو فحش طریقے سے مت دیکھو.
‘مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ (٣١ : ٢٤ )
پردہ سے متعلق تمام احکامات میں سب سے اہم حکم اس آیت میں دیا گیا ہے. یہاں مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی نمایش نہ کریں سواے اسکے جو ظاہر ہے. زینت کیا ہے اسکی تفصیل یہاں بیان نہیں کی گئی. مفسر اور علما نے اس ضمن میں بہت سی وضاحتیں پیش کی ہیں. غامدی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ‘زینت’ قدرتی طور پر دی گی کسی بھی چیز کی خوبصورتی کو بڑھا کر پیش کرنا ہے. پچھلے وقتوں کے علما نے بیان کیا ہے کہ ‘سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے’ کا کوئی واحد مطلب نہیں لیا جاسکتا بلکہ اسکا مفہوم زمانہ اور معاشرتی رجحان اور مقام کے لحاظ سے بدل سکتا ہے. لیکن اسکا متفقہ معنی میں بیان کیا گیا ہے کہ جسم کے جو حصّے عام طور پر نظر آتے ہیں یا کپڑوں کا وہ حصّہ جو عام طور پر نظر آتا ہے. کچھ علما نے اسکی تفصیل بیان کی ہے. مصلاً الواحدی اور ابن تمییہ بیان کرتے ہیں کہ ہاته سے لے کر کہنی تک بازو ظاہر کیا جاسکتا ہے. النسبری نے بھی ابن تممیہ اور الواحدی کی تفسیر کی تایید کی ہے. ابن حییان نے تو یہ بھی کہا کہ غریب عورتوں کو اس معاملے میں اور بھی چھوٹ دی جا سکتی ہے.
اس آیت کے آخری حصّے میں حکم دیا گیا ہے کہ ‘اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ یہاں لفظ ‘خمر’ آیا ہے جو ‘خمار’ کی جمع ہے. ‘خمار’ چادر کی طرح کا عربی لباس تھا جو عرب کے مرد اور عورتیں صحرا کی دھوپ سے بچنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے. اسکے علاوہ ‘خمار’ عربی تہذیب اور ثقافت کی علامت بھی تھا. عربی عورتیں اس وقت کے فیشن کے مطابق کھلے گریبانوں والی قمیضیں پہنتی تھیں جس سے انکا سینہ مکمل طور پر ڈھنپا ہوا نہیں ہوتا تھا. غزوہ احد میں جب کفار جنگ کے میدان چھوڑ کر جا رہے تھے تو انکی عورتوں نے اپنے سپاہیوں کو للکارنے کے لئے اپنے سینے عریاں کر دیے. جس طرح جنگوں میں سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جوشیلے نغمے گاے جاتے تھے اسی طرح یہ رجحان بھی کافی عام تھا. ³ یقیناً عورتوں کا سینہ انکی شرمگاہوں میں شامل ہوتا ہے اور جیسا کہ پچھلی آیات میں شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، یہاں وہی حکم دہرایا گیا ہے. اس آیت کو ملا برادری نے عورتوں کے برقع کو فروغ دینے کے لئے بارہا استعمال کیا ہے، لیکن آیت کی حرف با حرف تشریح سے اس بات کی وضاحت ہوگیی ہے کہ یہاں صرف اور صرف شرمگاہوں کی حفاظت اور بے حیائی سے روکا گیا ہے.
ایک اور آیت جو پردے سے مطالق تعلیمات میں اکثر پیش کی جاتی ہے:
‘اے نبی اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں، اور اپنی مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ (جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو) اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں. اس سے بہت جلد انکی پہچان ہوجاے گی اور وہ ستایی نہیں جاییں گی. ‘ (33 : 59 )
یہاں چادر کے لئے لفظ ‘جِلابھیں’ استعمال کیا گیا ہے جو ‘جلباب’ کی جمع ہے. ‘جلباب’ بھی اس وقت کا ایک مقبول لباس جسکی صحیح تعریف یا صورت کسی کو بھی یقینی طور پر معلوم نہیں. قدیم عربی زبان کے ماہرین جیسا کہ ابن المنضور اور جوہری عربی لغت کی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ‘جلباب’ ایک چادر کی طرح کا لباس تھا جسے کپڑوں کے اوپر اوڑھا جا سکتا ہے.
ملا کا پردہ اور اسلامی تعلیمات:
بہت سے اسلامی سکالر اور اسلام کے ‘نیم حکیم’ نے برقع کو مسلم عورت کے لئے فرض قرار دے دیا ہے اور کھلم کھلا برقع کی تبلیغ کرتے ہیں. ان کے لئے نقاب لینا بھی فرائض میں شمار ہے. کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام عورت کا گھر سے نکلنے کی ممانعت کرتا ہے اور اس لئے مسلمان عورتوں کا نوکری کرنا ناجایز ہے. چنانچہ افغانستان میں عورتوں کی سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے یا پڑھانے کی اجازت نہیں تھی، سعودی عرب میں کئی سالوں سے عورتوں کے آفس اور مارکیٹوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، نہ ہی انہیں گاڑی چلانے کی اجازت تھی. حال ہی میں سعودی حکومت نے عورتوں کو مارکیٹوں اور شاپنگ مال میں کشیر کی ملازمتیں دینا شروع کی تو کی نامور سعودی علما نے اسکے خلاف بیانات دیے اور کہا کہ عورت کا گھر سے نکلنا اور نوکری کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے. اس ضمن میں یہ علما جس آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیّت کے زمانہ کے بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو…٣٣ :٣٣
یہ علما اس بات کو دیکھنے سے قاصر ہیں کہ یہ آیات خاص حضرت محمّد کی بیویوں کے لئے تھیں . یقیناً قاریین کے ذھن میں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا مسلمان عورتوں کے لئے لازم نہیں ہے کے وہ جتنا ہوسکے ام المومنین کی پیروی کریں؟ اس سوال کے جواب کے لئے سوره احزاب کی آیات نمبر ٣٢ پڑھیے جسمیں خود الله فرماتا ہے کہ یہ حکم صرف حضور کی بیویوں کے لئے ہے کیونکہ وہ عام عورتیں نہیں ہیں. اسی لئے انکے لئے احکامات بھی خاص ہیں.
اسکے علاوہ الله خود قران میں عورتوں کے کام کرنے اور کمانے کا ذکر کرتا ہے. چنانچہ الله فرماتا ہے :

مردوں کا حصّہ اس میں سے ہے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کا حصّہ اس میں سے جو انھوں نے کمایا …٣٢:٤

سعودی عرب میں اور طالبان کی شریعت میں عورتوں کے لئے سر سے پیر تک کا پردہ اور چہرے کا نقاب فرض ہے اور جو عورتیں برقع اور نقاب نہ لیں انکے لئے کوڑوں کی سزا ہے. کوئی بھی ایسا شخص جسنے قران کو خود پڑھا اور سمجھا ہوگا وہ یہ سوال ضرور کرے گا کہ قران میں کہاں سر سے پیر تک کے پردے کا حکم دیا گیا ہے اور قران میں کہاں ایسی سزاؤں کا حکم دیا گیا ہے؟ قرآن کے پردہ سے متعلق وہ احکامات (جو تمام زمانوں کے لئے ہیں) وہ سوره نور کی آیات نمبر ٣١ میں بیان کئے گئے ہیں. اس آیت میں جو احکامات ہیں انکو یہاں ایک دفع پھر بیان کئےجاتی ہوں :
١. اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
٢. اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اسکے کہ جو ظاہر ہے . ‘ظاہر’ میں شامل ہے اسکی اوپر وضاحت کر دی گی ہے ( کہ یہ کچھ علما کے مطابق زمانے اور حالات کے مطابق تبدیل ہو سکتا ہے )٣. اپنے سینوں پر اوڑھنیاں (‘خمار’ ) ڈالے رکھیں.
کیا اس آیت میں کہیں یہ کہا گیا ہے کے عورتیں سر سے پیر تک پردہ کریں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں کوڑوں کی سزا دو؟

ملا برادری عورتوں کو نقاب کرنے پر اسرار کرتی ہے حالانکہ اسکا اسلام میں کوئی حکم نہیں ہے.
کچھ علما نے سوره احزاب کی آیات نمبر ٥٩ کو شریعت میں پردہ کے قوانین کے لئے استعمال کیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے. اس ضمن میں دلائل یہ ہیں کہ :
1 .سوره احزاب کی یہ آیت اس زمانہ میں اتاری گئی تھی جب منافیقین مسلمان عورتوں کو نام دیتے تھے اور انہیں ایضا پہنچاتے تھے. ابن سعد (نامور تاریخ دان ) اس وقت کے حالات کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
‘ مدینہ میں کچھ بد دماغ مرد (صحفہ) لونڈیوں کو تنگ کرتے تھے. اس لئے کسی بھی عورت کے لئے باہر جانا مشکل تھا کیونکہ انکے لباس میں اور لونڈیوں کے لباس میں کوئی فرق نہیں تھا اور یہ مرد انہیں لونڈی سمجھ کر نام دیتے تھے اور تنگ کرتے تھے.’
جب ان منافیقین سے رسول نے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے بہانہ بنایا کہ ہم اتو یہ سمجھے تھے کہ یہ عورتیں لونڈیاں ہیں. اس آیت میں الله نے ایک تدبیر بتایی کہ مسلمان عورتیں جب باہر نکلیں تو ‘جلباب’ اوڑھ لیا کریں تا کہ وہ پہچانی جا سکیں اور منافیقین کہ پاس انہیں تنگ کرنے کا کوئی بہانہ نہ رہے. یہاں یہ بات واضح ہے کہ یہ آیت صرف ایک خاص وقت اور موقع کے لئے تھی اور یہ حکم تمام زمانوں کے لئے نہیں تھا.
2. سوره احزاب کی یہ آیات بہت پہلے نازل ہویی تھی اور ایک خاص موقع پر نازل ہویی تھی. حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ سوره احزاب کی یہ آیات حضرت محمّد کی حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ شادی کے فورن بعد نازل ہویی تھی. امام مسلم لکھتے ہیں ولیمہ کی رات کھانا پیش کرنے کے کچھ دیر بعد کافی مہمان رخصت لے کر چلے گئے لیکن صحابہ کے ایک گروہ بیٹھا رہا. جب زیادہ دیر ہوگئی اور مہمان رخصت نہ ہوے تو حضور محفل سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ مہمانوں کو اشارہ مل سکے. حضور حضرت عایشہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت انس بن ملک (جن سے یہ واقعہ روایت ہے) بھی انکے ساتھ تھے. جب حضور واپس آے تو انھوں نے دیکھا کے وہ مہمان ابھی تک نہیں گئے. حضور دوبارہ باہر چلے گئے اور جب واپس آے تو وہ مہمان رخصت لے کر چلے جا چکے تھے. حضور کو ان مہمانوں کا رویہ پسند نہیں آیا تھا. اس موقع پر سوره احزاب کی یہ آیات نازل ہویں. (دیکھئے آیات نمبر ٥٣ سے ٥٩ ).
مومنو پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھاچکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے۔ اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ہیں) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بےشک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے.​
یہاں تمام آیات خاص موقعے کے لئے ہیں اور ان میں خاص لوگوں کے لئے احکامات ہیں.ً آیات نمبر ٥٣ صرف صحابہ کے لئے ہے جن میں ان سے کہا گیا ہے کہ حضور کی بارگاہ میں تب تک حاضر نہ ہوں جب تک انہیں اجازت نہ مل جائے. اور جب اجازت مل جائے تو زیادہ دیر تک قیام مت کرو تا کہ حضورکو تنگی نہ ہو. اسی طرح اگلی آیات میں حضور کی بیویوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں حضور کی بیویوں کی حیثیت سے خاص احکامات دیے گئے ہیں. اسی طرح آیات نمبر ٥٩ ،جسے ملا پردے کے لئے استعمال کرتے ہیں، بھی ایک خاص زمانہ کے لئے تھیں. اسکے برعکس سوره نور میں جو آیات نازل ہوی وہ کسی خاص موقع پر نہیں نازل ہوی اور نہ ہی خاص اشخاص کے لئے نازل ہوی. سوره نور کی دوسری آیات میں شریعت اور اسلامی قوانین سے متعلق بہت سی آیات ہیں. جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اور صرف سوره نور کی آیات ہی شریعت میں پردے سے متعلق احکامات جاری کرنے کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں.
3. آیات نمبر ٥٩ میں الله فرماتا ہے کہ مسلمان عورتیں ‘جلباب’ پہنیں تاکہ جب وہ باہر نکلیں تو لونڈیوں سے الگ پہچانی جا سکیں. ایک ایسے معاشرے میں جہاں لونڈیاں یا غلام ہی نہیں موجود وہاں مسلم عورت کو پہچان کے لئے خاص لباس پہننے کی ضرورت کیوں ہوگی؟ اور سوره نور میں جہاں عورتوں، حتہ کہ بوڑھی عورتوں کے لباس کے لئے بھی احکامات ہیں (آیات نمبر ٦٠ ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کے بارہ میں بھی احکامات ہیں. لیکن یہاں ‘جلباب’ کا کوئی ذکر نہیں اتا. اگر جلباب لینا سب زمانوں کے فرض تھا تو یہاں الله نے اس حکم کو دوہرایا کیوں نہیں جبکے ہمیں اخلاقی اور کردار سے متعلق ہدایت بھی ملتی ہیں؟ چلیں اگر فرض کر لیا جائے کہ ‘جلباب’ کا حکم لباس کے عمومی احکامات میں شامل ہے تو الله سوره نور میں دوبارہ الگ سے کیوں زینت کو چھپانےاور سینہ کو ڈھانپنے کا حکم دے گا جبکہ ‘جلباب’ پہننے سے سینہ خود بخود ڈھنپ جاتا ہے؟ یہاں یاد رکھا جائے کہ جلباب ایک لمبی چادر تھی جسے عام قمیض یا کرتا کے اوپر اوڑھا جاتا ہے اور جو چیز قمیض سے نہ ڈھانپے وہ اس سے ضرور ڈھنپ جائے گی، الله قمیض اور جلباب اوڑھنے کے بعد ایک اور چادر ‘خمار’ اوڑھنے کا حکم کیوں دے گا؟ یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اور صرف سوره نور کی آیات شریعت میں پردے کے احکامات کے لئے استعمال کی جا سکتیں ہیں.
ریفرنسس
1. http://www.theglobeandmail.com/news...mand-teachers-wear-burkas/article1655573/ust/
2. http://www.rawa.org/rules.htm
3. Cyril Glasse. The Concise Encyclopedia of Islam. Harper and Row Publishers, New York, N.Y., 1989,
4. http://www.bilalphilips.com/bilal_pages.php?option=com_content&task=view&id=277
5. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
6. 7. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
ربط
http://roshnipk.com/blog/?p=604
 
برقع، اسلام ، اور عورت کا معاشرتی کردار

دوسرا اور آخری حصہ



سنن ابو داؤد میں ایک حدیث بیان کی گی ہے اور جسکو تبلیغی لٹریچر میں بہت زیادہ استعمال بھی کیا جاتا ہے. یہ حدیث اس طرح بیان کی گئے ہے کہ حضرت عایشہ سے روایت ہے کہ حضرت محامد نے حضرت اسماء کو کہا کہ جب کوئی عورت بلوغت کو پہنچے تو اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چہرے اور ہاتھ کے علاوہ جسم کا کوئی حصّہ ظاہر کرے. اس حدیث کو ملا حضرات نے جس طرح سے استعمال کیا ہے اس سے انکی عقل پر شک ہوتا ہے. کچھ ملا حضرات نے کہا ہے کہ عورت ابرو سے اپر کا حصّہ ڈھانپے گی، کچھ نے لکھا ہے کہ عورت ادھ پیشانی ظاہر کر سکتی ہے، کچھ نے کہا کہ پوری پیشانی ظاہر کی جاسکتی ہے. سب نے کتنا ڈھانپنا پر بحث کی لیکن کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ یہ حدیث صحیح ہے بھی یا نہیں. ابو داود خود لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل (یعنی کمزور ) حدیث ہے کیونکہ سلسلا اسناد مکمّل نہیں ہے. یعنی حضرت عایشہ سے جسنے یہ حدیث سنی اسکا نام ابو داؤد کو معلوم نہیں ہے. حدیث مرسل کو شریعت میں شامل نہیں کیا جاسکتا اس لئے اس پر بحث بے کار ہے.
اوپر دیے گئے تمام حوالوں میں کسی بھی جگه پر ایسے کوئی ہدایت نہیں ملتی کہ عورت کے صرف ہاتھ اور چہرہ ہی نظر انا چاہیے. لیکن تقریباً تمام علما نے سر کے ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اور اسے فرائض میں شامل کیا گیا ہے.میرے خیال میں یہ غلط ہے . یہ درست ہے کہ صحابیات نے اور ام المومنین نے ‘خمار’ اوڑھا. لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ خمار عربی لباس کی حصّہ تھا اور اسے مرد اور عورتیں دونوں نے پہنا. خمار اسلام نہیں لے کر آیا تھا بلکہ یہ عرب کہ لباس اور ثقافت کا زمانہ جاہلیت سے ہی حصّہ تھا. حضور نے تمام زندگی عمامہ باندھا. عمامہ بھی عربی لباس کا ایک حصّہ تھا اور عرب کے مردوں میں کافی مقبول تھا. لیکن شریعت میں عمامہ باندھنا مردوں پر فرض نہیں کیا گیا، بلکل اسی وجہ سے عورتوں کا خمار لینا بھی فرض نہیں کیا جا سکتا. کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ عورت کے بال اسکی زینت کا حصّہ ہوتے ہیں اسلئے اسکو ڈھانپنا ضروری ہے. بال چہرے سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوتے، تو جب چہرے کو ڈھانپنے کا حکم نہیں ہے تو بال کے ڈھانپنے کا حکم کیسے ملتا ہے ؟
اس لئے کوئی اسلامی حکومت یہ قانون نہیں بنا سکتی کہ سکارف یا سر پردپٹا لیا جائے. ہاں اگر عورت خود لینا چاہے تو اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہے.
کیا اسلام میں نقاب کا حکم ہے یا کیا ام المومنین میں سے کسی نے نقاب کیا؟
قران میں کہیں بھی چہرے کے نقاب کا حکم نہیں دیا گیا نہ ہی یہ ام المومنین میں سے کسی نے چہرے کا نقاب کیا. اس ضمن میں میرے دلائل درج ذیل ہیں :
1. سوره نور کی آیات نمبر ٣٠ میں الله مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ نگاہیں نیچی رکھیں. اگر نقاب کا حکم ہوتا تو مردوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم کیوں دیا جاتا؟
2. سکالر یہ کہتے کہیں کے ام المومنین نے چہرہ کا نقاب کیا تھا. لیکن ایسی کوئی روایت شروع کی حدیث اور تاریخ کے لٹریچر میں نہیں ملنی. یہ روایت دوسری صدی ہجری میں مقبول ہویی تھی جب اس وقت کے حکمرانوں نے عورتوں کے چہرے کا نقاب کو فروغ دیا. بہت سے علما اس ضمن میں حوالہ کے لئے قصّہ افک کا ذکر کرتے ہیں جب حضرت عایشہ پر الزام لگایا گیا تھا کیونکہ اس روایت میں پورے واقعے کی تفصیل بیان کی گئے ہے اور حضرت عایشہ کے اپنے بیانات بھی تفصیل سے لکھے گئے ہیں. بخاری اور ابن اسحاق میں یہ واقیہ بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے . بخاری، مسلم، اور ابن اسحاق میں لکھا گیا اہے کہ صفوان نے حضرت عایشہ کو دیکھا اور انکو پہچان لیا. بخاری میں قصّہ افک ٣ جگہوں پر بیان کیا گیا ہے جن میں سے ١ جگہ لکھا ہے کہ حضرت عایشہ نے صفوان کو دیکھ کر چہرے کو ڈھانپ لیا جبکے ٢ جگہوں پر ایسا کچھ نہیں لکھا. اسی طرح مسلم اور ابن اسحاق میں بھی ایسا کچھ نہیں لکھا کہ حضرت عایشہ نے چہرہ ڈھانپا یا نہیں بلکہ صرف یہ لکھا ہے کہ صفوان نے حضرت عایشہ کو پہچان لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عایشہ کا چہرہ نقاب میں نہیں تھا.

3. کچھ علمانے سوره احزاب کی آیات نمبر ٥٩ کو نقاب کو لازم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے. ان علما کا کہنا ہے کہ آیات میں جلباب کو اوڑھنے کے لیا لفظ ‘یدنین’ استعمال ہوا ہے جسکالغوی مطلب قریب لانا ہے.یعنی اوڑھنا (لباس کے قریب لانا ). پہلی بات تو یہ کہ یہ آیات تمام زمانوں کے لئے نہیں تھی اس لئے اسکا شہریت میں استعمال نہیں ہوسکتا. دوسری بات یہ کہ اگر ہم اسکو شامل کریں بھی تو یہ آیات کہیں بھی یہ حکم نہیں دیتی کہ چہرے کو ڈھانپا جائے.
4. چہرہ کو ڈھانپنے سے عورت کو کام کاج کرنے میں، کھانے، پینے میں بہت مشکل کا سامنا ہوگا. اسکے علاوہ گرم علاقوں میں نقاب لینا اور بھی تکلیف دہ ہوگا. اسلام میں کوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ جو انسانی جان کے لئے مصیبت کا بآیِث بنے. بلکہ خدا خود فرماتا ہے کہ ‘الله کا ارادہ تمھارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں’ (١٥٨: ٢ )
5. اسلام کی بڑی عبادتوں میں سے ایک عبادت حجج ہے جسے دین کے ٥ ستونوں میں بھی شامل کیا گیا ہے. حجج کے لئے لباس اور حجج ادا کرنے کا طریقہ بہت تفصیل سے بہت سی روایات میں بیان کیا گیا ہے.عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے حج کے لیے احرام کا حکم دیا گیا ہے. عورتوں کے احرام میں انہیں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسکی بہت ٹھوس روایات حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں. اسی طرح نماز میں بھی عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے. اگر نقاب واقعی اسلامی لباس کا حصّہ ہوتا تو اسے حج جیسے اہم موقعے پر پہنننے کے کیوں نہ کہا گیا؟ یہاں یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ جو علما نقاب کا حکم دیتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت نماز کے وقت چہرے کو کھلا رکھے گی چاہے وہ کہیں بھی نماز کیوں نہ پڑھ رہی ہو. اگر نقاب واقعی لازم ہوتا تو یہاں نقاب کی چھوٹ کیوں دی جارہی ہے ؟
اسکے علاوہ بھی حدیث کے کسی واقعی سے یہ حکم یا تاثر نہیں ملتا کہ ام المومنین نے نقاب لیا تھا. وہابی علما نے بہت سی غلط حدیثوں کو شریعت کو استعمال کر کے نقاب کو شریعت میں شامل اور فرض کیا ہے. ان تمام حدیثوں کا ایک تنقیدی جایزہ اور انکے صحیح ہونے کے معیار کی تفصیل پروفیسر بلال فلپ کی کتاب ‘دی فیس ویل’ میں بہت عمدہ طریقے سے بیان کی گئے ہے. یہ کتاب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے اور قریں سے گزارش ہے کہ اس کتاب مطالع کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ کسطرح غلط اور بےبنیاد احادیث کو شریعت میں عورتوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے.
کیا اسلام عورتوں کو مخلوط ماحول میں کام کرنے اور مردوں سے پشوارانہ تعلقات رکھنے سے منا کرتا ہے ؟




سوات میں طالبان نے خواتین کو گھروں سے نکلنے حتیٰ کہ سکول، کالج اور بازار جانے تک پر پابندی لگا دی تھی. اس تصویر میںسوات کی خواتین کے کپڑوں کی ایک مارکیٹ پر بینر آویزاں ہے کہ خواتین کا داخلہ بند ہے.

یہاں میں اسلامی تاریخ سے کچھ واقعیات بیان کرنا چاہوں گی جس سے قارین کو اندازہ ہوجاے گا کہ اس وقت خواتین معاشرے میں کس قدر بھرپور عملی کردار ادا کرتی تھی.:
1. حضرت محمّد نے عورتوں کو جنگوں میں شامل کیا جہاں وہ زخمیوں کی عیادت اور مرہم پٹی کی ذمہ داریاں نبھتی تھیں5.
2. حضرت عثمان نے اپنے دور حکومت میں حضرت ام کلثوم (حضرت علی کی بیٹی ) کو اپنی حکومت کا سفارتی نمائندہ بنا کر روم بھیجا .
3. حضرت فاروق نے اپنے دور حکومت میں ایک خاتون شفا بن عبدللہ کو ایک عدالت کا قاضی مقرر کیا. 6.
4. حضرت عایشہ حضور کی زندگی میں اور آپکے وصال کے بعد بھی اسلامی تعلیمات دیتی رہیں. صحابہ کرام آپکے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے. اگر عورتوں کا مردوں سے بات چیت یا میل جول کی ممانعت ہوتی تو حضرت عایشہ صحابہ کو تعلیم کیوں دیتی ؟
5. حضرت حسین کی بیٹی (حضور کے عزیز نواسے کی دختر )حضرت زینب ملک کے سیاسی معاملات میں بہت دلچسپی رکھتی تھی اور اس وقت کے خلیفہ کے خلاف اپ نے بہت مظاہرے بھی کیے اور مختلف جگہوں پرعوامی اجتماعات کی سربراہی کی اور ان میں حکومت کے خلاف آواز بھی اٹھایی. اپ نے قریش کی قبیلوں کے اجلاس (آج کے زمانہ کے مونسپل کمیٹی ) میں بھی بھرپور شرکت کی. آپکی بہادری اور آپکے سیاسی کارکن کی حثیت سے کارناموں کے قصّے بہت سی تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں. 7
حرف آخر :
اسلام زمانہ جاہلیت کے عورتوں پر ظلم کے خلاف بلند آواز اٹھاتا ہے اور مسلم عورت کو شخصی آزادی دیتا ہے. ام المومنین اور صحابیات نے جس قدر معاشرتی عملی کردار ادا کیا اسکی مثالیں ہم سب کے سامنے موجود ہیں. حضرت محمد کی زوجہ ام سلمہ خواتین کے حقوق کی علمبردار تھی اور انہوں نے حضور سے خود بارہا سوال کیا کہ الله اپنی آیات میں صرف مردوں کو مخاطب کیوں کرتا ہے اور عورتوں کا ذکر کیوں نہیں اتا. ام سلمہ کے اس سوال کا جواب پر آیات نازل ہویں جسمیں خدا نے نہ صرف عورتوں اور مردوں کو مخاطب کیا بلکہ دونوں کو برابری بھی دی. ام سلمہ نے وہ مطالبہ کیا جو آج کی فیمنسٹ کرتی ہیں : مردوں اور عورتوں کے برابر کے معاشرتی حقوق اور انکے مطالبے کے جواب میں خدا نے آیات بھیجی جو عورتوں کی برابری کی تصدیق کرتی ہیں.
اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ جس سے عورتوں کے سر سے پیر تک ڈھانپا ہونے، گھروں میں محصور ہو کر رہنے، یا مردوں سے میل جول نہ رکھنے کا کہا گیا ہو. قران میں صرف ١ آیات میں لباس کے بارے میں حکم ملتا ہے جبکہ کردار کی بلندی اور تقویٰ کے لئے کی کی آیات موجود ہیں. افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علما نے لباس پر زیادہ دور دیا ہے لیکن اخالق اور کردار کی بلندی پر کوئی بحث نہیں کی. عورتوں کے پردے کو اسلام نے اتنا برا مسلہ نہیں بنایا جتنا علما نے بنایا ہے .دنیا بھر میں برقع اور نقاب اسلام کی نشانیاں بن کر رہ گئی ہیں جب کہ مسلم کی شان برقع کی بجایے اسکا کردار ہونا چاہیے تھا. آج کے مسلمانوں نے اپنی ہدایت اور دینی تعلیم ‘نیم حکیم’ ملاؤں سے لینا شروع کردی ہے اور عورتوں کو گھروں ، چار دیواریوں میں محصور کرکے معاشرے سے الگ تھلگ کردیا ہے. کیا ان ملاؤں اور انکے پیروکاروں کو حضرت عایشہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت کلثوم، اور حضرت زینب کی زندگیوں اور انکی بھرپور معاشرتی کردار کے بارے کچھ نہیں معلوم ؟
ریفرنسس
1. http://www.theglobeandmail.com/news...mand-teachers-wear-burkas/article1655573/ust/
2. http://www.rawa.org/rules.htm
3. Cyril Glasse. The Concise Encyclopedia of Islam. Harper and Row Publishers, New York, N.Y., 1989,
4. http://www.bilalphilips.com/bilal_pages.php?option=com_content&task=view&id=277
5. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
6. 7. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
ربط
http://roshnipk.com/blog/?p=737
 
Top