سید شہزاد ناصر
محفلین
کچھ روز قبل ایک مباحثے کے دوران ایک صاحب نے فرمایا کہ مسلم عورت نوکری نہیں کر سکتی کیونکہ اسلام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ گھر سے باہر نکلے یا مردوں سے میل جول رکھے. ان صاحب کا یہ بیان میرے لئے نیا نہیں تھا.
کلکتہ کی ایک اسلامی یونیورسٹی کے طلبا نے ایک خاتون استاد سے پڑھنے سے اسوجہ سے انکار کر دیا کہ وہ خاتون برقع نہیں پہنتی تھیں. عالیہ یونیورسٹی کلکتہ کے طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ تمام خواتین اساتزہ کو برقعہ پہننے کی ہدایت کی جائے اور بصورت دیگر انہیں یونیورسٹی میں پڑھانے کی اجازت نہ دی جائے.¹
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں شریعت نافذ تھی اور اسکے مطابق عورتوں کے لئے خاص قوانین تھے جن میں سے کچھ یہاں بیان کیے جارہے ہیں:
ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کے ایسے بہیمانہ قوانین نافذ کیے جایئں؟ ان تمام قوانین کی بنیاد پردہ کے احکام پر مبنی ہے سو بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام میں پردہ کے کیا احکامات ہیں؟اور کیا واقعی اسلام میں عورتوں کےعملی معاشرتی کردار کی کوئی جگه نہیں؟
کچھ لوگ تو پردے کے حق میں دلائل ڈھونڈتے ہوے اس حد تک بے ہودگی پر اتر جاتے ہیں کہ بے ڈھنگ مثالوں کا سہارا لیتے ہیں جیسے کہ یہ پوسٹر جو کچھ دیر سے انٹرنیٹ پر کافی مقبول ہے.
اس آرٹیکل میں ان تمام سوالوں کا قران اور حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیا جائے گا. ملاحظہ ہو:
قرآن میں پردے کے احکامات:
قرآن میں مختلف مقامات پر پردے کے بارے میں احکامات آتے ہیں. ان احکامات کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:
لباس اور تقویٰ - قرآن میں لباس کا ذکر سب سے پہلے ان آیات میں اتا ہے جن میں حضرت آدم اور حضرت حوا کے واقعے کا ذکر ہے. چنانچہ الله فرماتا ہے کہ جب آدم اور حوا کو اپنی عریانی کا احساس ہوا تو انھوں نے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنا شروع کردیا (٢٢: ٧ ). آیت ( ٢٦ : ٧ ) میں الله لباس کو اپنی نعمتوں میں شمار کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ تقویٰ بہترین لباس ہے. اس آیت میں ظاہری لباس کا ذکر تقویٰ کے ساتھ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ظاہری لباس اہم ہے لیکن تقویٰ اہم ترین مقام رکھتا ہے.
قران کی اگلی آیات میں الله لباس اور تقویٰ کے بارے میں اپنے احکام اور وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں. چنانچہ سوره نور میں فرمان ہے کہ
‘ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں’ (٣٠ : ٢٤ )
یہاں ‘نگاہیں نیچی رکھو’ سے مراد بلکل ہی نیچے کی طرف دیکھنا نہیں ہے. اس آیت میں لفظ ‘غدّا’ استعمال کیا گیا ہے جسکا مطلب ہے کہ کسی چیز کو کم کرنا مگر اسطرح کے وہ بلکل ختم نہ ہو جائے. آیات (٣: ٤٩ ) اور (٣١: ١٩ ) میں یہی لفظ ‘غدّا’ آواز کو کم کرنے کے لیا استعمال کیا گیا ہے. سو نگاہیں نیچی کرنے کا مطلب اس طرح دیکھنا کہ آپ ہر چیز کا بغور جایزہ نہ لے رہے ہو. عام فہم میں اسکا مطلب ہے کہ آپ کسی کو فحش طریقے سے مت دیکھو.
‘مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ (٣١ : ٢٤ )
پردہ سے متعلق تمام احکامات میں سب سے اہم حکم اس آیت میں دیا گیا ہے. یہاں مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی نمایش نہ کریں سواے اسکے جو ظاہر ہے. زینت کیا ہے اسکی تفصیل یہاں بیان نہیں کی گئی. مفسر اور علما نے اس ضمن میں بہت سی وضاحتیں پیش کی ہیں. غامدی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ‘زینت’ قدرتی طور پر دی گی کسی بھی چیز کی خوبصورتی کو بڑھا کر پیش کرنا ہے. پچھلے وقتوں کے علما نے بیان کیا ہے کہ ‘سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے’ کا کوئی واحد مطلب نہیں لیا جاسکتا بلکہ اسکا مفہوم زمانہ اور معاشرتی رجحان اور مقام کے لحاظ سے بدل سکتا ہے. لیکن اسکا متفقہ معنی میں بیان کیا گیا ہے کہ جسم کے جو حصّے عام طور پر نظر آتے ہیں یا کپڑوں کا وہ حصّہ جو عام طور پر نظر آتا ہے. کچھ علما نے اسکی تفصیل بیان کی ہے. مصلاً الواحدی اور ابن تمییہ بیان کرتے ہیں کہ ہاته سے لے کر کہنی تک بازو ظاہر کیا جاسکتا ہے. النسبری نے بھی ابن تممیہ اور الواحدی کی تفسیر کی تایید کی ہے. ابن حییان نے تو یہ بھی کہا کہ غریب عورتوں کو اس معاملے میں اور بھی چھوٹ دی جا سکتی ہے.
اس آیت کے آخری حصّے میں حکم دیا گیا ہے کہ ‘اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ یہاں لفظ ‘خمر’ آیا ہے جو ‘خمار’ کی جمع ہے. ‘خمار’ چادر کی طرح کا عربی لباس تھا جو عرب کے مرد اور عورتیں صحرا کی دھوپ سے بچنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے. اسکے علاوہ ‘خمار’ عربی تہذیب اور ثقافت کی علامت بھی تھا. عربی عورتیں اس وقت کے فیشن کے مطابق کھلے گریبانوں والی قمیضیں پہنتی تھیں جس سے انکا سینہ مکمل طور پر ڈھنپا ہوا نہیں ہوتا تھا. غزوہ احد میں جب کفار جنگ کے میدان چھوڑ کر جا رہے تھے تو انکی عورتوں نے اپنے سپاہیوں کو للکارنے کے لئے اپنے سینے عریاں کر دیے. جس طرح جنگوں میں سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جوشیلے نغمے گاے جاتے تھے اسی طرح یہ رجحان بھی کافی عام تھا. ³ یقیناً عورتوں کا سینہ انکی شرمگاہوں میں شامل ہوتا ہے اور جیسا کہ پچھلی آیات میں شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، یہاں وہی حکم دہرایا گیا ہے. اس آیت کو ملا برادری نے عورتوں کے برقع کو فروغ دینے کے لئے بارہا استعمال کیا ہے، لیکن آیت کی حرف با حرف تشریح سے اس بات کی وضاحت ہوگیی ہے کہ یہاں صرف اور صرف شرمگاہوں کی حفاظت اور بے حیائی سے روکا گیا ہے.
ایک اور آیت جو پردے سے مطالق تعلیمات میں اکثر پیش کی جاتی ہے:
‘اے نبی اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں، اور اپنی مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ (جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو) اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں. اس سے بہت جلد انکی پہچان ہوجاے گی اور وہ ستایی نہیں جاییں گی. ‘ (33 : 59 )
یہاں چادر کے لئے لفظ ‘جِلابھیں’ استعمال کیا گیا ہے جو ‘جلباب’ کی جمع ہے. ‘جلباب’ بھی اس وقت کا ایک مقبول لباس جسکی صحیح تعریف یا صورت کسی کو بھی یقینی طور پر معلوم نہیں. قدیم عربی زبان کے ماہرین جیسا کہ ابن المنضور اور جوہری عربی لغت کی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ‘جلباب’ ایک چادر کی طرح کا لباس تھا جسے کپڑوں کے اوپر اوڑھا جا سکتا ہے.
ملا کا پردہ اور اسلامی تعلیمات:
بہت سے اسلامی سکالر اور اسلام کے ‘نیم حکیم’ نے برقع کو مسلم عورت کے لئے فرض قرار دے دیا ہے اور کھلم کھلا برقع کی تبلیغ کرتے ہیں. ان کے لئے نقاب لینا بھی فرائض میں شمار ہے. کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام عورت کا گھر سے نکلنے کی ممانعت کرتا ہے اور اس لئے مسلمان عورتوں کا نوکری کرنا ناجایز ہے. چنانچہ افغانستان میں عورتوں کی سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے یا پڑھانے کی اجازت نہیں تھی، سعودی عرب میں کئی سالوں سے عورتوں کے آفس اور مارکیٹوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، نہ ہی انہیں گاڑی چلانے کی اجازت تھی. حال ہی میں سعودی حکومت نے عورتوں کو مارکیٹوں اور شاپنگ مال میں کشیر کی ملازمتیں دینا شروع کی تو کی نامور سعودی علما نے اسکے خلاف بیانات دیے اور کہا کہ عورت کا گھر سے نکلنا اور نوکری کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے. اس ضمن میں یہ علما جس آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیّت کے زمانہ کے بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو…٣٣ :٣٣
یہ علما اس بات کو دیکھنے سے قاصر ہیں کہ یہ آیات خاص حضرت محمّد کی بیویوں کے لئے تھیں . یقیناً قاریین کے ذھن میں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا مسلمان عورتوں کے لئے لازم نہیں ہے کے وہ جتنا ہوسکے ام المومنین کی پیروی کریں؟ اس سوال کے جواب کے لئے سوره احزاب کی آیات نمبر ٣٢ پڑھیے جسمیں خود الله فرماتا ہے کہ یہ حکم صرف حضور کی بیویوں کے لئے ہے کیونکہ وہ عام عورتیں نہیں ہیں. اسی لئے انکے لئے احکامات بھی خاص ہیں.
اسکے علاوہ الله خود قران میں عورتوں کے کام کرنے اور کمانے کا ذکر کرتا ہے. چنانچہ الله فرماتا ہے :
مردوں کا حصّہ اس میں سے ہے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کا حصّہ اس میں سے جو انھوں نے کمایا …٣٢:٤
سعودی عرب میں اور طالبان کی شریعت میں عورتوں کے لئے سر سے پیر تک کا پردہ اور چہرے کا نقاب فرض ہے اور جو عورتیں برقع اور نقاب نہ لیں انکے لئے کوڑوں کی سزا ہے. کوئی بھی ایسا شخص جسنے قران کو خود پڑھا اور سمجھا ہوگا وہ یہ سوال ضرور کرے گا کہ قران میں کہاں سر سے پیر تک کے پردے کا حکم دیا گیا ہے اور قران میں کہاں ایسی سزاؤں کا حکم دیا گیا ہے؟ قرآن کے پردہ سے متعلق وہ احکامات (جو تمام زمانوں کے لئے ہیں) وہ سوره نور کی آیات نمبر ٣١ میں بیان کئے گئے ہیں. اس آیت میں جو احکامات ہیں انکو یہاں ایک دفع پھر بیان کئےجاتی ہوں :
١. اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
٢. اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اسکے کہ جو ظاہر ہے . ‘ظاہر’ میں شامل ہے اسکی اوپر وضاحت کر دی گی ہے ( کہ یہ کچھ علما کے مطابق زمانے اور حالات کے مطابق تبدیل ہو سکتا ہے )٣. اپنے سینوں پر اوڑھنیاں (‘خمار’ ) ڈالے رکھیں.
کیا اس آیت میں کہیں یہ کہا گیا ہے کے عورتیں سر سے پیر تک پردہ کریں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں کوڑوں کی سزا دو؟
ملا برادری عورتوں کو نقاب کرنے پر اسرار کرتی ہے حالانکہ اسکا اسلام میں کوئی حکم نہیں ہے.
کچھ علما نے سوره احزاب کی آیات نمبر ٥٩ کو شریعت میں پردہ کے قوانین کے لئے استعمال کیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے. اس ضمن میں دلائل یہ ہیں کہ :
1 .سوره احزاب کی یہ آیت اس زمانہ میں اتاری گئی تھی جب منافیقین مسلمان عورتوں کو نام دیتے تھے اور انہیں ایضا پہنچاتے تھے. ابن سعد (نامور تاریخ دان ) اس وقت کے حالات کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
‘ مدینہ میں کچھ بد دماغ مرد (صحفہ) لونڈیوں کو تنگ کرتے تھے. اس لئے کسی بھی عورت کے لئے باہر جانا مشکل تھا کیونکہ انکے لباس میں اور لونڈیوں کے لباس میں کوئی فرق نہیں تھا اور یہ مرد انہیں لونڈی سمجھ کر نام دیتے تھے اور تنگ کرتے تھے.’
جب ان منافیقین سے رسول نے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے بہانہ بنایا کہ ہم اتو یہ سمجھے تھے کہ یہ عورتیں لونڈیاں ہیں. اس آیت میں الله نے ایک تدبیر بتایی کہ مسلمان عورتیں جب باہر نکلیں تو ‘جلباب’ اوڑھ لیا کریں تا کہ وہ پہچانی جا سکیں اور منافیقین کہ پاس انہیں تنگ کرنے کا کوئی بہانہ نہ رہے. یہاں یہ بات واضح ہے کہ یہ آیت صرف ایک خاص وقت اور موقع کے لئے تھی اور یہ حکم تمام زمانوں کے لئے نہیں تھا.
2. سوره احزاب کی یہ آیات بہت پہلے نازل ہویی تھی اور ایک خاص موقع پر نازل ہویی تھی. حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ سوره احزاب کی یہ آیات حضرت محمّد کی حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ شادی کے فورن بعد نازل ہویی تھی. امام مسلم لکھتے ہیں ولیمہ کی رات کھانا پیش کرنے کے کچھ دیر بعد کافی مہمان رخصت لے کر چلے گئے لیکن صحابہ کے ایک گروہ بیٹھا رہا. جب زیادہ دیر ہوگئی اور مہمان رخصت نہ ہوے تو حضور محفل سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ مہمانوں کو اشارہ مل سکے. حضور حضرت عایشہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت انس بن ملک (جن سے یہ واقعہ روایت ہے) بھی انکے ساتھ تھے. جب حضور واپس آے تو انھوں نے دیکھا کے وہ مہمان ابھی تک نہیں گئے. حضور دوبارہ باہر چلے گئے اور جب واپس آے تو وہ مہمان رخصت لے کر چلے جا چکے تھے. حضور کو ان مہمانوں کا رویہ پسند نہیں آیا تھا. اس موقع پر سوره احزاب کی یہ آیات نازل ہویں. (دیکھئے آیات نمبر ٥٣ سے ٥٩ ).
3. آیات نمبر ٥٩ میں الله فرماتا ہے کہ مسلمان عورتیں ‘جلباب’ پہنیں تاکہ جب وہ باہر نکلیں تو لونڈیوں سے الگ پہچانی جا سکیں. ایک ایسے معاشرے میں جہاں لونڈیاں یا غلام ہی نہیں موجود وہاں مسلم عورت کو پہچان کے لئے خاص لباس پہننے کی ضرورت کیوں ہوگی؟ اور سوره نور میں جہاں عورتوں، حتہ کہ بوڑھی عورتوں کے لباس کے لئے بھی احکامات ہیں (آیات نمبر ٦٠ ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کے بارہ میں بھی احکامات ہیں. لیکن یہاں ‘جلباب’ کا کوئی ذکر نہیں اتا. اگر جلباب لینا سب زمانوں کے فرض تھا تو یہاں الله نے اس حکم کو دوہرایا کیوں نہیں جبکے ہمیں اخلاقی اور کردار سے متعلق ہدایت بھی ملتی ہیں؟ چلیں اگر فرض کر لیا جائے کہ ‘جلباب’ کا حکم لباس کے عمومی احکامات میں شامل ہے تو الله سوره نور میں دوبارہ الگ سے کیوں زینت کو چھپانےاور سینہ کو ڈھانپنے کا حکم دے گا جبکہ ‘جلباب’ پہننے سے سینہ خود بخود ڈھنپ جاتا ہے؟ یہاں یاد رکھا جائے کہ جلباب ایک لمبی چادر تھی جسے عام قمیض یا کرتا کے اوپر اوڑھا جاتا ہے اور جو چیز قمیض سے نہ ڈھانپے وہ اس سے ضرور ڈھنپ جائے گی، الله قمیض اور جلباب اوڑھنے کے بعد ایک اور چادر ‘خمار’ اوڑھنے کا حکم کیوں دے گا؟ یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اور صرف سوره نور کی آیات شریعت میں پردے کے احکامات کے لئے استعمال کی جا سکتیں ہیں.
ریفرنسس
1. http://www.theglobeandmail.com/news...mand-teachers-wear-burkas/article1655573/ust/
2. http://www.rawa.org/rules.htm
3. Cyril Glasse. The Concise Encyclopedia of Islam. Harper and Row Publishers, New York, N.Y., 1989,
4. http://www.bilalphilips.com/bilal_pages.php?option=com_content&task=view&id=277
5. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
6. 7. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
ربط
http://roshnipk.com/blog/?p=604
کلکتہ کی ایک اسلامی یونیورسٹی کے طلبا نے ایک خاتون استاد سے پڑھنے سے اسوجہ سے انکار کر دیا کہ وہ خاتون برقع نہیں پہنتی تھیں. عالیہ یونیورسٹی کلکتہ کے طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ تمام خواتین اساتزہ کو برقعہ پہننے کی ہدایت کی جائے اور بصورت دیگر انہیں یونیورسٹی میں پڑھانے کی اجازت نہ دی جائے.¹
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں شریعت نافذ تھی اور اسکے مطابق عورتوں کے لئے خاص قوانین تھے جن میں سے کچھ یہاں بیان کیے جارہے ہیں:
عورتوں کو سکول اور کالجوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی، عورتوں کو مرد کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، عورتوں کو برقع کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، عورتوں کو شوخ رنگ کے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں تھی. حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی عورت نیل پالش بھی لگا لیتی تو اسکی انگلیاں کاٹ دی جاتی تھی کیونکہ طالبان کی شریعت کے مطابق عورت بناؤ سنگھار نہیں کر سکتی تھی. ²
اسی قسم کے قوانین بہت سی دوسری اسلامی تنظیموں (جیسے صومالیہ کی الشباب) کے پوسٹرز پر دیکھے جا سکتے ہیں. یہ تمام تنظیمیں اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہتی ہیں.ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کے ایسے بہیمانہ قوانین نافذ کیے جایئں؟ ان تمام قوانین کی بنیاد پردہ کے احکام پر مبنی ہے سو بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام میں پردہ کے کیا احکامات ہیں؟اور کیا واقعی اسلام میں عورتوں کےعملی معاشرتی کردار کی کوئی جگه نہیں؟

کچھ لوگ تو پردے کے حق میں دلائل ڈھونڈتے ہوے اس حد تک بے ہودگی پر اتر جاتے ہیں کہ بے ڈھنگ مثالوں کا سہارا لیتے ہیں جیسے کہ یہ پوسٹر جو کچھ دیر سے انٹرنیٹ پر کافی مقبول ہے.
اس آرٹیکل میں ان تمام سوالوں کا قران اور حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیا جائے گا. ملاحظہ ہو:
قرآن میں پردے کے احکامات:
قرآن میں مختلف مقامات پر پردے کے بارے میں احکامات آتے ہیں. ان احکامات کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:
لباس اور تقویٰ - قرآن میں لباس کا ذکر سب سے پہلے ان آیات میں اتا ہے جن میں حضرت آدم اور حضرت حوا کے واقعے کا ذکر ہے. چنانچہ الله فرماتا ہے کہ جب آدم اور حوا کو اپنی عریانی کا احساس ہوا تو انھوں نے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنا شروع کردیا (٢٢: ٧ ). آیت ( ٢٦ : ٧ ) میں الله لباس کو اپنی نعمتوں میں شمار کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ تقویٰ بہترین لباس ہے. اس آیت میں ظاہری لباس کا ذکر تقویٰ کے ساتھ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ظاہری لباس اہم ہے لیکن تقویٰ اہم ترین مقام رکھتا ہے.
قران کی اگلی آیات میں الله لباس اور تقویٰ کے بارے میں اپنے احکام اور وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں. چنانچہ سوره نور میں فرمان ہے کہ
‘ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں’ (٣٠ : ٢٤ )
یہاں ‘نگاہیں نیچی رکھو’ سے مراد بلکل ہی نیچے کی طرف دیکھنا نہیں ہے. اس آیت میں لفظ ‘غدّا’ استعمال کیا گیا ہے جسکا مطلب ہے کہ کسی چیز کو کم کرنا مگر اسطرح کے وہ بلکل ختم نہ ہو جائے. آیات (٣: ٤٩ ) اور (٣١: ١٩ ) میں یہی لفظ ‘غدّا’ آواز کو کم کرنے کے لیا استعمال کیا گیا ہے. سو نگاہیں نیچی کرنے کا مطلب اس طرح دیکھنا کہ آپ ہر چیز کا بغور جایزہ نہ لے رہے ہو. عام فہم میں اسکا مطلب ہے کہ آپ کسی کو فحش طریقے سے مت دیکھو.
‘مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ (٣١ : ٢٤ )
پردہ سے متعلق تمام احکامات میں سب سے اہم حکم اس آیت میں دیا گیا ہے. یہاں مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی نمایش نہ کریں سواے اسکے جو ظاہر ہے. زینت کیا ہے اسکی تفصیل یہاں بیان نہیں کی گئی. مفسر اور علما نے اس ضمن میں بہت سی وضاحتیں پیش کی ہیں. غامدی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ‘زینت’ قدرتی طور پر دی گی کسی بھی چیز کی خوبصورتی کو بڑھا کر پیش کرنا ہے. پچھلے وقتوں کے علما نے بیان کیا ہے کہ ‘سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے’ کا کوئی واحد مطلب نہیں لیا جاسکتا بلکہ اسکا مفہوم زمانہ اور معاشرتی رجحان اور مقام کے لحاظ سے بدل سکتا ہے. لیکن اسکا متفقہ معنی میں بیان کیا گیا ہے کہ جسم کے جو حصّے عام طور پر نظر آتے ہیں یا کپڑوں کا وہ حصّہ جو عام طور پر نظر آتا ہے. کچھ علما نے اسکی تفصیل بیان کی ہے. مصلاً الواحدی اور ابن تمییہ بیان کرتے ہیں کہ ہاته سے لے کر کہنی تک بازو ظاہر کیا جاسکتا ہے. النسبری نے بھی ابن تممیہ اور الواحدی کی تفسیر کی تایید کی ہے. ابن حییان نے تو یہ بھی کہا کہ غریب عورتوں کو اس معاملے میں اور بھی چھوٹ دی جا سکتی ہے.
اس آیت کے آخری حصّے میں حکم دیا گیا ہے کہ ‘اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ یہاں لفظ ‘خمر’ آیا ہے جو ‘خمار’ کی جمع ہے. ‘خمار’ چادر کی طرح کا عربی لباس تھا جو عرب کے مرد اور عورتیں صحرا کی دھوپ سے بچنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے. اسکے علاوہ ‘خمار’ عربی تہذیب اور ثقافت کی علامت بھی تھا. عربی عورتیں اس وقت کے فیشن کے مطابق کھلے گریبانوں والی قمیضیں پہنتی تھیں جس سے انکا سینہ مکمل طور پر ڈھنپا ہوا نہیں ہوتا تھا. غزوہ احد میں جب کفار جنگ کے میدان چھوڑ کر جا رہے تھے تو انکی عورتوں نے اپنے سپاہیوں کو للکارنے کے لئے اپنے سینے عریاں کر دیے. جس طرح جنگوں میں سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جوشیلے نغمے گاے جاتے تھے اسی طرح یہ رجحان بھی کافی عام تھا. ³ یقیناً عورتوں کا سینہ انکی شرمگاہوں میں شامل ہوتا ہے اور جیسا کہ پچھلی آیات میں شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، یہاں وہی حکم دہرایا گیا ہے. اس آیت کو ملا برادری نے عورتوں کے برقع کو فروغ دینے کے لئے بارہا استعمال کیا ہے، لیکن آیت کی حرف با حرف تشریح سے اس بات کی وضاحت ہوگیی ہے کہ یہاں صرف اور صرف شرمگاہوں کی حفاظت اور بے حیائی سے روکا گیا ہے.
ایک اور آیت جو پردے سے مطالق تعلیمات میں اکثر پیش کی جاتی ہے:
‘اے نبی اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں، اور اپنی مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ (جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو) اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں. اس سے بہت جلد انکی پہچان ہوجاے گی اور وہ ستایی نہیں جاییں گی. ‘ (33 : 59 )
یہاں چادر کے لئے لفظ ‘جِلابھیں’ استعمال کیا گیا ہے جو ‘جلباب’ کی جمع ہے. ‘جلباب’ بھی اس وقت کا ایک مقبول لباس جسکی صحیح تعریف یا صورت کسی کو بھی یقینی طور پر معلوم نہیں. قدیم عربی زبان کے ماہرین جیسا کہ ابن المنضور اور جوہری عربی لغت کی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ‘جلباب’ ایک چادر کی طرح کا لباس تھا جسے کپڑوں کے اوپر اوڑھا جا سکتا ہے.
ملا کا پردہ اور اسلامی تعلیمات:
بہت سے اسلامی سکالر اور اسلام کے ‘نیم حکیم’ نے برقع کو مسلم عورت کے لئے فرض قرار دے دیا ہے اور کھلم کھلا برقع کی تبلیغ کرتے ہیں. ان کے لئے نقاب لینا بھی فرائض میں شمار ہے. کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام عورت کا گھر سے نکلنے کی ممانعت کرتا ہے اور اس لئے مسلمان عورتوں کا نوکری کرنا ناجایز ہے. چنانچہ افغانستان میں عورتوں کی سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے یا پڑھانے کی اجازت نہیں تھی، سعودی عرب میں کئی سالوں سے عورتوں کے آفس اور مارکیٹوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، نہ ہی انہیں گاڑی چلانے کی اجازت تھی. حال ہی میں سعودی حکومت نے عورتوں کو مارکیٹوں اور شاپنگ مال میں کشیر کی ملازمتیں دینا شروع کی تو کی نامور سعودی علما نے اسکے خلاف بیانات دیے اور کہا کہ عورت کا گھر سے نکلنا اور نوکری کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے. اس ضمن میں یہ علما جس آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیّت کے زمانہ کے بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو…٣٣ :٣٣
یہ علما اس بات کو دیکھنے سے قاصر ہیں کہ یہ آیات خاص حضرت محمّد کی بیویوں کے لئے تھیں . یقیناً قاریین کے ذھن میں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا مسلمان عورتوں کے لئے لازم نہیں ہے کے وہ جتنا ہوسکے ام المومنین کی پیروی کریں؟ اس سوال کے جواب کے لئے سوره احزاب کی آیات نمبر ٣٢ پڑھیے جسمیں خود الله فرماتا ہے کہ یہ حکم صرف حضور کی بیویوں کے لئے ہے کیونکہ وہ عام عورتیں نہیں ہیں. اسی لئے انکے لئے احکامات بھی خاص ہیں.
اسکے علاوہ الله خود قران میں عورتوں کے کام کرنے اور کمانے کا ذکر کرتا ہے. چنانچہ الله فرماتا ہے :
مردوں کا حصّہ اس میں سے ہے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کا حصّہ اس میں سے جو انھوں نے کمایا …٣٢:٤
سعودی عرب میں اور طالبان کی شریعت میں عورتوں کے لئے سر سے پیر تک کا پردہ اور چہرے کا نقاب فرض ہے اور جو عورتیں برقع اور نقاب نہ لیں انکے لئے کوڑوں کی سزا ہے. کوئی بھی ایسا شخص جسنے قران کو خود پڑھا اور سمجھا ہوگا وہ یہ سوال ضرور کرے گا کہ قران میں کہاں سر سے پیر تک کے پردے کا حکم دیا گیا ہے اور قران میں کہاں ایسی سزاؤں کا حکم دیا گیا ہے؟ قرآن کے پردہ سے متعلق وہ احکامات (جو تمام زمانوں کے لئے ہیں) وہ سوره نور کی آیات نمبر ٣١ میں بیان کئے گئے ہیں. اس آیت میں جو احکامات ہیں انکو یہاں ایک دفع پھر بیان کئےجاتی ہوں :
١. اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
٢. اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اسکے کہ جو ظاہر ہے . ‘ظاہر’ میں شامل ہے اسکی اوپر وضاحت کر دی گی ہے ( کہ یہ کچھ علما کے مطابق زمانے اور حالات کے مطابق تبدیل ہو سکتا ہے )٣. اپنے سینوں پر اوڑھنیاں (‘خمار’ ) ڈالے رکھیں.
کیا اس آیت میں کہیں یہ کہا گیا ہے کے عورتیں سر سے پیر تک پردہ کریں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں کوڑوں کی سزا دو؟

ملا برادری عورتوں کو نقاب کرنے پر اسرار کرتی ہے حالانکہ اسکا اسلام میں کوئی حکم نہیں ہے.
کچھ علما نے سوره احزاب کی آیات نمبر ٥٩ کو شریعت میں پردہ کے قوانین کے لئے استعمال کیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے. اس ضمن میں دلائل یہ ہیں کہ :
1 .سوره احزاب کی یہ آیت اس زمانہ میں اتاری گئی تھی جب منافیقین مسلمان عورتوں کو نام دیتے تھے اور انہیں ایضا پہنچاتے تھے. ابن سعد (نامور تاریخ دان ) اس وقت کے حالات کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
‘ مدینہ میں کچھ بد دماغ مرد (صحفہ) لونڈیوں کو تنگ کرتے تھے. اس لئے کسی بھی عورت کے لئے باہر جانا مشکل تھا کیونکہ انکے لباس میں اور لونڈیوں کے لباس میں کوئی فرق نہیں تھا اور یہ مرد انہیں لونڈی سمجھ کر نام دیتے تھے اور تنگ کرتے تھے.’
جب ان منافیقین سے رسول نے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے بہانہ بنایا کہ ہم اتو یہ سمجھے تھے کہ یہ عورتیں لونڈیاں ہیں. اس آیت میں الله نے ایک تدبیر بتایی کہ مسلمان عورتیں جب باہر نکلیں تو ‘جلباب’ اوڑھ لیا کریں تا کہ وہ پہچانی جا سکیں اور منافیقین کہ پاس انہیں تنگ کرنے کا کوئی بہانہ نہ رہے. یہاں یہ بات واضح ہے کہ یہ آیت صرف ایک خاص وقت اور موقع کے لئے تھی اور یہ حکم تمام زمانوں کے لئے نہیں تھا.
2. سوره احزاب کی یہ آیات بہت پہلے نازل ہویی تھی اور ایک خاص موقع پر نازل ہویی تھی. حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ سوره احزاب کی یہ آیات حضرت محمّد کی حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ شادی کے فورن بعد نازل ہویی تھی. امام مسلم لکھتے ہیں ولیمہ کی رات کھانا پیش کرنے کے کچھ دیر بعد کافی مہمان رخصت لے کر چلے گئے لیکن صحابہ کے ایک گروہ بیٹھا رہا. جب زیادہ دیر ہوگئی اور مہمان رخصت نہ ہوے تو حضور محفل سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ مہمانوں کو اشارہ مل سکے. حضور حضرت عایشہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت انس بن ملک (جن سے یہ واقعہ روایت ہے) بھی انکے ساتھ تھے. جب حضور واپس آے تو انھوں نے دیکھا کے وہ مہمان ابھی تک نہیں گئے. حضور دوبارہ باہر چلے گئے اور جب واپس آے تو وہ مہمان رخصت لے کر چلے جا چکے تھے. حضور کو ان مہمانوں کا رویہ پسند نہیں آیا تھا. اس موقع پر سوره احزاب کی یہ آیات نازل ہویں. (دیکھئے آیات نمبر ٥٣ سے ٥٩ ).
مومنو پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھاچکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے۔ اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ہیں) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بےشک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے.
یہاں تمام آیات خاص موقعے کے لئے ہیں اور ان میں خاص لوگوں کے لئے احکامات ہیں.ً آیات نمبر ٥٣ صرف صحابہ کے لئے ہے جن میں ان سے کہا گیا ہے کہ حضور کی بارگاہ میں تب تک حاضر نہ ہوں جب تک انہیں اجازت نہ مل جائے. اور جب اجازت مل جائے تو زیادہ دیر تک قیام مت کرو تا کہ حضورکو تنگی نہ ہو. اسی طرح اگلی آیات میں حضور کی بیویوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں حضور کی بیویوں کی حیثیت سے خاص احکامات دیے گئے ہیں. اسی طرح آیات نمبر ٥٩ ،جسے ملا پردے کے لئے استعمال کرتے ہیں، بھی ایک خاص زمانہ کے لئے تھیں. اسکے برعکس سوره نور میں جو آیات نازل ہوی وہ کسی خاص موقع پر نہیں نازل ہوی اور نہ ہی خاص اشخاص کے لئے نازل ہوی. سوره نور کی دوسری آیات میں شریعت اور اسلامی قوانین سے متعلق بہت سی آیات ہیں. جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اور صرف سوره نور کی آیات ہی شریعت میں پردے سے متعلق احکامات جاری کرنے کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں.3. آیات نمبر ٥٩ میں الله فرماتا ہے کہ مسلمان عورتیں ‘جلباب’ پہنیں تاکہ جب وہ باہر نکلیں تو لونڈیوں سے الگ پہچانی جا سکیں. ایک ایسے معاشرے میں جہاں لونڈیاں یا غلام ہی نہیں موجود وہاں مسلم عورت کو پہچان کے لئے خاص لباس پہننے کی ضرورت کیوں ہوگی؟ اور سوره نور میں جہاں عورتوں، حتہ کہ بوڑھی عورتوں کے لباس کے لئے بھی احکامات ہیں (آیات نمبر ٦٠ ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کے بارہ میں بھی احکامات ہیں. لیکن یہاں ‘جلباب’ کا کوئی ذکر نہیں اتا. اگر جلباب لینا سب زمانوں کے فرض تھا تو یہاں الله نے اس حکم کو دوہرایا کیوں نہیں جبکے ہمیں اخلاقی اور کردار سے متعلق ہدایت بھی ملتی ہیں؟ چلیں اگر فرض کر لیا جائے کہ ‘جلباب’ کا حکم لباس کے عمومی احکامات میں شامل ہے تو الله سوره نور میں دوبارہ الگ سے کیوں زینت کو چھپانےاور سینہ کو ڈھانپنے کا حکم دے گا جبکہ ‘جلباب’ پہننے سے سینہ خود بخود ڈھنپ جاتا ہے؟ یہاں یاد رکھا جائے کہ جلباب ایک لمبی چادر تھی جسے عام قمیض یا کرتا کے اوپر اوڑھا جاتا ہے اور جو چیز قمیض سے نہ ڈھانپے وہ اس سے ضرور ڈھنپ جائے گی، الله قمیض اور جلباب اوڑھنے کے بعد ایک اور چادر ‘خمار’ اوڑھنے کا حکم کیوں دے گا؟ یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اور صرف سوره نور کی آیات شریعت میں پردے کے احکامات کے لئے استعمال کی جا سکتیں ہیں.
ریفرنسس
1. http://www.theglobeandmail.com/news...mand-teachers-wear-burkas/article1655573/ust/
2. http://www.rawa.org/rules.htm
3. Cyril Glasse. The Concise Encyclopedia of Islam. Harper and Row Publishers, New York, N.Y., 1989,
4. http://www.bilalphilips.com/bilal_pages.php?option=com_content&task=view&id=277
5. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
6. 7. Fatima Mernissi. The Veil and the Male Elite. Addison-Wesley Publishing Company. 1994.
ربط
http://roshnipk.com/blog/?p=604