عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ممکنہ‘ باہمی گفتگو

جاسم محمد

محفلین
عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ممکنہ‘ باہمی گفتگو
عثمان جامعیاپ ڈیٹ 19 جولائ 2019

ہمارے وزیرِاعظم عمران خان امریکا کے دورے پر جارہے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی ملاقات 22 جولائی کو ہونا قرار پائی ہے۔

دونوں حکمرانوں میں بہت فرق ہے۔
  • ٹرمپ سرحد پر دیوار اٹھانے پر مُصر ہیں اور خان صاحب پاک بھارت سیما پر راہ داری بنا چکے ہیں۔
  • امریکی صدر کا وسیع کاروبار ہے اس لیے انہیں کسی جہانگیر ترین کی ضرورت نہیں، جبکہ وزیرِاعظم پاکستان کے پاس اپنی گاڑی تک نہیں سو ان کے لیے کوئی بدترین بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔
  • ڈونلڈ ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلی کے ایشو کو خاطر ہی میں نہیں لاتے اور عمران خان کی ماحول دوستی کا یہ عالم ہے کہ درختوں کی چھال سے بنے کاغذات ہی پر سہی مگر 5 ارب درخت اُگا چکے ہیں، سبزباغ ان کے علاوہ ہیں۔
ان تضادات کے ساتھ دونوں شخصیات میں ایک مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور وہ ہے معلوماتِ عامہ کا خاصا۔

ہمارے خان صاحب جرمنی جاپان کو ہمسایہ بنادیتے ہیں، ٹیگور کا قول خلیل جبران کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں تو بھائی ٹرمپ بھی کچھ کم نہیں۔ موصوف امریکا کے 16ویں صدر ابراہم لنکن سے کسی اور کا قول منسوب کرچکے ہیں۔ ’وہ شخص جس نے امریکا بنایا‘ کے زیرِ عنوان ہونے والے ایک ٹی وی شو میں ٹرمپ صاحب نے امریکا کی فولاد کی صنعت کے ٹائیکون آنجہانی Andrew Carnegie کو یہ اعزاز بخش دیا۔ اتنا ہی نہیں، ٹرمپ صاحب کی طبی معلومات کے مطابق گردہ دل میں پایا جاتا ہے۔

اب تصور کیجیے، دونوں ذی علم شخصیات کی ملاقات میں ان کے مابین غیر رسمی گفتگو کیا ہوگی؟ ہمارے خیال میں کچھ ایسا مکالمہ ہوگا:

ٹرمپ: مسٹر خان! فٹبال کی تاریخ میں آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

عمران خان: (حیرت سے) وہ کیوں؟ اچھا سمجھا، آپ میری نہیں پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔ شاید آپ کا اشارہ سیالکوٹ کی ٹینس کی گیندوں کی صنعت کی طرف ہے۔

ٹرمپ: (بوکھلاتے ہوئے) جی جی وہی۔

عمران خان: ہم ٹینس کی گیندیں بنانے کی صنعت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اب ہمارے ہاں روزانہ ایک ارب ٹینس کی گیندیں بنا کریں گی۔

ٹرمپ: واؤ۔ ویسے ٹینس سے یاد آیا پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹینشن دونوں ملکوں کے لیے خطرناک ہے۔ امن کے لیے آپ کو نتھورام گوڈسے کے عدم تشدد کے نظریے پر عمل کرنا ہوگا۔ (چہرے پر دُکھ کے آثار لاتے ہوئے) افسوس کہ امن کے داعی گوڈسے کو قتل کردیا گیا۔ کیا نام تھا اس کے قاتل کا؟ ہاں یاد آیا، گاندھی۔

عمران خان: (کچھ نہ سمجھتے ہوئے گردن ہلاکر) جی جی ہم وہی کر رہے ہیں۔ ہم تو امن پر یقین رکھنے والی قوم ہیں۔ خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، اسی لیے ہمارے ایک شاعر نے فرمایا تھا ’جا پڑوسی کے چولہے سے آگ لئی لے‘۔

ٹرمپ: بالکل، پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات ہونے چاہییں، اس سے آپ کے براعظم افریقہ میں خوش حالی آئے گی۔

عمران خان: (سُنی ان سُنی کرتے ہوئے) ہم بھارت کے ساتھ اسی طرح کے دوست ہمسائے بن کر رہنا چاہتے ہیں جیسے امریکا اور برطانیہ، جن کا آپس میں کوئی سرحدی تنازعہ نہیں۔

ٹرمپ: (اب حیران ہونے کی باری امریکی صدر کی تھی)۔ آپ کو افغانستان سے بھی تعلقات بہتر بنانے چاہییں اور بحری قزاقوں سے نمٹنے میں افغان حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔

عمران خان: (جُزبُز ہوتے ہوئے) افغانستان بحری قزاق؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ اوہ آپ یقیناً نیپال کی بات کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد نہیں ہم نے تامل بحری قزاقوں سے نمٹنے میں نیپالی حکومت کی بہت مدد کی تھی۔

ٹرمپ: (جھینپ کر) ہاں یاد آیا۔ مگر دوسری جنگِ عظیم میں پاکستان کو ہٹلر کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا۔

عمران خان: (سوچتے ہوئے) جی وہ نوازشریف نے ہٹلر سے ساتھ دینے کے پیسے لیے ہوں گے۔ ہم نیب سے اس کی بھی تحقیقات کرائیں گے۔

ٹرمپ: (مسکراتے ہوئے) جانے دیں، اب تو پُرانی بات ہوگئی۔ میں سوچتا ہوں ہٹلر کتنا پاگل تھا، اس نے اپنے ملک فرانس کو تباہ کردیا۔

عمران خان: صحیح کہا آپ نے جنابِ صدر، وہ تو روس نے ویتنام پر ایٹم بم برسادیے ورنہ یہ جنگ جانے کب تک چلتی۔ ویسے آپ کو بھی ایران سے تعلقات بہتر بنانے چاہییں۔ آپ کہیں تو میں ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی سے اس سلسلے میں بات کروں؟

ٹرمپ: مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ وہ بات چیت پر تیار ہوجاتے ہیں تو دونوں بھائی مل کر ایران کے دارالحکومت بغداد چلیں گے۔

عمران خان: لیکن اس سے پہلے مجھے ایران کے ہمسائے سعودی عرب سے بات کرنی ہوگی۔

ٹرمپ: تو پھر آپ جلد از جلد سعودی دارالحکومت دبئی جاکر شہزادہ زاید بن سلطان النہیان سے ملاقات کریں۔

عمران خان: ارے وہ اپنا بھائی ہے، پچھلی ملاقات میں ہماری بڑی اچھی گفتگو رہی۔ میں نے اسے خلیل جبران کی کتاب ’مسدس حالی‘ کے پورے پورے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور کہا دیکھو تمہارے ملک کے دانشور سے میں کتنی محبت کرتا ہوں۔ میری بات سن کر وہ بہت خوش ہوا۔

ٹرمپ: یہ تو کسی کو رجھانے کا بڑا اچھا حربہ ہے۔ میں بھی سعودی شہزادے سے ملاقات کروں گا تو اسے سعودی شاعر غالب کے اشعار سنا کر متاثر کروں گا۔

عمران خان: اور ایرانی صدر کو متاثر کرنے کے لیے آپ انہیں ایرانی گلوکار محمود درویش کے گانے سنائیے گا۔ میں نے یہی کیا تھا، مگر حیرت ہے وہ اپنے ہی ملک کے گلوکار کو نہیں جانتے۔

ٹرمپ: (مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے) اچھا خان صاحب، بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ میری طرح آپ کی بھی معلومات بہت وسیع ہیں۔

عمران خان: بس جی میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔ غرور کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔ وہ جو آپ کے امریکی شاعر شیکسپیئر نے کہا تھا ناں:

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

تو غرور کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔

ٹرمپ: کیا بات ہے (اپنے پیٹ پر ہاتھ مار کر) آج سے آپ یہاں میرے دل میں رہیں گے۔

اور پھر دونوں حکمراں ہاتھ ملاکر شاداں و فرحاں رخصت ہوجائیں گے۔
 
Top