عمار کے لئے بطور خاص "میں"

"میں "

میں سے آغاز ہوئی خلوت بزم امکاں
میں کے اس آئینہ خانے کا ہے میں ہی یزداں
میں نے ظاہر کیا خود کو تو بنے ارض و سما
میں ہی آدم کی شروعات ہے میں ہی شیطان

میں نہ ہوتی تو نہ ہوتا کہیں اشیا کا ورود
میں کا آئین ہی ہے شرح عدم شرح وجود

میں کا امکان ہے یہ عالم صد آب و سراب
میں ہے سب میں وہ سمندر ہو کہ دریا کہ حباب
سامنے میں کے یہاں زانوئے دل تہہ کرکے
میں ہی پڑھ سکتے ہے مکتب میں فقط میں کی کتاب

زیر شمشیر الف میں ہی تو سر رکھتی ہے
یہ نظر رکھتی ہے ہونے کی خبر رکھتی ہے

میں وہ سودا ہے جسے سود وزیاں کچھ بھی نہیں
میں وہ مستی ہے جسے اندیشہ جاں کچھ بھی نہیں
وقت ہر چند مٹاتا ہے ہر اک شے کو مگر
میں ہے موجود جہاں وقت وہاں کچھ بھی نہیں

یہ وہ شے ہے کہ ہے ہر قید مکاں سے آزاد
یہ وہ آزاد و خودبیں کہ زماں سے آزاد

میں کی خلوت میں گم آفاق کی تنہائی ہے
میں کی خلوت تو خود اک انجمن آرائی ہے
میں کہ ظاہر سے پہاڑوں کی سی ہیبت ہے عیاں
مین کے باطن میں سمندر کی سی گہرائی ہے

میں جب آفاق کے پیالے سے چھلک جاتی ہے
ذات کے آئینہ خانے سے جھلک جاتی ہے

خواب میں چشم بھی میں خواب کی تعبیر بھی میں
رنگ بھی میں ہے مصور بھی میں تصویر بھی میں
میں کی حد سے کوئی جائے کا نکل کر کیسے
پاوں میں ہے کہ جنوں میں ہے کہ زنجیر بھی میں

اسی زنجیر کی کڑیاں ہیں مہ و مہر و فلک
اسی زنجیر کے قیدی بشر و جن و ملک

دل اگر میں ہے تو دل رب ہے کہ رب خود میں ہے
میں مسبب ہی نہیں میں کا سبب خود میں ہے
میں ہے کیا عشق جو کرتے ہیں وہ سب جانتے ہیں
کاسہ عشق میں یاں میں کی طلب خود میں ہے

میں تو اک بحر ہے کاسے میں سمائے کیسے
آپ سے جائے کہاں آپ میں آئے کیسے

میں زمیں میں ہے زماں میں ہے مکاں میں ہے مکیں
باغ ہستی میں نہیں کوئی بھی گل میں سا حسیں
کوچہ حسن میں میں گھومتی ہے کاسہ بدمست
کاش مل جائے اسے بھیک میں چشم خود بیں

خود کو دیکھے تو کھلے اس پہ کہ حیرت کیا ہے
میں کی یہ جلوہ گہ کثرت و وحدت کیا ہے

ہاں سنو عہد میں عہد کا معبود بھی میں
ذات پروانہ بھی میں شمع بھی میں دود بھی میں
میں کی دہلیز پہ ہے سجدہ کناں میں کی جبیں
خالق و خلق بھی میں ساجد و مسجود بھی میں

میں اگر عبد کی معبود کی میں سے مل جائے
چاک در چاک یہ آدم کا گریباں سل جائے

میں لگاتی ہے یہ نعرہ پس ہر نعرہ ہو
تو مرا تو ہے سر ہستی دل میں ترا تو
میں جب اک عالم ثبات میں میں سے گزری
تو کی صبا سے لبالب ہو تب میں کو سبو

تو میں رہتے ہیں جو گم آپ میں دونوں میں تھے
رقت یا بود نہ تھے عشق میں دونوں ہیں تھے

بار ہفت آسماں سر پر یہ لئے گھومتی ہے
اپنی ہی ذات میں گم شام و سحر چھومتی ہے
کہکشاوں سے بھی آگے ہے کہیں اس کا گزر
کبھی افلاک کبھی خاک زمیں چومتی ہے

یہ نہ معبد میں نہ مندر میں نہ درگاہ میں ہے
یہ تو اک سیل ہے اور دل کی گزرگاہ میں ہے
 
ماشاء اللہ جی۔ آج کل مجھ پر خاص لطف و عنایات کی بارش ہورہی ہے۔ :) بہت شکریہ۔
ویسے یہ پڑھ کر سر ڈاکٹر اقبال کی شکوہ اور جواب شکوہ کی یاد آگئی۔ اس کا انداز بھی اسی طرح ہے نا۔
 

زینب

محفلین
ماشاء اللہ جی۔ آج کل مجھ پر خاص لطف و عنایات کی بارش ہورہی ہے۔ :) بہت شکریہ۔
ویسے یہ پڑھ کر سر ڈاکٹر اقبال کی شکوہ اور جواب شکوہ کی یاد آگئی۔ اس کا انداز بھی اسی طرح ہے نا۔



مجھ تو تم اجکل روٹھی ہوئی "محبوبہ" لگ رہے ہو:grin:
 

زینب

محفلین
ہی ہی زیادہ خوش نا ہو۔۔۔۔میرے تمہارے پہلے خیالات ملتے تھے اب نہیں اب تو تمہیں دیکھ کے مجھے خیال اتا ہے

"میرے دوست قصہ یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔۔سناااااا ہے کہ تو بےوفا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ واہ ۔۔۔ بہت خوب جناب

شاعر کا نام لکھنے کی زحمت بھی گوارا کرلیجئے بہتوں کا بھلا ہوگا
 
Top