عمران امریکی سازشی بیانیے سے دستبردار، واشنگٹن سے دوستی کے خواہاں

سید عمران

محفلین
عمران خان کے بھی بیرون ملک زرداری، شریفوں، باجوہ فیملی جتنے اربوں روپے کے اثاثے نکل آئے ہیں؟ اگر ایسا ہوا ہے تو واقعی یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو میں اس مضحکہ خیز بغض عمران تقابل کو گھر تک چھوڑ کر آؤں گا جو عمران خان کو بھی ’’باقیوں جیسا’’ کہنے پر مصر ہے۔ اور جب اسکی دلیل و ثبوت مانگو تو ایک گھڑی سے زیادہ الزام لگانے کو اور کچھ نہیں ملتا۔


سیما علی علی وقار محمد عبدالرؤوف محمد وارث نوید احمَد
امریکہ کی غلامی قبول کرنے کی وجہ سے کہا ہے!!!
 

جاسم محمد

محفلین
امریکہ کی غلامی قبول کرنے کی وجہ سے کہا ہے!!!
ایسی باتیں صرف عوام الناس کو بے وقوف بنانے کے لیے ہوتی ہیں انہیں سنجیدہ نہیں لینا چاہیے
امریکہ کی غلامی کس نے قبول کی ہے؟ وہ تو اس وقت حکومت میں بیٹھے ہیں۔ معروف زمانہ
beggars can't be choosers
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سنجیدگی سے صرف بے وقوف بنتے رہنا چاہیے!!!
ہر پارٹی کی حمایت ایک مناسب طریقے سے بھی کی جا سکتی ہے لیکن جب کسی پارٹی کے کارکنان اپنے لیڈر کو فرشتہ بنانے پر تل جاتے ہیں پھر زمین آسمان کے قلابے ملانے پڑتے ہیں۔ اور ان قلابے ملانے کے چکر میں عقل کا استعمال کم سے کم پڑنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بے وقوف بننا ضروری ہو جاتا ہے۔
"اک لفظ عقیدت کا اتنا سا فسانہ ہے"
 

علی وقار

محفلین
اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کا اب دوبارہ سیم پیج پر آنا کافی مشکل ہے۔ دونوں اطراف نے کشتیاں جلا دی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کو سویلین بالا دستی کسی صورت قبول نہیں۔ اور عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا موجودہ حکومت کیساتھ کھڑے رہنا کسی صورت قبول نہیں
اس ملک میں سکہ اسٹیبلشمنٹ کا ہی چلتا آیا ہے، اور بظاہر تا دیر چلے گا۔ کسی مغالطے کا شکار نہ ہوں۔ مزید یہ کہ سویلین بالادستی کی تحریک کسی سیاسی جماعت نے چلائی ہی نہیں ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے جی ایچ کیو کا سہارا لیتی ہے۔ تاہم، اتنا ضرور ہے کہ فوجی قیادت وقت کے ساتھ خود ہی سبق سیکھتی جا رہی ہے کہ انہیں غیر سیاسی بن کر دکھانا ہو گا، یا کم از کم ایسا تاثر دینا ہو گا۔ اس لیے ان پر دباؤ برقرار رہنا چاہیے اور بالآخر ، عالمی دباؤ، عوامی طاقت اور میڈیا کے پریشر وغیرہ کی مدد سے سویلین بالادستی کے مقصد کو کسی حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میثاق جمہوریت ایک راہ تھی مگر عمران خان نے اسے مک مکا قرار دیا تھا اور بظاہر اس موقف میں جان بھی تھی کیونکہ کرپٹ سیاسی جماعتیں آپس میں ہاتھ ملا رہی تھیں اور ان کا مطمح نظر اقتدار تھا، اور بعد میں ثابت ہوا کہ سویلین بالادستی ان کے پیش نظر نہ تھی۔ عوام نے بھی عمران (اور ان کی پشت پر موجود ملٹری اسٹیبلشمنٹ) کے بیانیے کو پذیرائی بخشی۔ رواں صدی کی دوسری دہائی میں نورا کشتی اور مک مکا کا بیانہ ہی عمران کی طرف سے پوری قوت سے دہرایا گیا اور ان کی مقبولیت ایسی ہوئی کہ خود اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ عمران کو دو ہزار تیرہ میں اقتدار سے باہر رکھا گیا جو کہ ان کا پرائم ٹائم تھا اور 2018 میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا گیا اور وہ اقتدار کے نشے میں ایسے مست ہوئے کہ انہیں انتقامی سیاست کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آیا۔ بالآخر انہیں ہٹا دیا گیا۔ ویسے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اور گزشتہ حکومت کی کارکردگی میں نمایاں فرق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اقتدار میں وہی رہے گا جس کو وہ اقتدار میں دیکھنا چاہیں گے اور ممکنہ طور پر وہ آئندہ بھی کمزور وزیراعظم کو اقتدار میں دیکھنا پسند کریں گے۔ عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ مگر اقتدار میں آنے کے لیے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے من پسند افراد کو پارٹی میں شامل کرنا پڑے گا یا انہیں پارٹی میں مزید برداشت کرنا ہو گا۔ جب تک ایسے عناصر پارٹی میں موجود ہیں تو شانت رہیں، عمران خان روایتی سیاست ہی کرتے رہیں گے اور ان سے کسی بڑے معرکے یا انقلاب کی توقع نہ رکھیں۔ ایسا کرنا شدید نادانی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران کو دو ہزار تیرہ میں اقتدار سے باہر رکھا گیا جو کہ ان کا پرائم ٹائم تھا اور 2018 میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا گیا
یہی تو ساری اسٹیبلشمنٹ گیمز ہیں۔ ۲۰۱۳ میں عمران خان ایک مقبول لیڈر تھا مگر اسے دھاندلی کر کے اقتدار میں آنے سے روکا گیا۔ پھر ۲۰۱۸ میں وہ اتنا مقبول نہیں تھا تو ن لیگ کیخلاف دھاندلی کر کے اسے اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ اب جب پی ڈی ایم غیر مقبول تھی تو ان کو اقتدار میں لے آئے۔ یوں جب تک عمران خان دوبارہ غیر مقبول نہیں ہو جاتا اس کے براستہ بوٹ اقتدار میں واپس آنے کا چانس صفر بٹا صفر ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ مگر اقتدار میں آنے کے لیے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے من پسند افراد کو پارٹی میں شامل کرنا پڑے گا یا انہیں پارٹی میں مزید برداشت کرنا ہو گا۔ جب تک ایسے عناصر پارٹی میں موجود ہیں تو شانت رہیں، عمران خان روایتی سیاست ہی کرتے رہیں گے اور ان سے کسی بڑے معرکے یا انقلاب کی توقع نہ رکھیں۔ ایسا کرنا شدید نادانی ہے۔
۲۰۱۸ سے ۲۰۲۲ تقریباً ۴ سال کافی عرصہ ہوتا ہے کسی بھی وزیر اعظم کے سیکھنے کیلئے۔ عمران خان روایتی سیاست نہیں کر رہا۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ۲۰۱۳ کا الیکشن وہ ہارا نہیں اسے ہرایا گیا تھا۔ جبکہ ۲۰۱۸ کا الیکشن وہ جیتا نہیں مگر اسے کمزور حکومت میں جوڑ توڑ کر کے بٹھایا گیا تھا جیسا کہ آج کل ن لیگ کے میاں جاوید لطیف اکثر گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کو حکومت میں زبردستی لایا گیا ہے 😂
باقی عمران خان اب اسٹیبلشمنٹ سے دوبارہ تعلقات قائم کر کے اقتدار میں واپس آنے کے خواہاں نہیں۔ وہ خالصتا صاف و شفاف الیکشن میں جیت کر واپس آنا چاہتے ہیں۔ یہ کسی صورت موجودہ حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں۔ اگلے عام انتخابات سے پہلے تک عمران خان کا کوئی نہ کوئی انتظام کر دیا جائے گا۔ تا حیات نااہلی کی صورت میں یا دوبارہ قاتلانہ حملے کی شکل میں۔ اسی لئے عمران خان پچھلے ۶ ماہ سے عوامی جلسوں میں کھجل خواری کر رہا ہے تاکہ وہ بوٹوں کی بجائے صرف عوام کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں واپس آ سکے۔
 

علی وقار

محفلین
باقی عمران خان اب اسٹیبلشمنٹ سے دوبارہ تعلقات قائم کر کے اقتدار میں واپس آنے کے خواہاں نہیں۔ وہ خالصتا صاف و شفاف الیکشن میں جیت کر واپس آنا چاہتے ہیں۔ یہ کسی صورت موجودہ حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں۔ اگلے عام انتخابات سے پہلے تک عمران خان کا کوئی نہ کوئی انتظام کر دیا جائے گا۔ تا حیات نااہلی کی صورت میں یا دوبارہ قاتلانہ حملے کی شکل میں۔ اسی لئے عمران خان پچھلے ۶ ماہ سے عوامی جلسوں میں کھجل خواری کر رہا ہے تاکہ وہ بوٹوں کی بجائے صرف عوام کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں واپس آ سکے۔
انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ درست بات کہ وہ فرشتے کہاں سے لائے مگر ان حواریوں کے ہوتے ہوئے مجھے عمران سے کوئی خاص توقع نہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے اشاروں پر چلتے ہیں اور عمران کو بھی گاہے بگاہے جی ایچ کیو کی راہ دکھاتے ہیں۔ آپ کو توقع ہو گئی، مجھے تو عمران سے کوئی توقع نہیں ہے جاسم۔ شاید وقت ثابت کر دے گا کہ عمران کی یہ حالیہ تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود ہمدرد عناصر کے اشارے پر چلائی گئی ہے جن کے اس تحریک کے پس پردہ اپنے مفادات تھے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہی تو ساری اسٹیبلشمنٹ گیمز ہیں۔ ۲۰۱۳ میں عمران خان ایک مقبول لیڈر تھا مگر اسے دھاندلی کر کے اقتدار میں آنے سے روکا گیا۔ پھر ۲۰۱۸ میں وہ اتنا مقبول نہیں تھا تو ن لیگ کیخلاف دھاندلی کر کے اسے اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ اب جب پی ڈی ایم غیر مقبول تھی تو ان کو اقتدار میں لے آئے۔ یوں جب تک عمران خان دوبارہ غیر مقبول نہیں ہو جاتا اس کے براستہ بوٹ اقتدار میں واپس آنے کا چانس صفر بٹا صفر ہے۔
پینتیس پنکچر والے بیانیے کو ایک سو پینتیس پنکچر لگ گئے اور آپ ابھی تک اسی پر سواری کرنے کے خواہاں ہیں۔ بس کر دو بھائی، خدا کا نام لو
 

جاسم محمد

محفلین
شاید وقت ثابت کر دے گا کہ عمران کی یہ حالیہ تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود ہمدرد عناصر کے اشارے پر چلائی گئی ہے جن کے اس تحریک کے پس پردہ اپنے مفادات تھے۔
جب کسی تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے سپورٹ حاصل ہو تو اس کا یوں میڈیا بلیک آؤٹ نہیں کیا جاتا۔ اس پر قاتلانہ حملے نہیں کروائے جاتے۔ عمران خان کا ۲۰۱۴ میں ۱۲۶ دن کا طویل دھرنا اور لبیک والوں کا ۲۰۱۷ میں فیض آباد پر خوفناک دھرنا ان اسٹیبلشمنٹ زدہ تحاریک کی اہم مثالیں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی لئے عمران خان پچھلے ۶ ماہ سے عوامی جلسوں میں کھجل خواری کر رہا ہے تاکہ وہ بوٹوں کی بجائے صرف عوام کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں واپس آ سکے۔
یہ بھی محض سراب ہی ہے۔ اول تو بوٹ بہادر یہ ہونے نہیں دیں گے اور اگر کوئی ایسی حکومت بن بھی گئی تو اس کو چلنے نہیں دیں گے۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہونا ہے:ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے اشاروں پر چلتے ہیں اور عمران کو بھی گاہے بگاہے جی ایچ کیو کی راہ دکھاتے ہیں۔
خود پر قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان جس صحافی سے بھی ملے اسے یہی کہا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی لئے وہ خود پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں ایک جنرل فیصل نصیر کا نام بھی ڈلوانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اب اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات کی بحالی کا باب بند کر دیا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
پینتیس پنکچر والے بیانیے کو ایک سو پینتیس پنکچر لگ گئے اور آپ ابھی تک اسی پر سواری کرنے کے خواہاں ہیں۔ بس کر دو بھائی، خدا کا نام لو
عمران خان ۲۰۱۳ کا الیکشن ہارا، دھاندلی کا الزام لگایا، مخالفین نہیں مانے
عمران خان ۲۰۱۸ کا الیکشن جیتا، اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگایا، مخالفین مان گئے
مخالفین پہلے کہتے تھے عمران الیکشن صرف اس لئے جیتتا ہے کہ فوج اس کیساتھ ہے۔ جب فوج اس کیخلاف ہوئی اور اس نے الیکشن جیتنا پھر بھی بند نہ کئے تو اب مخالفین کہہ رہے ہیں یہ مقبولیت عارضی ہے۔ بس کر دو بھائی۔ کتنا بغض عمران نکالو گے؟
علی وقار
 

جاسم محمد

محفلین
اول تو بوٹ بہادر یہ ہونے نہیں دیں گے اور اگر کوئی ایسی حکومت بن بھی گئی تو اس کو چلنے نہیں دیں گے۔
جو حکومت ۲۰۱۸ میں ایک پیج پر بنائی گئی تھی وہ چلنے دی گئی؟ اب کم از کم عوام کو پتا تو ہوگا کہ اگر بھاری اکثریت والی حکومت بھی چل نہیں پا رہی تو اس کے پیچھے کون سی قوت کار فرما ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خود پر قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان جس صحافی سے بھی ملے اسے یہی کہا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی لئے وہ خود پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں ایک جنرل فیصل نصیر کا نام بھی ڈلوانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اب اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات کی بحالی کا باب بند کر دیا ہے
شدید غیر متفق
 
Top