عوامی نمائندوں کاانتخاب سے پہلے احتساب شروع

عوامی نمائندوں کاانتخاب سے پہلے احتساب شروع ہوگیا اور عوام کے ووٹوں سے کئی بار منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جانے والے سیاستدان اپنے مسائل تو حل کرتے نظر آئے مگروہ عوام کے مسائل حل نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے اب ان کا احتساب کرنا شروع کردیا اور جگہ جگہ ان کا گھیراؤ بھی کررہے ہیں ۔عوام میں سیاسی شعور اجاگر ہونے کی وجہ کچھ لوگ سوشل میڈیا کوقرار دے رہے ہیں تو کچھ اس کاکریڈٹ مین اسٹریم میڈیا کے سر باندھ رہے ہیں ۔
کہتے ہیں ووٹ کا صحیح استعمال آپ کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے اسی لیے اپنے ووٹ کا استعمال صحیح اور سوچ سمجھ کر کریں ۔ حق رائے دہی کا استعمال کرنا آپ کا بنیادی اور قانونی حق ہے اس کے لیے نہ ہی آپ کو کوئی روک سکتا ہے اور نہ ٹو ک سکتا ہے ۔ہمیشہ سے دیکھتے آرہے ہیں کہ باپ دادا کی روایت کو دیکھتے ہوئے لو گ اپنے علاقے کے جاگیر داروں، وڈیروں اور سرداروں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ جاگیر دار اور وڈیرہ تو اور زیادہ مضبوط اور سخت ہوجاتا ہے جبکہ غریب بے چارہ دن بہ دن غریب اور مظلوم بنتا جاتا ہے ۔ اس کی اہم وجہ ووٹ کا صحیح استعمال نہ کرنا ہے ۔مگر اب صورتحال تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔لوگ سیاسی طور پر اب زیادہ باشعورہوگئے ہیں اور اپنے علاقے میں ووٹ لینے آنے والے سیاستدانوں کا احتساب کرنا شروع کردیا ہے اور ان سے علاقے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں اور علاقے کے مسائل حل نہ ہونے کی وجوہات بھی جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کو مشکلات کاسامنا

512428_7363809_updates.jpg

20 جون 2018 کو مسلم لیگ ن کے سردار جمال لغاری کو اپنے حلقے کا دورہ کرنا مہنگا پڑگیا تھا ۔ہوا کچھ یوں کہ ڈیرہ غازی خان میں سردار جمال لغاری جب اپنے حلقے میں پہنچے تو وہاں موجود نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے سوالات بھی کرنا شروع کردیئے ۔ ایک نوجوان نے انہیں کہا کہ ہم نے آپ کو پورے پانچ سال بعد حلقے میں دیکھا ہے ،جس کا جواب جمال لغاری نے یہ دیا تھا کہ وہ ووٹ لینے نہیں بلکہ تعزیت کرنے کے لیے آئے ہیں تو اس پر وہاں موجود لوگوں نے کہا کہ پانچ برسوں میں اتنے لوگ مرے تو ان لوگوں کی تعزیت کرنا آپ کو یاد کیوں نہیں رہا ۔ سردار جمال لغاری کے غصہ ہونے پر ووٹر نے کہا کہ اس کا جواب ہم آپ کو 25 جولائی کو اپنے ووٹ کے ذریعے دیں گے ۔
مسلم لیگ کے بعد عوام نے اب پیپلز پارٹی ایم کیوایم اور دیگر جماعتوں کے لوگو ں کو آڑے ہاتھوں لینا اور ان سے پوچھ گچھ کرنا شروع کردی ہے۔

پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ بھی ’پھنس‘ گئے

512428_9275086_updates.jpg

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ یہ بیان دے کر پھنس چکے ہیں کہ جس نے ترقی دیکھنی ہووہ سندھ چلے۔یہی وجہ ہے کہ پنوعاقل کے دورےکے موقع پر بھی نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے 10 سال کی کارکردگی معلوم کی لیکن وہ کو ئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔

512428_1415580_updates.jpg

سندھ کےسابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بھی اپنے حلقے کا دورہ مہنگا پڑگیا ۔ ووٹرز نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا جس پر مراد علی شاہ پریشان ہوگئے اور انہیں اپنا آپ بچا نامشکل ہوگیا ۔مراد علی شاہ کو سیہون کےحلقہ پی ایس 80 میں انتخابی مہم کے دوران ان کی رہائش گاہ کےباہر ان کے ووٹرز نے گھیرا تھا۔

512428_4539948_updates.jpg

اسی طرح سے کراچی میں بھی لوگوں نے اپنے مسائل کے بارے میں اپنے منتخب نمائندوں سے پوچھنا شروع کردیا ہے جس پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے امیدوار بھی عوام کو ٹھیک طریقے سے مطمئن نہیں کرپارہے ۔ گزشتہ مہینے اورنگی ٹائون میں پانی کی کمی پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں عوام میں شدید غصے کی لہر نظر آئی ۔اس موقع پرلوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے پی ایس پی کے رہنما اور سابق ممبر سندھ اسمبلی سیف الدین خالد کا گھیرائو کرتے ہوئے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں زدو کوب کرنے کی کوشش بھی کی جس پر سیف الدین نے بڑی مشکل سے بھاگ کر اپنی جان بچائی ۔

512428_7641781_updates.jpg

کراچی میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نگی ٹاؤن کے دورےمیں جب عوام پانی نہ ملنے پر احتجاج کرتے نظر آئے تو مصطفی ٰکمال ان سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے پہنچے جس پر عوام نے اپنا ساراغصہ مصطفی ٰکمال پر اتار دیا اور ان پر انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کردی ۔

ایم کیو ایم کا ووٹر پریشان

512428_5875255_updates.jpg

ایم کیوایم کے بانی کی طرف سے الیکشن 2018 کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد جہاں ایک طرف ایم کیوایم کے ووٹر بائیکاٹ کی طرف جارہے ہیں وہیں دوسری طرف وہ ایم کیوایم رہنماؤں کی کارکردگی سے بھی مکمل مطمئن نظر نہیں آرہے ۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں میں اختلافات کے بعد بھی اس کا ووٹر پریشان نظر آرہا ہے اور نہیں ووٹ دینے اور نہ دینے کا فیصلہ نہیں کرپارہا ہے ۔

512428_6113542_updates.jpg

سندھ اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کے حلقے کے لوگ بھی کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آرہے ۔ حلقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے حلقے میں خواجہ اظہار دس سال میں دو مرتبہ منتخب ہوئے مگر وہ کوئی مسائل حل نہ کرسکے ۔ عوام کاکہنا ہے کہ علاقے میں نہ ہی پانی ہے اور نہ ہی علاج و تعلیم کی کوئی سہولت موجود ہے ۔

تحریک انصاف کو درپیش چیلنجز

پاکستان تحریک انصاف کوبھی الیکشن مہم کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ سب سے پہلے تو ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر ہی تحریک انصاف میں اختلافات واضح نظر آئے ، گذشتہ دنوں پی ٹی آئی کراچی کے دفتر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر کارکنا ن آپس میں گتھم گتھا ہوگئے اور مشتعل کارکنا ن نے نہ صرف پارٹی دفتر میں توڑ پھوڑ کی بلکہ اپنی قیادت کو خوب زدوکوب بھی کیا اور دفتر کی دیواروں پر پارٹی قیادت کے خلاف نعرے بھی درج کردیئے ۔


512428_6624667_updates.jpg

بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ این اے 245 پر عامر لیاقت کو ٹکٹ تو مل گیا مگر انہیں وہاں پر بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور حلقے میں انتخابی مہم کے لیے لگائے گئے عامر لیاقت کے پوسٹرز پر پی ٹی آئی کے کارکنان نے ان پر ٹکٹ چور کے اسٹیکرز آویزاں کردیئے اور حلقے میں ان کےخلاف خود پی ٹی آئی کے کارکنا ن نے مہم چلانا شروع کردی اور عامر لیاقت کو ٹکٹ چور قرار دے دیا ۔عامر لیاقت نے جب اپنی انتخابی مہم شروع کی تو کراچی میں انہیں عوام کی شدیدمخالفت کا سامنا کرناپڑا۔ بھنگوریہ گوٹھ اور پاکستان کوارٹر کے علاقوں میں ان کی عوام کے ساتھ مڈ بھیڑ بھی ہوئی اور عوام نے ان کے خلاف نعرے باز ی کرتے ہوئے انہیں مختلف’ القابات‘ سے بھی نوازا۔

512428_4465987_updates.jpg

پی ٹی آئی رہنما عارف علوی کے ساتھ بھی صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے ۔ تحریک انصاف سندھ کے صدر عارف علوی جب اپنے حلقے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے پہنچے تو وہاں پر انہیں بھی اپنے خلاف چاکنگ ہوئی نظر آئی اور حلقے کی عوام اور کارکنا ن کی مخالفت کاسامنا بھی کرنا پڑا۔اس ساری صورتحال سے یہ نظر آرہا ہے کہ عوام میں شعور پیدا ہوتا جارہا ہے اور اب لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے سے بدلا لینا چاہتے ہیں اور گمان یہ ہے کہ اس بار وہ کسی نئی جماعت یا رہنما کو حکومت کرنے کا موقع فراہم کریں گے ۔
 
Top