علی پور کا ایلی(786 تا 815)

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 786 تا 815

کر اوپر چڑھنا تقریباّ ناممکن تھا۔ وہ سب ایک دوسرے پر آوازے کس رہے تھے، پھبتیاں اڑا رہے تھے۔ اس کے باوجود ایلی وہیں ایک تاریک کونے میں کھڑا تھا۔ وہ اس گھات میں تھا کہ کب کوئی دروازہ دکھائی دے جو لوگوں کی نگاہوں سے دور ہو، اوٹ میں ہو اور وہ آنکھیں بند کر کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر سیڑھیاں چڑھ جائے۔ اس کا عزم اور بھی مضبوط ہوا جا رہا تھا۔ اس عزم کی وجہ حصولِ لذت نہ تھی۔ وہ خواہش کی شدت سے بیقرار نہ تھا۔ بلکہ ان حالات میں لذت اور عیش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس وقت ایلی خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کے چنگل میں بری طرح پھنسا تھا۔ ان کسبیوں کی طرف دیکھ دیکھ کر اس نے نفرت سے کئی بار جھرجھری لی تھی اور اب وہ نفرت اس قدر شدید ہو چکی تھی کہ اس کوڑے مار رہی تھی۔ اور مظلوم حبشی کی طرح کوڑے کھا کھا کر وہ خود کو مشتعل کئے جا رہا تھا۔

وہ کسبیاں در حقیقت اس وقت ایلی کی نگاہ میں وہ رنڈیاں نہ تھیں بلکہ اس ہائی کورٹ کی جج تھیں جہاں وہ آخری اپیل پیش کرنے جا رہا تھا۔

“ مجھ میں لت پت ہونے کی ہمت ہے۔“

اس وقت وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے میں نے دارو پی رکھی ہو۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ اس کی نگاہوں میں ستارے ٹکرا رہے تھے۔ غلیظ جسموں سے گندگی کی بوچھاڑیں اڑ رہی تھیں۔ کٹے ہوئے سر ڈھیر ہوئے جا رہے تھے۔ خون بہتا ہوا خون - بازو اٹھے ہوئے تھے۔ ہاتھ ٹٹول رہے تھے۔ ہتھنیوں کی سونڈیں اس کی طرف بڑھ رہی تھیں تاکہ اسے گرفت میں لے لیں۔

پھر دفعتاّ ایک چیخ سنائی دی کسی کٹے ہوئے دھڑ کی چیخ ۔ تمام فضا سرخ ہو گئی۔ وہ کونے سے یوں باہر نکل آیا جیسے اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو۔ جیسے کسی کے دیکھنے یا نہ دیکھنے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔

زینہ چڑھتے ہوئے اس نے نیچے شوروغل کی آواز سنی۔ وہ رک گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور نعرہ لگایا “ لت پت زندہ باد۔“

ایلی کی نگاہ اوپر کی طرف اٹھی۔ اوپر دروازے پر بھدا بدنما چہرہ اس کر طرف گھور رہا تھا۔ چاروں طرف سے چیچک کے داغوں کو بوچھاڑ پڑ رہی تھی۔

پھر وہ بدنما بھدا بدنما چہرہ پھیلنے لگا۔ گویا چیچک کے داغوں کا بھرا تھال کسی نے اندیل دیا ہو۔ پسینے اور گوشت کی مکروہ بو۔ سر کٹ کر نہ جانے کہاں گر گیا، لاش ۔ ٹھنڈے گوشت کی عظیم بدنما لاش۔

مظلوم حبشی نے کوڑوں کی ایک بوچھاڑ محسوس کی - بُو کا ایک ریلا آیا۔ جوش اور غصے میں اس نے آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگا دی۔ تعفن کی وجہ سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ چھینٹے اڑ رہے تھے۔ اور پھر ایک ہوائی ------

زن --------

اور پھر وہ ننگے فقیر کی طرح کیچڑ میں لت پت تھا۔ شرم سے اس کی گردن لٹک گئی تھی۔ اسے اپنے آپ سے گھن آ رہی تھی۔

گوشت کا بدنما سمندر لپٹ رہا تھا۔ ایک کریہہ منظر چہرہ ابھر رہا تھا۔ بدنما دانت، رینگتی ہوئی منحوس آنکھیں۔

پھر کوئی اسے تسلی دے رہا تھا۔ اپنا گھر ہو اپنی عورت ہو۔ اپنی بوتل ہو اپنا گلاس ہو۔ یہ چیز چسکیاں بھرنے کی ہے۔ غٹاغٹ کی نہیں۔

“ یہ محبت کا کھیل ہے۔ سودے کا نہیں۔ محبت کا --- “

“ پہلے پہل ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔“

“ پہلے پہل لاٹھی مارنے کا شوق ہوتا ہے۔ لاٹھی تو ٹیک ٹیک کر دھری جاتی ہے۔“

ایلی کو اپنے آپ سے بُو آ رہی تھی۔ اس کمرے سے وحشت ہو رہی تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ سر اٹھا کر دیکھتا کہ کون اسے تسلیاں دے رہا ہے۔ اس کی باتیں سننے کی اسے فرصت نہ تھی۔ چسکیاں بھرنا، ٹیک ٹیک کر چلنا یہ سب اس کے لیے بے معنی تھا۔ ایلی یوں محسوس کر رہا تھا جیسے گندم کا دانہ کھانے کے بعد وہ ننگا ہو۔ احساسِ گناہ اور احساسِ پستی چاروں طرف یورش کر رہے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی بوتل اپنا جام

پھر وہ سٹیشن کی طرف بھاگ رہا تھا۔ ڈیڑھ بجے جانے والی گاڑی کے لیے بے تاب تھا۔

گاڑی میں لاشیں پڑی تھیں۔ ان کے اوپر چادریں پڑی تھیں۔ مگر نیچے وہ سب ننگی تھیں۔ بڑے بڑے ڈھکے ہوئے تھال جن میں سے چیچک کے داغ نکل کر چاروں طرف ڈھیر ہونے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ لیٹ گیا۔ جیسے خود ایک لاش ہو۔ کٹے سر کی لاش، تعفن اور بدبو سے بھری گلی سڑی لاش۔

جب وہ محلے میں پہنچا تو تین بجے تھے۔ فرحت کی ڈیوڑھی بند تھی۔ وہ وہاں بیٹھ گیا۔ تھک کر بیٹھ گیا۔

شاید شہزاد کا دروازہ کھلا ہو۔ اسے دو ایک مرتبہ خیال آیا۔ لیکن وہ شہزاد کی طرف جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس سے بو آ رہی ہے اور وہ اب اس قابل نہیں کہ شہزاد کی طرف جائے۔ ایک کراہتے ہوئے مظلوم حبشی کا قصر شاہی میں ملکہ کے روبرو جانے سے کیا مطلب۔

دیر تک وہ وہاں بیٹھا رہا۔ پھر اس نے سوچا۔ دیکھوں تو سہی ----- چاہے اندر نہ جاؤں، پر دیکھوں تو سہی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔

شہزاد کا دروازہ بند تھا۔ اس انے آہستہ سے اسے آزمایا شاید کھل جائے۔

“ کون ہے؟“ اندر سے رابعہ کی آواز آئی۔ وہ خاموش رہا۔

“ کون؟“ رابعہ پھر چلائی۔

“ میں ہوں ایلی “

“ تو ہے ایلی۔ “ وہ بولی “ ٹھہر ذرا۔“

دروازہ کھل گیا۔ وہ چپکے سے اوپر چڑھ گیا۔ چوبارے کے سامنے صحن میں صرف دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک پر بچیاں پڑی تھیں، دوسری پر شہزاد تھی۔ وہ بے خبر سو رہی تھی۔ ایلی نے چاروں طرف دیکھا۔ لیکن بیگم کی چارپائی کہیں دکھائی نہ دی۔ پھر وہ چوبارے کے اندر گیا۔ دوسرے چوبارے میں، اور بالاخر چھت پر چڑھ گیا لیکن بیگم کا کہیں نشان نہ تھا۔

واپس آ کر وہ شہزاد کے قریب کھڑا ہو گیا۔ وہ یوں پڑی تھی جیسے جھوٹ موٹ آنکھیں موند رکھی ہوں اور ویسے جاگتی ہو۔ اس کی پیشانی کا تل چمک رہا تھا۔ بازو چھاتی پر رکھے ہوئے تھے۔ قمیض کے بٹن کھلے تھے۔ کتنا روشن جسم تھا۔ جیسے پھولوں سے بنا ہو۔ عجیب سی باس آ رہی تھی۔

“ یہ تو محبت کا کھیل ہے “ ------- کوئی آہستہ سے بولی۔

“ اپنی بوتل ہو اپنا گلاس ہو۔“

شہزاد کا جسم یوں دکھائی دے رہا تھا -------- جیسے بوتل ہو۔

جام بھرنے کے لیے بوتل الٹی ہوئی تھی۔

“ غٹ غٹ نہیں۔“ کسی نے اس کے کان میں کہا “ یہ تو چسکیاں لینے کی چیز ہے۔“

شہزاد نے کروٹ لی اور ہاتھ سینے سے اٹھائے۔

ایلی کی نگاہ کھلے بٹنوں پر پڑی ------ حیرت اور خوشی سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

ایلی بھول گیا کہ اس سے تعفن بھر بو آتی تھی۔ وہ بھول گیا کہ اس کے جسم سے چیچک کے داغ ابھی چمٹے ہوئے تھے۔ وہ قریب تر ہو کر بیٹھ گیا۔

“ اونہوں “ کسی نے اس کے کان میں کہا “ لاٹھی تو ٹیک ٹیک کر رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔“

ایلی نے آنکھیں بند کر لیں اور ٹیک ٹیک کر لاٹھی رکھنے لگا۔ قریب اور قریب اور قریب ------ خوشبو کا ایک ریلا آیا۔ نرم نرم لمس ------ ایک جھرجھری۔

بازو اٹھے اور اس کے گرد حمائل ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مبلغ علم

اگلے روز ابھی وہ سویا ہوا تھا کہ علی احمد کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا ہوا تھا کہ چونکہ ملازمت ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ اور گورنمنٹ نئے آدمی بھرتی کرنے کی بجائے تخفیف کی اسکیمیں بنا رہی ہے۔ لہذا ایلی کو چاہیے کہ وقت ضائع نہ کرئے اور سنٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کرئے تاکہ اسے ٹیکنیکل تعلیم حاصل ہو جائے اور ملازمت ملنے میں آسانیاں پیدا ہوں۔

سٹینو گرافی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایلی کے دل میں بڑی امیدیں تھیں۔ اس زمانے میں سٹینو گرافر بہت کم یاب تھے اور پھر بی اے سٹینو گرافر کا ملنا تو قطعی طور پر مشکل تھا۔ ایلی کا خیال تھا کہ اسے ملازمت مل جائے گی۔

ایلی نے کئی ایک محکموں میں درخواستیں دے رکھی تھیں۔ دو ایک جگہ سے اسے انٹرویو کا خط بھی آیا تھا مگر یہ خط اسے انٹرویو کے دن کے بعد موصول ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ دفتر والوں نے اسے محروم رکھنے کے لیے وہ خط دیر سے حوالہ ڈاک کئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسلمان تھا۔ اور دفتروں پر ہندووں کا راج تھا۔ یا شاید دفتر والے اپنے آدمیوں کے لئے مواقع پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ایک جگہ وہ وقت پر انٹرویو میں پہنچ گیا تھا۔ لیکن جب وہ پولیس کا سب انسپکٹر انہیں ڈکٹیشن دے رہا تھا تو ایلی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس زبان میں بول رہا ہے۔ اس کی زبان انگریزی، پشتو اور پنجابی کا مرکب معلوم ہو رہی تھی۔ لہذا اس نے کورا پرچہ رکھ دیا تھا اور پھر خود ایک ٹین کے سینما ہاؤس میں جا کر تماشہ دیکھنے لگا۔ محکمہ ریل کے ایک انٹرویو میں اسے ایک لڑکی سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔

یہ بڑے صاحب کی آرام کرسی کے ایک بازو پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اور بڑا صاحب ہنس کر ایلی سے پوچھ رہا تھا “ تم اس سے مقابلہ کر سکو گے۔“ ایلی نے جواب دیا تھا صاحب خطوط کی گولائیوں میں تو نہیں البتہ سپیڈ میں کوشش کروں گا اور بڑے صاحب نے قہقہہ لگا کر لڑکی سے کہا تھا۔ “ سنا تم نے کیا کہہ رہا ہے یہ۔“ اور وہ مسکرا دی تھی اور پھر اس نے ایلی پر ایک پیار بھری نگاہ ڈالی تھی ایسی نگاہ کہ ایلی کا دل چاہا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر صاحب سے کہہ دے “ حضور میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس مقابلے میں امیدوار تصور نہ کیا جائے۔“ اس کا نام روزی تھا۔ اور اس کے کپڑوں سے وہائیٹ روز کی خوشبو آ رہی تھی۔ پھر صاحب قہقہہ مار کو ہنسے تھے۔ “ہمیں تم پسند آئے ہو کیا نام ہے تمہارا۔ اگر اب کوئی جگہ خالی ہوئی تو ہم تمہیں بلائیں گے۔ اپنا پتہ دفتر میں چھوڑ جانا۔“ پھر وہ روزی سے کہہ رہے تھے “ مس روزی اب اس سے ہاتھ تو ملا لو۔“ اور ایلی یوں باہر نکلا تھا۔ جیسے اسے نوکری کے لیے چن لیا گیا ہو۔ اس روز وہ اتنا خوش تھا کہ غم غلط کرنے کے لیے اس ٹین کے سینما ہاؤس جانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔

اتنی بار کوشش کے باوجود وہ کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ اب تو ایلی واقعی مایوس ہوا جا رہا تھا ۔ اگرچہ نوکری پر جانے کی اس میں قطعی طور پر کوئی خواہش نہ تھی ------ ہاں اگر سادی ہوتی ------ اگر ابا انکار نہ کرتے، اگر منصر سے تعلق قائم رہتا تو۔

لیکن اب ------ خصوصاّ جب اسے اپنی بوتل اور اپنے جام سے واقفیت ہو چکی تھی۔ جب وہ چسکیاں لینا سیکھ رہا تھا۔ جب وہ لاٹھی ٹیک ٹیک کر چلنے سے واقف ہو رہا تھا اب نوکری کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اماں اور بہن شدت سے مصر تھیں کہ وہ داخلہ لے لے۔اور شہزاد ہنس ہنس کر کہہ رہی تھی۔ “ دو گھنٹے کا تو فاصلہ ہے۔ صرف دو گھنٹے کا خواہ مخواہ کیوں رونی شکل بنا رکھی ہے تم نہ آ سکو گے تو میں جو ہوں۔ میرے پاؤں مہندی لگی ہے کیا۔ اب تو ہاتھوں کی بھی اُڑ گئی۔ جب تجھے ہی اچھے نہیں لگتے تو پھر کیوں رنگوں میں اپنے ہاتھ۔“

“ سنٹرل ٹریننگ کالن میں جب وہ ایڈمشن بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو اس کے کوائف پڑھ کر سب ہنسنے لگے۔

“ ہاں تو آپ کا نام الیاس آصفی ہے۔“

“ جی “ ایلی نے جواب دیا۔

“ اور کیا ہم جان سکتے ہیں کہ آپ یہاں کیوں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔“

“ میں استاد بننا چاہتا ہوں۔“ وہ بولا۔

“ آخر کیوں۔“

“ یہ ایک نوبل پروفیشن ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ یہ آپ نے کب جانا کہ ٹیچنگ نوبل پروفیشن ہے۔“

“ جی جی ------ “ وہ رک گیا۔ یہ تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ دیر سے میرا مطلب ہے میرے تمام بزرگ درس و تدریس میں ------ “

“ استاد بننے کی خواہش کب سے آپ نے محسوس کی۔“ ایک اور صاحب نے وضاحت کی۔

“ یہ تو میری پرانی خواہش ہے۔“ ایلی نے کہا۔

“ تو پھر آپ نے پچھلے سال سٹینو گرافی کیو سیکھی۔“

“ جی - جی - میرا مطلب ہے۔“ ایلی کھسیانہ ہو کر رہ گیا۔

“ نوجوان۔“ ایک اور صاحب بولے “ آپ سٹینو گرافر ہیں، بی-اے ہیں، آپ کو معقول نوکری مل سکتی ہے۔ لہذا یہاں داخلہ لینا بےکار ہے۔“

ایک اور صاحب بولے۔ ایسے کیسسز پر غور کرنا غلطی ہو گی۔ اس نوجوان نے بی-اے اکنامکس اور فلسفہ میں کیا ہے اور یہ دونوں مضامین سکول کے مضامین نہیں۔ یہاں ٹریننگ میں آپ کون سے مضامین لیں گے۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہو کر بولا۔

“ جی میں سائنس لے سکتا ہوں۔ میں نے دسویں سائنس ڈرائینگ میں پاس کی تھی۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ جنٹلمین “ کونے میں بیٹھا ہو انگریز پروفیسر بولا۔ “ تمہارا سائنس کا مبلغ علم۔“ اس نے چٹکی بھری اور کہا۔ “ سمجھ لو اس سے بھی کم ہے۔“

ایلی کو علم نہ تھا کہ وہ آرم سٹرانگ تھا اور سائنسی تحقیق میں بین الاقوامی حثیت رکھتا تھا۔

“ حضور “ ایلی چلایا “ میرے والد اور دادا عمر بھر پڑھانے کا کام --------- “

“ پڑھانا تم نے ہے۔“ بورڈ کے صدر نے کہا “ تمہارے والد نے نہیں۔“

ایلی کچھ کہنے کے لیے سوچ رہا تھا کہ صدر بولا۔ “ یو مے گو، نکسٹ ون۔“
 

شمشاد

لائبریرین
بیٹن لشٹ

تمام امیدواروں کو کالج کے ہوسٹل میں رہنے کی اجازت تھی۔ وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ اس روز ہوسٹل میں شور مچا ہوا تھا۔ بہت سے امیدوار جنہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اپنا سامان باندھنے میں مصروف تھے۔ ایلی بھی اپنا بستر باندھ رہا تھا کہ ڈارمیٹری کا نوکر گاما ادھر سے گزرا۔

“ ارے گامے “ وہ چلایا “ یار آخری مرتبہ کی چائے تو پلا دے۔ سٹرانگ ہو۔“

ایلی کے انداز گفتگو میں صاحبیت کا عنصر نہ تھا۔ عام طور پر امیدوار نوکروں سے یوں بات کیا کرتے تھے جیسے کوئی گورا کالا میں سے بات کر رہا ہو۔ وہ سب بی-اے، ایم-اے اور چونکہ نئے تھے، لہذا انہیں اپنی عظمت کو شدت سے احساس تھا۔

ایلی میں نہ جانے کیوں یہ بات کبھی پیدا نہ ہو سکی تھی۔ اس لئے نوکر یا ایسے ہی دوسرے ان پڑھ لوگ عام طور پر ایلی سے خوش رہا کرتے تھے۔

“ آخری مرتبہ کیوں بابو جی۔“ گاما نے پوچھا۔

“ ارے یار گامے ہمیں تو چھٹی مل گئی۔“

“ نہ بابو جی مجاک نہ کرو۔“ وہ بولا۔

“ ارے ٹھیک کہہ رہا ہوں بیوقوف اپنا تو پتہ کٹ گیا۔“ ایلی چلایا۔

“ میں نے کہا بابو جی۔“ وہ جھجھکتے ہوئے بولا۔

“ کیا ہے ؟“

“ جو میں ایسی ترکیب لڑا دوں کہ بات بن جائے تو۔“

“ بیوقوف “ ایلی ہنسا۔ “ ابے ہمارے والد صاحب نے چار سفارشیں پہنچائی تھیں۔ ایک نہیں پوری چار، سب بیکار گئیں۔ تو کیسی ترکیب لڑائے گا۔“

“ اگر جو میری بات مانو تو سمجھ لو بات پکی ہے۔“ گاما نے دانت نکالے۔

“ کیا “ ایلی ہنسا۔

“ بس یہاں سے جاؤ نہیں، بیٹھے رہو۔ آرام سے بیٹھے رہو بابو جی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

“ یعنی خواہ مخواہ بیٹھا رہوں۔ لوگ کیا کہیں گے۔“

“ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ کسی کو معلوم ہی نہیں ہو گا۔ گامے نے کہا۔

“ اور اگر سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا۔“

“ تو کہیے گا بیٹن لشٹ پر ہوں۔“

“ بے ٹن لشٹ؟“ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔

“ وہ کیا کہتے ہیں اسے جن کا پھیسلہ ابھی نہیں ہوا۔۔“ گامے نے وضاحت کی۔

“ اچھا۔“ ایلی ہنسا۔ “ویٹنگ لست۔“

“ جی “ گاما نے دانت نکالے۔ “ بات پکی سمجھو بابو جی۔ مجھ پر اقین کرو۔“

“ کتنے دن رہنا پڑے گا یہاں۔“

“ بس یہی آٹھ روج۔“

اس روز تو ایلی رک گیا لیکن اگلے روز اسے خیال آیا کہ ایک جاہل نوکر کی بات یوں اس جگہ آٹھ روز پڑے رہنا اونہوں۔ اس نے پھر سامان باندھنا شروع کر دیا۔ لیکن گامے کے اصرار پر پھر رک گیا۔ پھر اسے خیال آیا چلو جانے کی جلدی کیا ہے۔ بیٹن لشٹ نہ سہی آٹھ روز سینما ہی دیکھو۔

روز باقاعدہ وہ کالج میں جاتا۔ بی ٹی کی کلاس میں تو بہت کم لڑکے تھے لیکن ایس-اے-وی میں گویا گھمسان کا رن پڑا رہتا تھا۔ اس لیے وہ ایس-اے-وی میں جا گھستا۔ اور پچھلی سیٹوں پر بیٹھ کر شریر لڑکوں کے ساتھ بینچ بجاتا ------ بوٹ زمین پر گھساتا اور منہ بند کر کے گلے سے شی شی کی آوازیں پیدا کرتا۔

وہاں اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ کلاس میں گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی ------ وہ گھبراہٹ جو بی-اے تک محسوس کرتا رہا تھا۔ وہ پرانا احساسِ کمتری شدت کھو بیٹھا تھا۔ یا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بیٹن لشٹ پر ہونے کی وجہ سے وہ اسے محض تفریح سمجھ رہا تھا۔

کلاس میں جب ہنگامہ ہوتا تو پروفیسر غصے میں آ کر حاضری کا رجسٹر منگوا لیتا اور پھر ان لڑکوں سے پوچھتا جن کے نام رجسٹر میں درج نہیں تھے کہ وہ جماعت میں کیوں بیٹھے ہیں۔ اس پر باری باری لڑکے اٹھ کر اپنی شان نزول کی وجہ تسمیہ بتاتے۔

“ صاحب میرے کیس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔“

“ میرا کیس ابھی زیر غور ہے۔“

“ جی میرا نام تو چنا جا چکا ہے۔ ابھی رجسٹر میں اندراج نہیں ہوا۔“

پہلی مرتبہ جب ایلی سے پوچھا گیا اس نے جواب میں کہا۔ “ جناب میں بیٹن لشٹ پر ہوں۔“

“ بیٹن لشٹ۔“ پروفیسر نے دہرایا لڑکوں نے قہقہہ لگایا۔

“ تمہیں کس نے بتایا کہ تم ویٹنگ لسٹ پر ہو۔“ پروفیسر نے پوچھا۔

“ جناب مجھے گامے نے بتایا ہے۔“ ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

“ گاما ------ “ پروفیسر بھگت سنگھ گھبرا گیا۔ “ گاما کون۔“

“ ہمارا باورچی۔“

اس پر جماعت کے لڑکے قہقہہ مار کر ہنسے۔ ڈسکیں بجنے لگیں۔ سیٹیوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور پروفیسر بھگت سنگھ غصے سے احتجاجاّ کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد سبھی شور مچا رہے تھے۔ “ ارے وہ بیٹن لشٹ کون سا ہے۔“ وہ سب محبت اور احترام بھری نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ کلاس میں نگاہوں کا مرکز بننے میں کتنی لذت ہے۔

لیکن یہ سب کچھ محض تصنع تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ایلی کا وہ حجاب اٹھ گیا تھا لیکن بنیادی طور پر وہ ابھی تک وہی ایلی تھا۔ احساسِ کمتری کا مارا ہوا، ڈر اور خوف کے جذبات کا شکار ایلی۔

آٹھ روز کے بعد کالج پندرہ دن کے لیے بند ہو گیا۔ پھر دفعتاّ ایلی کو خیال آیا کہ وہ تو ابھی تک بیٹن لشٹ پر ہی تھا۔ اسے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا کہ ایک نوکر کے کہنے پر وہ اپنے آپ کو احمق بنائے ہوئے تھا۔

“ صرف ایک روج کے لیے بابو جی۔“ گاما اس کی منتیں کر رہا تھا۔ “جب کالج پھر کھلے تو صرف ایک روج کے لیے یہاں آ جائیں صرف ایک روج کے لیے۔ جہاں اتنے روج گجارے ہیں صرف ایک روج اور۔ اگر آتے ہی بات نہ بنی تو سجا چاہیں دیں پر جو بن گئی تو ٹھونک بجا کر انعام لوں گا۔“

“ لیکن یہ ہو گا کیسے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ بس یہ نہ پوچھئے۔“ گامے نے جواب دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پایا کھویا

علی پور پہنچنے کے بعد دوسرے چوتھے روز شہزاد نے ایلی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اسے پلنگ پر بٹھا دیا اور خود پاس کھڑی ہو کر سنجیدگی سے کہنے لگی۔

“ایلی یہ تمہیں کیا ہو گیا۔“

“ کیا ہو گیا ہے۔“ اس نے حیرت سے دہرایا۔

“ یہ تم کیا کر رہے ہو؟“

“ کیا کر رہا ہوں ------ بیٹھا ہوں۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ بات کو مذاق میں نہ ٹالو۔“ وہ بولی۔ “ جب سے تم امرتسر سے آئے ہو تمہارا انداز ہی بدل گیا ہے۔ نگاہ بدل گئی ہے ------ تم نے مجھے کیا سمجھا ہے ایلی ------ “

شہزاد کی آواز جذبات سے کانپ رہی تھی۔

“ میں سمجھتی تھی تمہیں مجھ سے محبت ہے۔“ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ “ چلو محبت نہ سہی۔ مجھ سے محبت کون کرتا ہے۔ اور۔ اور میرے پاس اب ہے ہی کیا جو میرے ساتھ محبت کی جائے۔ لیکن لیکن پھر بھی میرا خیال تھا کہ تمہارے دل میں میری عزت ضرور ہے۔ لیکن۔“ شہزاد کی ہچکی نکل گئی۔

“ آخر بات کیا ہے۔“ ایلی نے گھبرا کر پوچھا۔

“ بات “ وہ غصے میں بولی۔ “ تم تو مجھ سے یوں سلوک کرنے لگے ہو جیسے میں بازار میں بیٹھی ہوں۔ جیسے۔“ ------ وہ رک گئی۔ “ بازار میں بیٹھی ہوئی بھی یہ برداشت نہ کر سکے گی۔“

“ راہ چلتے ہوئے چھڑتے ہو۔ انگلیاں کھبوتے ہو۔ ہاتھا پائی کرتے ہو۔ سب کے سامنے اعلانیہ ------ “ وہ رک گئی۔

ایلی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جواب دے۔ “ میرا خیال تھا کہ تم میں جرات ہے۔“ اس نے سوچ کر کہا۔

“ جرات۔“ وہ ہنسی۔ “ جرات کی بات کر رہے ہو۔ مجھ میں وہ جرات ہے کہ تم سب منہ میں انگلیاں ڈال لو۔ جرات چھوٹی اور گری ہوئی باتوں میں نہیں ہوتی۔ تم نے ہمارا تعلق چھوٹی اور گری ہوئی بات بنا دیا ہے۔ کیا ہوس کے لیے جرات پیدا کروں۔“

اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

“ روتی کیوں ہو۔“ ایلی کچھ کہنے کے لیے بولا۔

“ روؤں نہ تو کیا کروں۔“ وہ بولی “ میں سمجھی تھی کچھ پایا ہے اب معلوم ہوا کہ کھویا ہے۔ ------ پایا نہیں۔“

“ تم سمجھتے ہو میں تمہاری طرف اس لیے بڑھی تھی کہ مجھے ہوس پوری کرنے کا شوق تھا یا جسم کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ہوس تھی ------ الٹا میں نے تو ہوس پوری کرنے کے ذریعے سب توڑ دیئے۔ میں نے اپنے خاوند سے تعلق توڑ لیا۔ میں نے اس سے بات کرنی چھوڑ دی۔ منہ لگانا چھوڑ دیا۔ اور تم سمجھتے ہو کہ میں ہوس پوری کرنے کے لیے تمہاری طرف بڑھی تھی۔“ وہ رک گئی۔ کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی۔ ایلی چپ چاپ بیٹھا تھا۔

“ میں بھی احمق ہوں ------“ وہ بولی۔ “ جو یہ سمجھ بیٹھی کہ میں تمہاری نگاہ میں بہت کچھ ہوں۔ مجھے کسی کی نگاہ میں بہت کچھ ہونے کی ہوس تھی۔ میں نے سمجھا مجھے دو جہاں کی امارت مل گئی۔ میں نے لوگوں کی نگاہ میں ذلیل ہونا گوارا کیا، میں نے لوگوں کے طعنے سننا گوارا کیا۔ میں نے اپنی ماں کی زبان سے وہ وہ لفظ سنے جو کوئی سن کر برداشت نہین کر سکتا۔ میں نے تمہاری ماں بہن کے ننگے طعنے سنے اور ہنستی رہی۔ میں نے تمہارے طعنے سنے۔ تم یہ سمجھتے رہے اور سمجھتے ہو کہ میں ہر آتے جاتے کو مسکرا مسکرا کر اپنے دام میں پھنساتی ہوں۔ تا کہ اپنی آگ کو ٹھنڈا کر سکوں۔ میں نے تمہارا جلاپا بھی برداشت کیا اور یہ سب کس لیے۔ کیا صلہ مجھے۔ کہ اب تم مجھے ------ تم ------ اپنی ہوس کا شکار بنا رہے ہو۔ تماری نگاہ میں میری کوئی وقعت نہیں۔ تمہارے لیے میں ایک دل بہلاوا ہوں۔ ہوس پوری کرنے کا ذریعہ ہوں۔“

وہ رونے لگی۔

ایلی چپ چاپ بیٹھا تھا۔

“ یہ میری اپنی بدقسمتی ہے۔ خاوند ملا جو پہلے ہی کسی کی محبت میں پاگل تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا ہی نہیں۔ جب بھی وہ میرے پاس آیا تو اس کی نگاہ میں میں نہیں انور ہوتی تھی۔ گویا وہ اور انور اکٹھے ہوتے تھے۔ وہ اور انور۔“ وہ یوں ہنسی جیسے چینی کا پیالہ تڑختا ہے۔ “ اور میں میں تو کہیں تھی ہی نہیں۔ اکیلی ساتھی کے بغیر۔ انور سے ملانے کے لیے مجھے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اب تم ہو ------ تم سادی کو بھولنے کے لیے تم ------ مجھے استعمال کر رہے ہو۔“ یہ کہہ کر وہ مڑی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ ایلی چپ چاپ بیٹھا سوچتا رہا۔

اس کے ذہن میں ایک خلا پھیل رہا تھا۔ ایک دھندلکا۔

شہزاد سچ کہتی تھی۔ امرتسر سے واپسی کے بعد ایلی کا گویا نقطہ نظر ہی بدل گیا تھا۔ اس کے لیے شہزاد اب ایک خوبصورت عورت تھی۔ وہ اس کی طرف یوں دیکھتا تھا جیسے بچہ مٹھائی کی ٹوکری کی طرف دیکھتا ہے۔ ایلی کی نگاہ میں شہزاد کے ماتھے کی بندی معدوم ہو چکی تھی۔ اس کی دیوی نما آنکھیں ایلی کی نگاہ سے گویا اوجھل ہو گئی تھیں۔ ان کی بجائے شہزاد کے جسم کی گولائیاں ابھر آئی تھیں۔ اس کے کولھے مٹکنے لگے تھے۔ اس کی کمر ریشمی جھولے کی طرح جھولنے لگی تھی۔ اس کی سڈول پنڈلیاں برہنہ ہو گئی تھیں۔ اس کی نگاہ میں شہزاد دیوی نہیں رہی تھی۔ شہزاد کو دیکھ کر اب اس کی جبیں میں سجدے بیتاب نہ ہوتے تھے۔

لیکن ایلی اس واضح تبدیلی سے بے خبر تھا۔ اور اس سے بے خبر رہنے کے لیے اس نے کئی ایک جواز اور دلائل پیدا کر رکھے تھے۔

ایلی خود ہوس کار نہ تھا۔ اور ہوس کاری سے اس قدر بیگانہ تھا کہ محبت کا بہانہ بنائے بغیر وہ ہوس کاری کا کھیل نہیں کھیل سکتا تھا۔ اس کی ہوس کاری درحقیقت جذبہ کمتری سے بچنے کا ذریعہ تھی۔ شہزاد پر بھوکی نگاہیں ڈال کر وہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ مرد ہے اور اس قابل ہے کہ کسی سے محبت کر سے۔ در حقیقت وہ اپنی اہلیت کا سرٹیفیکیٹ پیش کر رہا تھا۔

یا شاید اس کی وجہ سادی سے محرومی ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
ماتھے کا تل

ایلی وہاں بیٹھا رہا حتٰی کہ سائے ڈھل گئے۔ شام پڑ گئی۔ پھر دیئے جل گئے اور لوگ چارپائیاں بچھا کر لیٹ گئے لیکن وہ جوں کا توں بیٹھا رہا۔

پھر رابعہ نے آ کر شور مچا دیا۔ “ یہ کیوں بیٹھا ہے۔ اٹھ باہر آ۔ یہاں کیا کر رہا ہے تُو۔“

ایلی کو خاموش دیکھ کر اس نے شہزاد کو آوازیں دیں۔ “ دیکھ تو اسے کیا ہے۔ یہ کیوں سادھو بنا بیٹھا ہے۔“ “ کیا ہے۔“ شہزاد اکتائی ہوئی آواز میں بولی۔

نو بجے کے قریب بیگم آ کر بولی۔ “ یہ بدھ مہاراج یہاں آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔“

پھر ہاجرہ اور فرحت آ گئیں ------ وہ دونوں چیختی چلاتی رہیں۔ لیکن ایلی جوں کا توں بیٹھا رہا۔ گیارہ بجے کے قریب شہزاد آئی۔

“ اب کیوں مجھے ذلیل کر رہے ہو۔“ اس نے کہا۔ “ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو۔ نہ جانے غصے میں میں کیا کیا بک گئی ہوں۔“

“ نہیں تم نے تو کچھ نہیں کہا۔ “ ایلی نے جواب دیا۔ تو پھر تم اس طرح کیوں بیٹھے ہو۔“ وہ بولی۔

“ کس طرح بیٹھوں۔“

“ جس طرح روز بیٹھتے ہو۔ ہنسو کھیلو۔“

“ کیسے کھیلوں، کیسے ہنسوں، کب تک ڈھیٹ بن کر ہنستا رہوں۔“

“ چلو اب اٹھ بیٹھو۔“ شہزاد نے پیار سے اپنا ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دیا۔

“ شہزاد“ وہ بولا

‘ جی “

“ میری ایک بات مانو گی۔“

“ کیا “

“ چلو کہیں چلے جائیں۔“

“ چلے جائیں۔“

“ ہاں کہیں بھاگ جائیں۔“

“ پاگل ہو گئے ہو۔“ وہ ہنسی۔ “ میرے ساتھ بھاگ کر اپنی زندگی تباہ کرو گے کیا۔“

“ ویسے بھی تو تباہی ہے۔“ وہ بولا۔

“ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔“ وہ اس کے قریب تر ہو گئی۔

“ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا۔ میں پاگل ہوا جا رہا ہوں۔“

“ ایسی باتیں نہ کرو۔“ وہ بولی۔ “ مجھے اکساؤ نہیں۔ اگر ایک مرتبہ میں نے پر تول لیے تو ایک ایسا طوفان بن جاؤں گی کہ تمہیں، اپنے آپ کو اور ان سب کو تیاہ کر دوں گی۔ مجھے نہ اکساؤ ایلی۔ اس حجاب کو نہ توڑو۔ اس طوفان کو رکا رہنے دو۔ بس میرے لیے یہی بہت ہے کہ تم میرے پاس ہو۔ تمہیں پا لیا تو زندگی۔ تمہیں کھو کر میری موت ہے۔ اور جو میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں تو میں تمہیں پاؤں نہیں۔ کھو دوں گی۔“

“ مجھے اپنا ہاتھ دے دو۔“ ایلی نے شہزاد سے کہا۔

“ میرا بس چلے تو میں اسے کاٹ کر تمہیں دے دوں۔“ وہ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی۔

ایلی نے شہزاد کا ہاتھ تھام لیا۔

“ ہونہہ۔“ بیگم اندر آ کر ہنسی۔ “ یہاں تو کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔“ وہ غصے سے بولی۔

شہزاد نے بیگم کو دیکھ کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہ کی۔ بلکہ دوسرا ہاتھ بھی ایلی کو دے دیا۔

“ توبہ بے حیائی کی کوئی حد ہوتی ہے۔“ بیگم بولی۔

“ نہیں اماں۔“ شہزاد نے ہنس کر کہا۔ “ بے حیائی کی حد نہیں ہوتی حیا کی ہوتی ہے۔“

“ توبہ ہے لڑکی۔“ وہ چلائی۔ “ تو نے یہ گھر رنڈی کا چوبارہ بنا رکھا ہے۔“

“ ہی ہی ------ چوبارہ۔“ وہ ہنسی۔

“ شرم نہیں آتی“ بیگم بولتی بکتی ہوئی باہر نکل گئی۔

اس کے جاتے ہی شہزاد کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

“ تمہیں پانے کے لیے ایلی مجھے نہ جانے کیا کیا دینا پڑے گا۔ لیکن میں سب کچھ دے دوں گی۔ سب کچھ۔ خوشی سے لیکن تم میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو۔ سب مجھے رنڈی سمجھتے ہیں۔ پڑے سمجھیں۔ لیکن تم مجھے رنڈی نہ سمجھو۔ اس کی ہچکی نکل گئی۔

ایلی کی نگاہ میں اس کے جسم ------ کی گولائیاں سمٹ کر معدوم ہو گئیں ------ شہزاد کا چہرہ پھر سے طلوع ہو گیا۔ دیوی لوٹ آئی۔ اس کے ماتھے کا تل روشن ہو گیا۔

اس روز شہزاد کی باتوں نے ایلی کو چونکا دیا۔ وہ ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔

علی پور میں پندرہ روز اس نے سوچنے میں گزار دیئے۔ کیا مجھے سادی سے محبت ہے یا شہزاد سے۔ اس روز جب میں پہلی مرتبہ شہزاد کا حنا مالیدہ ہاتھ تھاما تھا کیا اس لیے تھاما تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو چکی تھی یا اس لیے کہ وہ ایک بانکی عورت تھی جسے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیا مجھے سادی سے محبت ہے۔ کیا میں نے محسوس کرنے کے بعد اس سے محبت جتائی تھی۔ کیا یہ غلط ہے کہ کال کلوٹا کی خفت مٹانے کے لیے میں نے اس جیتنے کی کوشش کی تھی۔ اور اپنی انا کو تسکین دینے کے خیال سے اسے جیت لیا تھا۔ تو کیا مجھے سادی اور شہزاد دونوں سے محبت نہیں۔ تم سے بھی تو مجھے محبت نہ تھی۔ میں نے اپنے باپ سے انتقام لینے کے لیے اس سے محبت رچائی تھی۔ تو محبت کیا ہے۔ کیا مجھے کسی سے بھی محبت نہیں تھی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔

اس کے باوجود ایلی کے دل میں شہزاد کا احترام تھا۔ اس کی آرزو تھی۔ لیکن سادی کے لیے اس کے دل میں ایک جذبہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے پا لے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں چھپی ہوئی آرزو تھی کہ وہ شہزاد کے سحر سے نکل کر نارمل زندگی بسر کرئے۔ ساری بات ہی ایک الجھاؤ تھی۔ اور اس الجھاؤ سے نکلنا ناممکن تھا۔ سوچ سوچ کر وہ تھک گیا اور پھر اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر پھینک دیا چلو کہیں تو کنارے لگوں گا۔

لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ افق سے پرے ایک طوفان اکٹھا ہو رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایس - اے - وی

پندرہ روز کی چھٹی گزارنے کے بعد واپس ٹریننگ کالج لاہور جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایک معمولی سے نوکر کی بات کا یقین کر لینا کتنی مضحکہ خیز بات تھی۔ اگر اس روز شہزاد ایلی سے بات نہ کرتی، اگر وہ ایلی سے احتجاج نہ کرتی۔ اگر ایلی کی نگاہ میں شہزاد کا جسم چھائے رہتا اور اس کا ماتھے کا تل طلوع نہ ہوتا اور وہ سوچ میں نہ کھو جاتا تو وہ غالباّ لاہور نہ جاتا۔ اور اس کی زندگی کا دھارا کسی اور طرف بہتا۔ لیکن اس ایک چھوٹی سی تفصیل نے حالات کا رخ بدل دیا۔

ایلی کو گامے کی بات کا چنداں یقین نہ تھا۔ وہ صرف اس خیال سے لاہور جا رہا تھا کہ چلو چند روز کے لیے سینما دیکھیں گے۔ شاید کسی نوکری کا پتہ چل جائے۔ شاید سادی کے متعلق کوئی خبر ملے۔ نہیں تو سیر ہی سہی۔

جب وہ روانہ ہونے لگا تو شہزاد آ گئی۔

“ تم اس قدر خاموش کیوں ہو“ وہ بولی۔ “میں کیا کروں، اگر تمہارا ہاتھ نہ روکوں تو میں اپنی نگاہ میں آپ گر جاتی ہوں اور روک دوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے چونکہ تم برف کی طرح جم جاتے ہو۔ کیا کروں میں۔“

وہ ہنس پڑا۔ “ جو جی چاہے کرو۔ تمہارے بس میں ہوں۔“

شہزاد کی آنکھوں میں محبت بھری چمک لہرائی۔ “ میں آؤں گی“ وہ بولی۔ “ میں خود تم سے ملنے آؤں گی۔ میں لاہور آؤں گی۔“

“ تم “ وہ بولا “ لاہور آؤ گی۔“

“ تم سے ملنے کے لیے میں سات سمندر پار جا سکتی ہوں۔ یہ تو لاہور ہے۔“

لاہور بورڈنگ پہنچتے ہی گاما دوڑا ایلی کے پاس آیا۔ “ آ گئے بابو جی بڑا اچھا کیا۔ میرا انعام ساتھ لائے ہیں نا۔“

ایلی نے حیرت سے گامے کی طرف دیکھا۔ کیا واقعی اسے اپنی بات پر اس قدر یقین تھا۔ بہرحال اسے سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہو گا۔

اگلے روز جب ایلی کلاس میں پہنچا تو ایک نہیں چھ لڑکے غیر حاضر تھے۔ وہ لڑکے جن کو چن لیا گیا تھا اور جن کے نام رجسٹر میں درج تھے۔ دفعتاّ ایلی کی نگاہ سے گویا پردہ ہٹ گیا۔

گاما ہنسنے لگا۔ “ بابو جی ہر بار ایسا ہوتا ہے۔ کسی کو نوکری مل جاتی ہے۔ کوئی کسی اور لین میں چلا جاتا ہے۔ کوئی ویسے ہی نہیں آتا۔ ہر سال دس ایک بابو چھٹیوں کے بعد نہیں لوٹتے۔ بس پھر جو موجود ہو اس کا نام رجسٹر پر آ جاتا ہے۔ ہاں بابو جی تو ڈائٹری ملاحظہ ہو گا۔ نہ جانے کتنے اس میں کٹ جائیں گے۔“

چوتھے روز ہی ایلی نے جماعت میں شور مچا دیا۔ جی میرا نام آپ بولتے ہی نہیں۔ میں بیٹن لشٹ والا ہوں۔ میرا نام رجسٹر میں نہ ہو گا تو حاضریاں کیسے پوری ہوں گی۔“ ایلی کا نام رجسٹر میں درج کر لیا گیا۔

سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارت بھاٹی دروازے کے قریب ایک وسیع چوگان میں واقع تھی۔ ایک طرف کالج کی عمارت تھی جس کے شرقی اور غربی پہلو میں بڑے بڑے لان تھے۔ شمال میں بورڈنگ کی عمارت ایک وسیع دائرے میں بنی ہوئی تھی۔ صدر دروازے کے ارد گرد دو رویہ کمرے تھے جن کے اوپر چوبارے بنے ہوئے تھے۔ اوپر کی منزل میں بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ لالہ جی مقیم تھے۔ نچلے کمروں میں ملاقات کا کمرہ۔ کومن روم اور دیگر کمرے تھے۔ ان کمروں سے گزرنے کے بعد بورڈنگ کا وسیع صحن تھا جس میں لان بنے ہوئے تھے، ایک باغیچہ تھا۔ لان کے اختتام پر ایک اونچی دیوار تھی جس میں سات دروازے کھلتے تھے۔ نیز دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی ایک بہت لمبا صحن، جس کے ساتھ ساتھ ایک برآمدہ اور ایک بہت لمبا کمرہ تھا۔ یہ لمبا کمرہ ڈارمیٹری کہلاتا تھا۔ اسی ساخت کی کل چھ ڈارمیٹریاں تھی۔ ہر ڈارمیٹری میں 25 لڑکوں کے رہائش کی جگہ تھی۔ ساتویں ڈارمیٹری میں کچن، نوکروں کے رہنے کی جگہ اور ڈائینگ ہال تھے۔

چند ایک ڈارمیٹریوں میں ہر سیٹ کے بعد ایک چھوٹی سے پارٹیشن لگی تھی۔ یہ ڈارمیٹریاں بی ٹی کے طلباء کے لیے مخصوص تھیں۔ پارٹیشن کے بغیر جتنی ڈارمیٹریاں تھیں وہ سب ایس اے وی کے طلباء کے لیے مخصوص تھیں۔ بورڈنگ میں داخل ہونے کے لیے صدر دروازے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ ڈارمیٹریوں کے گرد اونچی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ باہر کھلنے والی کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط جالی لگی ہوئی تھی۔

یہ بورڈنگ دوسرے کالجوں کے عام بورڈنگ کی طرح نہیں تھا۔ یہاں بہت سی قیود اور پابندیاں تھیں۔ باہر کا مہمان بورڈنگ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ مہمان کو ملنے کے لیے لڑکے کو باہر ملاقاتی کمرے میں جانا پڑتا۔ رات کو دس بجے صدر دروازہ بند کر دیا جاتا۔ اس کے بعد کسی کو اندر آنے کی اجازت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جا کر رجسٹر میں حاضری لگاتے اور غیر حاضر طلباء کی رپورٹ کی جاتی اور عادی طور پر غیر حاضر رہنے والے کو کالج سے نکال دیا جاتا۔ ایلی کو وہاں آٹھ مہینے گزارنے تھے۔

اسی روز نہ جانے کیوں وہ چلتے چلتے ملاقاتی کمرے میں رک گیا۔ اچھا خاصا کمرہ ہے۔ اس نے سوچا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور پھر سوچتے سوچتے نہ جانے کہاں جا پہنچا۔ اگر منصر ملنے آئے تو وہ یہاں آئے گا اور پھر ------ “

“ ارے تم۔ “ جی کے اندر جھانکتے ہوئے چلایا۔

ایلی چونکا۔

“ تم یہاں ------ کس سے ملنے آئے ہو۔ کیا مجھ سے؟“

“ تم جی کے تم یہاں۔“ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

“ میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ میں یہاں ہوں۔“

“ تم یہاں ہو۔“ ایلی نے تعجب سے بولا۔

“ تم کس سے ملنے آئے ہو۔“

“ کسی سے بھی نہیں۔“

“ تو پھر۔“

“ بھائی میں یہاں ہوں۔“

“ یہاں تو ہو لیکن کس طرح آئے ہو۔“ جی کے بولا۔

“ بھائی میں اسی کالج میں ہوں۔“

“ کیا کہا۔“

“ کیا تم بھی یہاں داخل ہوئے ہو۔“

“ بالکل ------ لیکن یار یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اتنے دن سے ہم دونوں یہاں ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں۔“

“ تم تو بی ٹی میں ہو گے۔“

“ ہاں ہاں “

“ میں تو ایس اے وی میں ہوں۔“

“ پھر بھی رہتے تو اسی بورڈنگ میں ہو نا۔“

جی کے نے ایلی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کھینچتا ہوا اسے ملاقاتی کمرے سے باہر لے گیا۔ وہ ناچ رہا تھا۔ چیخ رہا تھا، تالیاں بجا رہا تھا۔ “ یار یہ تو بہت اچھا ہوا۔ بہت اچھے بہت اچھے، دونوں اکٹھے رہیں گے۔ ادھر آؤ ادھر۔“ وہ اسے ڈیوڑھی سے ملحقہ ایک کمرے کی طرف لے گیا۔

“ یہ کدھر لیے جا رہے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔

ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچ کر اس نے ایلی کو کرسی میں بٹھا دیا۔ “ اب آرام سے بات کرو۔ وہ چائے پلاؤں گا تمہیں کہ ناؤ گھر بھول جاؤ گے۔“

“ لیکن یہ کمرہ کس کا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ میرا اپنا کمرہ ہے۔“ پال نے چھاتی ٹھونک کر کہا۔

“ لیکن یہاں تو ڈارمٹریوں میں رہتے ہیں سب۔“

“ پڑے رہیں۔ میں تو ان خچر پاتری اصطبلوں میں نہیں رہ سکا۔ اور اب تم بھی یہیں رہو گے۔“

“ کیا مطلب؟“

“ مطلب یہ کہ ابھی اپنا سامان یہاں منگوا لو۔ ویسے تو چار سیٹوں کے لیے ہے۔ لیکن ہم اسے ڈبل سیٹر بنا لیں گے۔

“ لیکن سپرنٹنڈنٹ۔“

“ لالہ جی۔“ وہ چلایا “ لالہ جی میری ہر بات مانتے ہیں۔ ان کا فکر نہ کرو۔“

ایلی کا سامان اسی روز جی-کے کے کمرے میں آ گیا اور وہ دونوں وہاں اکٹھے رہنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چھ لڑکیاں

سنٹرل ٹریننگ کالج میں زندگی ایک محور کے گرد گھومتی تھی۔ اور یہ محور چھ لڑکیاں تھیں۔ یہ لڑکیاں بی ٹی کلاس کی طلباء تھیں۔ دن بھر کالج کے وقت بی ٹی کے طلباء شدت سے محسوس کرتے کہ وہ کلاس میں بیٹھی ہیں۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سن رہی ہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی ہیں۔ صرف لڑکے ہی نہیں بیشتر پروفیسر بھی ان کی موجودگی کا شدید احساس رکھتے تھے۔

ایس اے وی کے طلباء کو یہ احساس ہوتا کہ ساتھ والے کمرے میں لڑکیاں ہیں، ایک نہیں چھ۔ اور ان کے اپنے کمرے میں کوئی بھی نہیں۔ اور ابھی جب وہ حساب کا پیریڈ ختم کر کے برآمدے سے گزر کر جخرافیہ پڑھنے کے لیے جائیں گے تو راستے میں گزرتے ہوئے انہیں دیکھیں گے۔ وہ نیچی نگاہ کیئے بیٹھی ہوں گی۔ یوں کام میں منہمک ہوں گی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو مگر اس کے باوجود انہیں سب خبر ہو گی۔ ہر لڑکا یہ سوچتا کہ وہ اس کی چال دیکھیں گی۔ یہ دیکھیں گی کہ اس نے کیسے کپڑے پہن رکھے ہیں، ٹائی کس رنگ کی ہے۔ بال کیسے بناتا ہے۔ اور اس کا انداز کس قدر رومانٹک ہے۔ کالج سے فارغ ہو کر جب وہ بورڈنگ میں آتے تو آپس میں ان کے متعلق بحثیں کرتے۔

“ بھئی مس رومو بڑی چالاک ہے۔ بن دیکھے بات تاڑ جاتی ہے۔“

“ یار آج مس مینا کے حد کر دی۔ دفعتاّ ایسی نگاہ ڈالی کہ اپنے ہوش گم ہو گئے۔“

“ آج مس رادھا شام کے ساتھ ٹک شاپ میں گئی تھی۔“

“ اور وہ دیکھا تھا تم نے مس مینا نے کیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ یار بڑا کلر سنس ہے اسے۔“

وہ لڑکیاں چنداں خوب صورت نہ تھیں۔ نہ ہی ان میں زندگی کی خصوصی چمک تھی۔ وہ سب سنجیدہ اور خاموش تھیں۔ اس کے باوجود ان کی توجہ کا مرکز ہونا۔ وجہ فقط یہ تھی کہ اس زمانے میں کسی کالج میں مخلوط تعلیم رائج نہ تھی۔ سنٹرل ٹریننگ کالج واحد لالج تھا جس میں لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پاتی تھیں۔ اسی وجہ سے گورنمنٹ اور مشن کالج کے طلباء بھی بہانے بہانے سنٹرل ٹریننگ کالج آیا کرتے تھے تاکہ ایک نظر انہیں دیکھ سکیں اور اگر ممکن ہو تو ------ شاید کوئی راستہ نکل آئے۔

بی ٹی کے پانچ چھ لڑکے تو ہر وقت ان کے گلے کا ہار بنے رہتے تھے۔ وہ جیب میں زائد پنسل اور قلم رکھتے اس بات کے منتظر رہتے کہ کب ان میں سے کسی کے قلم کی سیاہی ختم ہو یا پنسل کا سکہ ٹوٹ جائے تا کہ انہیں پنسل یا قلم پیش کر سکیں۔

وہ بڑی محنت سے کلاس کے لیکچروں کے لوٹ لکھتے اور بورڈنگ آ کر بنا سنوار کر انہیں نقل کرتے کہ شاید لڑکیوں کو نوٹ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہو۔ جیب میں زائد رومال اٹھائے پھرتے، نہ جانے کب کوئی لڑکی لان میں بیٹھنا چاہے تاکہ وہ فوراّ رومال گھاس پر بچھا دیں۔ ان لڑکوں کو کوٹ بردار کہا جاتا تھا چونکہ وہ لڑکیوں کے کوٹ اٹھائے پھرتے تھے۔ اکثر لڑکے طنز سے انہیں وکٹ بردار کہا کرتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ کوٹ برداری ایک بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی لڑکی کسی کو اپنا کوٹ اٹھانے کے لیے دے دیتی تو وہ لڑکا پھولے نہ سماتا اور اس بات پر فخر کرتا۔ دوسرے لڑکے اس کا مذاق اڑاتے، درپردہ اسے تحسین بھری نظروں سے دیکھتے۔

ایلی کے لیے یہ محور قطعی طور پر دلچسپی سے خالی تھا۔ ان چھ میں نہ تو کوئی سادی تھی اور نہ شہزاد۔ اور پھر وہ تھیں بھی کیا، ایک دو تو والدہ قسم کی تھیں، ایک دو وہ چیزیں بن چکی تھیں جو کتابیں جمع عینک جمع دبلا پن جمع جلی کٹی نگاہ جمی نسوانیت کا فقدان کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ دو ایک البتہ قبول صورت تھیں مطلب ہے اچھی خاصی، وہ خاموش رہتی تھیں۔ ہنستی نہ تھیں کہ کوئی ان کی ہنسی کو التفات نہ سمجھ لے۔ آنکھیں نہ مٹکاتی تھیں کہ کوئی ان کی چتون کی جنبش کو اشارہ نہ سمجھ لے، کھل کر بات نہیں کرتی تھیں کہ کوئی بات منہ سے نکل نہ جائے۔

ایلی کے کانوں میں ابھی تک سادی کی باتیں گونجتی تھیں۔ اس کی نگاہوں میں شہزاد کے ماتھے کا تل شنگرف کی طرح چمک رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایلی کے لیے وہ چھ لڑکیاں جاذبِ نظر تھیں۔ جماعت میں بیٹھے ہوئے وہ یہ آرزو کرتا کہ جلدی پیریڈ ختم ہو اور وہ برآمدے سے گزرے۔

موٹی موٹی کتابیں

سنٹرل ٹریننگ کالج میں داخل ہوتے ہی ایلی پنجاب پبلک لائبریری کا ممبر بن گیا تھا جہاں سے اسے بیک وقت آٹھ کتابیں مستعار مل سکتی تھیں اور وہ ہر ہفتے موٹی موٹی ضحیم کتابیں چن کر لایا کرتا تھا۔ ایلی نے کتابوں سے از سرنو دلچسپی پیدا کر لی تھی۔ اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ لڑکے لڑکیوں سے کتابوں کی باتیں کیا کرتے تھے۔

“ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے کیا۔“

“ فلاں مصنف نے تعلیم کے متعلق ایک انوکھی تھیوری پیش کی ہے۔“

“ نفسیات میں دلچسپی ہو تو فلاں مصنف کا مطالعہ کرو۔“

ایلی کالج کے اوقات میں کتابیں لانے کا خاص پروگرام بنایا کرتا تھا۔ اگرچہ اسے کافی لمبا چکر کاٹنا پڑتا لیکن لائبریری سے آتے ہوئے وہ ایسا راستہ اختیار کرتا کہ واپسی پر اسے کالج کے برآمدے سے گزرنا پڑے اور وہ کتابوں کے اس انبار کو یوں اٹھائے برآمدے سے گزرتا جیسے اسے خبر ہی نہ ہو کہ وہاں بی ٹی کلاس میں لڑکیاں بیٹھی ہیں اور وہ اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہی ہیں۔ جب وہ کتابیں اٹھائے ہرئے ہوتا اس وقت اس کے لیے ضروری ہو جاتا کہ وہ لڑکیوں کی طرف قطعی طور پر نہ دیکھے لیکن وہ اس انداز سے اٹھاتا کہ ان کی پشتیں واضح طور پر دکھائی دیں۔

جاہ کی صحبت کی بدولت ایلی چند ایک مشہور مصنفوں کی کچھ کتابیں پڑھ چکا تھا۔ اس مطالعہ کی ابتداء برٹرنڈ رسل سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے بکسلے ہالڈین شاپن ہار سنتایانا کی چند ایک کتابیں پڑھی تھیں۔ پھر انصار منصر سے متاثر ہو کر اس نے داستو وسکی اور انگریزی نظموں کا مطالعہ کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اسے مطالعہ سے براہ راست خاص دلچسپی نہ تھی۔ جب کبھی سادی کی یاد اسے ستاتی تو وہ اپنی توجہ منعطف کرنے کے لیے نطشے یا برگستاں کو کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کرتا یا جب کبھی شہزاد کے رویے سے وہ محسوس کرتا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہو رہی ہے تو وہ احتجاجاّ کتاب لے کر بیٹھ جاتا اور بصد مشکل اس کے چار ایک صفحات پڑھتا لیکن پھر اسے نفسِ مضمون سے دلچسپی محسوس ہونے لگتی اور اس طرح اس کا مطالعہ منفی حثیت چھوڑ کر اثباتی حثیت اختیار کر لیتا۔ بہرحال مطالعہ اس کے لیے محض فرار تھا۔

سنٹرل ٹریننگ کالج میں بھی اسے زیادہ تر دلچسپی کتابیں لانے اور ان کی نمائش کرنے سے تھی۔ کتابیں جو وہ لاتا تھا، تمام فلسفے سے متعلق ہوتی تھی یا فزیکس کے ایسے مسائل کے متعلق جن میں فلسفے کا رنگ حاوی تھا۔ ناول پڑھنے سے اسے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ چونکہ ناول میں عشق و محبت کی داستانیں ہوتی تھیں اور پڑھتے ہوئے اسے شہزاد کا کمرہ یاد آ جاتا، سادی کے مکان کی وہ سیڑھیاں جہاں وہ رات کے اندھیرے میں ملا کرتے تھے اس طرح مطالعے کا مقصد فوت ہو جاتا۔ اس سنجیدہ قسم کے مطالعے سے اس کے جذبات کی چھلکن تو دور نہ ہو سکتی البتہ اس کے چہرے پر عجیب قسم کی کرختگی سی پیدا ہو گئی۔ جیسے زیادہ اُبلے ہوئے انڈے پر ہوتی ہے۔ اس کا چہرہ لمبوترا ہوا جا رہا تھا ٹھوڑی نکلتی آ رہی تھی۔ اور پیشانی پر گہری تیوری قائم ہوئی جا رہی تھی۔

شاید ایلی ان نمائشی کتابوں کو کبھی نہ پڑھتا لیکن جی کے کے طعنوں نے اسے مجبور کر دیا۔ ان طعنوں سے مخلصی پانے کے لیے چاروناچار اسے ہر روز کتابیں کھول کر بیٹھنا پڑتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
جی کے

جی کے کے ایک نہیں بلکہ دو مزاج تھے۔ وہ بیک وقت بے حد خوش مزاج اور بہت دکھی آدمی تھا۔ اس دو مزاجوں کی کھینچا تانی جی کے کی زندگی کا حاصل تھی۔ جب وہ چپ ہوتا تو بالکل ہی چپ ہو جاتا۔ اس کی طوطا نما خمدار ناک کی دیوار پر بدمزاجی کا ڈھیر لگ جاتا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں دکھ کے انبار لگنا شروع ہو جاتے۔ جب وہ بات کرنے کے موڈ میں ہوتا تو وہ باتیں کیئے جاتا۔ شور مچاتا، مذاق کرتا، شوخ باتیں کرتا۔ اس وقت اس کی کیفیت یوں ہوتی جیسے سوڈے کی بوتل کھل گئی ہو۔ چھینٹے اڑتے بلبلے اٹھتے اور سب کو بھگو دیتے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ جی کے کا اصلی مزاج کونسا تھا اور نقلی کونسا۔

بہر صورت ایلی کے نزدیک جی کے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی انا پسندی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو درست سمجھتا تھا اپنی بات کو حق تصور کرتا، اپنے جذبات کو خارجی حالات کا مناسب ردِ عمل سمجھتا تھا۔

جی کے ازلی طور پر آقا طبیعت کا مالک تھا۔ اس کا برتاؤ محبت رعونت کرختگی خود اعتمادی اور ذہانت کا مجموعہ تھا۔ وہ اپنے حلقے کا از خود سردار بن جاتا اور پھر سردار مان لیا جاتا۔ اس بات پر ایلی کو بے حد غصہ آتا تھا۔ ایلی میں سردار بننے کی نہ تو ہوس تھی اور نہ اہلیت۔ وہ طبعاّ کسی کے پیچھے چلنے پر مجبور تھا لیکن جب پیچھے چلتا تو محسوس کرتا کہ اسے پیچھے چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اور یہ زیادتی ہے۔ لٰہذا اسے غصہ آنا شروع ہو جاتا۔ دراصل ذہنی طور پر ایلی میںشدت کی انفرادیت موجود تھی۔ ذہنی طور پر ایلی مضبوط تھا لیکن طبعی طور پر بے حد کمزور اور بودا تھا اس لیے جی کے کی انا پرستی سے بے حد نالاں تھا۔

مثلاّ ایلی کی کتابوں کو دیکھ کر جی کے طنزاّ چلاتا۔

“ ارے یہ کتابیں پڑھے گا کون۔“

“ کچھ نہ کچھ تو دیکھ لوں گا۔“ ایلی جواب دیتا۔

“ کیوں ان میں تصویریں ہیں کیا۔“ جی کے کی طنز شدت اختیار کر لیتی۔

“ نہیں تو۔“

“ تو پھر دیکھنے کا کیا مطلب؟“

“ مطلب ہے کچھ نہ کچھ پڑھوں گا۔“

“ یہ فرائیڈ، واٹسن، ایلس، جیم جینز ورڈز ورتھ، انہیں پڑھو گے تو تم، لیکن سمجھے گا کون؟“

“ تم جو ہو، تمہاری مدد سے کچھ پتہ چل ہی جائے گا۔“ ایلی طنزاّ کہتا۔

“ اونہوں، بھئی ہم تو حساب دان ہیں۔ حساب کا کوئی مسئلہ لے آؤ ------ لیکن یہ فلسفہ اور نفسیات اور جنسیات یہ اپنے بس کا روگ نہیں۔“

جی کے کی ان باتوں کی وجہ سے ایلی کو لازماّ ہر روز کسی ایک کتاب کو کھول کر بیٹھنا پڑتا ------ پھر وہ بھول جاتا کہ اسے صرف کتاب کھول کر بیٹھنا ہے پڑھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ پڑھنے کی جگہ وہ سادی کی خوش گپیوں کے متعلق سوچ سکتا ہے، شہزاد کے حسین جسم کا تصور کر سکتا ہے، پہلوئے حور میں لنگور کے واقعہ پر غور کر سکتا ہے لیکن اس واقعہ پر غور کرنا تو ایلی کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔ اب تو یہ صورت پیدا ہوئی جا رہی تھی کہ سادی کا خیال آتا تو اسے ٹھیس لگتی اور وہ شدت سے محسوس کرتا کہ سادی ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ نہ جانے کہاں چلی گئی۔ اگر وہ رہتی وہیں لاہور میں رہتی تو والد صاحب کا انکار بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی۔

جی کے کو کالج کی ان چھ لڑکیوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی۔

“ لاحول ولا قوۃ “ وہ چلاتا۔

“ یہ لڑکیاں سب کے اعصاب پر سوار ہیں۔ اور پھر لڑکیاں کہاں، وہ تو بیشتر عورتیں ہیں، والدہ قسم کی عورتیں۔ کیوں ایلی کیا تمہیں والدہ قسم کی عورت سے دلچسپی ہو سکتی ہے۔“

جی کے کا سوال سن کر ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا۔ اس کے روبرو صفیہ آ کھڑی ہوتی اور اپنے حنا مالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی۔ خاتم گورے گدے ہاتھوں سے اس کے گال سہلاتی۔ ایلی کو والدہ قسم کی عورت سے دلچسپی نہیں بلکہ عشق تھا۔ عورت درحقیقت اس کے ذہن میں بھرے بھرے جسم کی ایک گود تھی جس کے پہلوؤں پر بازو اور ہاتھ لٹکتے تھے، جو سہلانے اور تھپکنے کے لیے بےقرار تھے لیکن ایلی نے کھلے طور پر اس شدید جذبے کو کبھی اپنایا نہ تھا۔

“ لاحول ولا قوۃ“ وہ گویا شدت جذبات کا اظہار کرتا۔ “ نہ جانے کیوں یہ سب پاگل ہو رہے ہیں۔ کیوں پاگل ہو رہے ہیں۔ بتاؤ نا۔ بول۔“ جی کے ترنگ میں آ جاتا “ جواب دو۔“

“ یہ تو اپنی اپنی پسند ہے۔“ ایلی کو جی کے پر غصہ آنے لگتا۔

“ کیا مطلب“ وہ چلاتا “ نوجوان والدہ قسم کی عورتوں کو پسند کریں۔ عجیب بات نہیں کیا۔“

“ نوجوان نہ کریں تو کیا بوڑھے کریں گے۔“ ایلی جواب دیتا۔

“ تم بھی بیوقوف ہو۔“ جی کے جوش میں آ جاتا۔

“ ہم دونوں ہی بیوقوف ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تمہیں اپنی حماقتوں کا احساس نہیں۔“

“ بالکل غلط۔“ وہ چلاتا “ تم ہو گے، ہم تو نہیں۔ ہم تو دانش ور ہیں۔ دراصل یہ فرائیڈ پڑھ پڑھ کر تم اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہو۔ تم سے بات کرنا بے کار ہے۔ تم نہیں سمجھ سکتے۔“

جی کے اٹھ کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔ وہ خاموش رہ جاتا۔ اس کی ناک پر بدمزاجی کے ڈھیر لگ جاتے، آنکھوں سے دکھ جھانکتا۔ مظلومیت کی پھوار پڑتی۔

جی کے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بے حد مظلوم سمجھتا تھا۔ اسے یہ خیال تھا کہ وہ قربانی کا بکرا ہے۔ دوسروں کے مفاد کے لیے وہ اپنے خیالات یا مفاد کی قربانی نہیں دیتا تھا سمجھتا تھا کہ دے رہا ہے۔ لٰہذا وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا تھا۔ ایلی ------ اس قسم کے خیالات سے اسے مستفیذ کرتا تھا لیکن اس کے باوجود ایلی سمجھتا تھا کہ وہ خیالات غلط ہیں۔ ایک دوست کا اسے یوں جھٹلانا ------ اور پھر دوست بھی ایسا جس کے لیے اس نے کیا نہ کیا ہو۔

چپ ہو جانے سے پہلے جی کے ایلی کی طرف ایک نگاہ ڈالتا بالکل وہی “ واؤ ٹو بروٹس “ والی نگاہ۔ اور پھر سیزر کی طرح آرام کرسی میں گر جاتا اور ایلی کے متوقع خنجر کے وار کا انتظار کرتا ------ پھر اسے غصہ آتا کہ متوقع واس میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے۔ تاخیر کا مقصد یہ ہے کہ جی کے کرب میں اضافہ کیا جائے۔

ایلی کو یہ سب باتیں دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ اسے صرف جی کے کی پھولی ہوئی ناک نظر آتی تھی جس پر بدمزاجی کے انبار لگے ہوتے۔

پھر ان کے دوستوں میں سے کوئی آ جاتا۔ مثلاّ بابا، شام، پریم، رائے یا جان۔

“ ارے تم دونوں اندر بیٹھے ہو۔“ شام چلاتا “ ہائیں یہ الیاس اتنی موٹی کتاب پڑھ رہا ہے۔“

“ یہاں تو بڑی بڑی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اس کمرے میں۔“ جی کے بڑے رعب سے جواب دیتا۔

“ کیا ہے یہ ۔“ شام پوچھتا۔

“ تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی، پوچھنے کا فائدہ۔“

ایلی کو اس بات پر اور غصہ آتا۔ لو، ابھی ان موٹی کتابوں پر تمسخر کر رہا تھا اور اب ان پر فخر کا اظہار کر رہا ہے۔ اور وہ بھی ایسے انداز میں جیسے وہ کتابیں اس کی اپنی ہوں اور اس نے ایلی کو پڑھنے کے لیے مستعار دی ہوں اور ساتھ ہی نفس مضمون کو سمجھنے میں ایلی کی امداد کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہو۔

جی کے اکثر ایلی پر بھی فخر کا اظہار کیا کرتا تھا۔ لیکن اس اظہار پر ایلی کی عظمت کا عنصر نہ ہوتا بلکہ ایلی کی عظمت کا پہلو نکلتا۔ مثلاّ دوسروں کے روبرو وہ ایلی کی دوستی پر فخر کا اظہار کرتا تو ایسے محسوس ہوتا جیسے کہہ رہا ہو۔ دیکھا ہم وہ ہیں جس کے ایسے دوست ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بابا

لڑکیوں کے متعلق کئی ایک مختلف زاویہ نظر رائج تھے۔ بابا کا نقطہ نظر بہت دلچسپ تھا۔ بابا کا نام آئزک تھا۔ اس کی عمر چالیس برس تھی، چہرہ ڈھلک چکا تھا۔ جسم میں بیل کی سی بے حسی تھی۔ صرف آنکھوں میں شرارت چمکتی اور وہ بھی مخصوص اوقات پر۔ اس کے کل نو بچے تھے۔ بہت سی بیٹیاں اور تھوڑے سے بیٹے۔ اسے یاد نہیں تھا کہ وہ کب سے بچے پڑھانے کا کام کر رہا ہے۔ پوچھو تو کہتا “ بس سمجھ لو جب سے آدم نے پھل کھایا ہے تبھی سے پڑھانے کی نوکری کر رہا ہوں۔ شاید اس سے بھی پہلے سے۔ اور اب سالوں نے مجھے ریفریشر کورس کے لیے یہاں بھیج دیا ہے۔“

اس عمر کے باوجود بابا بنیادی طور پر محبوب واقع ہوا تھا۔ لڑکیوں کی بات چھڑ جاتی تو ہنس کر کہتا۔ “ یہ تم کون سی لڑکیوں کی بات کر رہے ہو۔ سارا دن سبھی لڑکیوں کا رونا روتے ہیں۔ ہم نے تو کوئی لڑکی نہیں دیکھی یہاں۔“

“ بابا “ ایلی چلایا “ ایک نہیں چھ ہیں چھ ۔“

“ ہوں گی بھائی۔“ وہ بے پروائی سے کہتا “ لیکن ہم نہیں مانتے۔ اگر وہ لڑکیاں ہیں تو بھائی خود بخود ہمارے پاس کھنچی چلی آئیں گی۔ آج تک تو ایسا کبھی نہیں ہوا اور خود بخود ہماری طرف نہ کھنچی چلی آئے۔“

“ دیکھا تو کرتی ہیں تمہاری طرف۔“ ایلی نے اسے چھیڑا۔

“ بابا۔“ جی کے چیختا۔ “ وہ تو والدہ قسم کی ہیں تمہارے جوڑ کی ہیں۔“

“ ابے تجھے کیا پتہ۔“ بابا ہنستا۔ تو دو اور دو چار کے سوا کیا جانتا ہے۔ جو والدہ قسم کی ہوتی ہیں۔ وہ تو الٹا اپنی گود ہری رکھنے کے لیے لمڈے تلاش کرتی ہیں۔ ہاں اگر لڑکی ہو تو وہ البتہ۔“ وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا “ مرد ڈھونڈے گی۔ دیکھ لینا ایک نہ ایک دن ہمارے پہلو میں پہنچ کر رہے گی۔ اگر ان میں کوئی لڑکی ہے تو۔ اور اگر نہیں تو ہٹاؤ سب کی سب تمہیں بخشیں۔“ وہ شام سے کہتا “ ہم گود میں بیٹھنے کے قابل نہیں بٹھانے کے ہیں۔“

بابا کی شخصیت میں ایک عجیب سی مٹھاس تھی۔ اس کے انداز میں جذباتی گرمی منعکس ہوتی تھی۔ ایک عجیب سا نگھ ۔ اس سے چاہے بات کرو نہ کرو ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ تمہارے پاس بیٹھا ہو۔ تمہارے دکھ درد میں برابر کا حصہ دار ہو۔ اول تو وہ بحث کرنے کا عادی ہی نہیں تھا اور اگر کبھی دوسرے کو جھٹلاتا بھی تو دوسرا محسوس کرتا کہ درحقیقت دل ہی دل میں وہ اس کا ہم خیال ہے۔ ویسے ازراہ مذاق اختلافِ رائے کا اظہار کر رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شام

شام گویا ناچتی ہوئی سورج کی ایک کرن تھی۔ جہاں بھی وہ پہنچ جاتا وہ جگہ انبساط کے دودھیا اجالے سے منور ہو جاتی۔ سنجیدہ سے سنجیدہ بحث کے دوران میں شام آ جاتا تو بحث خوش گوار گفتگو میں بدل جاتی۔ دلائل رنگین اشارات کا انداز اختیار کر لیتے۔

شام ایم-ایس-سی کر چکا تھا اور اب بی-ٹی میں اس لیے داخل ہوا تھا کہ اس زمانے میں نوکری ملنی بے حد مشکل تھی۔ لیکن اس کے رویے سے کبھی ظاہر نہیں ہوا تھا کہ وہ ایم-ایس-سی ہے۔ اس سے پوچھتے “ یار تم ایم-ایس-سی ہو۔“ تو وہ ہنس کر کہتا “ ایم-ایس-سی ہوتا تو اب اے بی سی میں کیوں داخلہ لیتا۔“

لڑکیوں کی بات چھڑ جاتی تو وہ ہنس کر چلاتا۔ “ یار ہم تو فیل ہو گئے۔ کوئی اپنی طرف تو دیکھتی ہی نہیں۔ حالانکہ قسم ہے پرماتما کی منہ پر روز کریم مل کر آتا ہوں۔ شیو کے بعد اسٹرجنٹ لگاتا ہوں۔ بال بڑی احتیاط سے بناتا ہوں۔ کلاس میں جان بوجھ کر چمکدار باتیں کرتا ہوں۔ ذہانت اور رنگینی سے بھرے ہوئے جتنے جملے یاد ہیں ان کا بروقت برمحل استعمال کرتا ہوں لیکن سب بے کار، وہ دیکھتی ہی نہیں اپنی طرف۔“

“ کونسی نہیں دیکھتی۔“ جی کے پوچھتا۔

“ کوئی سی ہے دیکھ لے بھائی اس میں کیا ہے۔ بھوکے کیک پیسٹری نہیں مانگا کرتے اور میاں وہ انگریز نے کہا ہے نا بھئی کیا خوب کہا ہے۔ “ بیگرز آر ناٹ چوزرز “ منگتے کس منہ سے چناؤ کریں۔“

“ ابے فکر نہ کر“ بابا چلاتا “ خود آ جائیں گی ایک نہ ایک روز۔“

“ فی الحال خط ہی بھیج دیں۔“ شام چلاتا۔

“ جو خط آ گیا تو مصیبت پڑ جائے گی۔“ جی کے شور مچاتا۔ “ پرماتما کے لیے مصیبت پڑ جائے۔ جلدی پڑ جائے۔“ شام کہتا۔ “ اس خیریت ہی خیریت سے تو ہم تنگ آ گئے۔ ڈر ہے کسی روز زہر نہ کھا لوں۔“

“ زہر خریدنے جاؤ گے تو مجھے بتا دینا۔“ ایلی کہتا۔

“ تو لو بتائے دیتے ہیں۔“ شام ہنستا۔

“ کیا مطلب جا رہے ہو خریدنے۔“ ایلی پوچھتا۔

“ نہیں خرید چکے ہیں۔“

“ کونسی والی ہے۔“

“ پوٹاشیم سائنیڈ۔ لیبارٹری سے اُڑائی ہے بڑی مشکل سے۔ جس روز موڈ خراب ہو ٹرنک کھول کر کپڑے تک نہیں بدلتا۔“

“ کیوں “

“ ڈرتا ہوں کہیں کھا نہ لوں۔“ شام مسکرا کر کہتا لیکن اس کی مسکراہٹ میں سنجیدگی چھلکتی۔

“ وہ کیسے ؟“

“ وہیں کپڑوں کے ساتھ ٹرنک میں رکھی ہے نا اس لیے ٹرنک نہیں کھولتا۔

“ لڑکیوں کو معلوم ہے کہ تمہارے ارادے خطرناک ہیں۔“ جی کے ہنستا۔

“ ارے یار اتنے دوست ہیں، لیکن کوئی نہیں بتاتا انہیں۔ آجکل سچا دوست کہاں ملتا ہے۔“

“ تو میں بتا دوں۔“ بابا کہتا

“ لو سن لو نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ شام چلاتا۔

“ کس کو بتاؤں؟“

“ باری باری سب کو بتا دو۔ ممکن ہے کسی کا دل پسیج جائے۔“ شام سنجیدگی سے کہتا۔

شام کی باتوں سے یہ محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ دکھاوے کی بات کر رہا ہے۔ یا رنگین گفتگو کی نمائش کر رہا ہے۔ اس کے انداز میں ایک عجیب قسم کی عجز اور خلوص تھا جو ایلی کو بے حد پیارا لگتا تھا۔

ایلی کو پڑھتے دیکھ کر شام جی کے کی طرح طنز نہیں کرتا تھا اس کے برعکس وہ حیرت سے دیکھتا اور کہتا۔

“ یار تم تو اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھتے جا رہے ہو اور یار لوگ اس پاکٹ بک میں کھوئے ہوئے ہیں۔“

“ کون سی پاکٹ بک۔“ ایلی پوچھتا۔

“ وہی لڑکیاں اور کون۔“

“ کون سی لڑکی۔“

“ کوئی سی۔ آج ایک نے رحم کھا کر اٹھانے کے لیے کوٹ دے دیا مجھے جب سے نشہ سا طاری ہے ------ طبیعت اتنی خوش ہے کہ جو مانگو گے ملے گا۔ جو کہو منظور۔ کہو تو ٹک شاپ سے کیک کھلا دوں۔“ وہ اپنی جیب ٹٹولتا۔ “ لو - پورا سوا روپیہ ہے کھا لو جو کھانا ہے آج ورنہ پچھتاؤ گے۔ ایسے سنہرے مواقع روز نہیں ملتے۔“

والدہ قسم کی لڑکیوں کے متعلق جی کے شام سے پوچھتا۔ “ یار تمہیں ان سے گھن نہیں آتی۔“

شام منہ بنا کر جواب دیتا۔ “ بے حد “ اس کے انداز سے سخت نفرت کا اظہار ہوتا۔ “ نفرت تو آتی ہے اور جب وہ لڑکیوں کی طرح چونچلے کرتی ہیں تو جی چاہتا ہے کہ منہ پر تھپڑ دوں۔“ شام جوش میں آ کر تھپڑ چلاتا۔

“ ہوں ------ یہ “

“ ہے نا ۔ “ جی کے کہتا۔

“ بالکل “ شام جواب دیتا۔ “ میرا تو اور بھی جی چاہتا ہے۔“

“ کیا؟“

“ یہ تھپڑ دوں۔“ شام پھر بازو ہوا میں زور سے گھماتا۔ “ پھر دفعتاّ اپنی اس حرکت پر اس قدر ندامت محسوس کروں کہ اس کے قدموں میں گر جاؤں اور پھر وہ مجھے اٹھا کر گود میں اٹھا لے اور پھر لوری دے کر سلا دے۔ یار مجھے زندگی میں کبھی کسی نے لوری دے کر نہیں سلایا۔ ماتا جی تو بالپن میں ہی چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔

شام کا بات کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ اس کی بات پر نکتہ چینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ سچ کہہ دیتا تھا۔ حالانکہ سچ کی نوعیت اس قسم کی ہوتی تھی کہ اسے کہہ دینے میں بے حد جرات کی ضرورت ہوتی۔ ایلی بھی چاہتا تھا کہ وہ سچی بات کہہ دے لیکن اس میں کبھی جرات پیدا نہ ہوئی۔ وہ ڈرتا تھا کہ لوگ کیا سمجھیں گے۔ وہ ڈرتا تھا کہ لوگ اسے اخلاق سے گرا ہوا سمجھیں گے۔ لیکن شام جب بھی اس قسم کی بات کرتا تو اس طرح سے اسے ادا کرتا جیسے اس میں ڈرنے یا لوگوں کے دلوں میں نفرت احتجاج یا کچھ اور پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایلی چاہتا تھا کہ وہ شام کر طرح باتیں کر سکے۔ سچی باتیں جن میں رنگینی اس قدر غالب ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کوئی اور ردعمل پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ لیکن ایلی کی یہ خواہش خالی خواہش ہی رہی اور اس میں اتنی جرات نہ پیدا ہو سکی کہ اس پر عمل کر سکے۔
 

شمشاد

لائبریرین
رائے

شام کے علاوہ اور لڑکے بھی تھے مثلاّ جان تھا۔ لیکن وہ تو گونگا تھا۔ بات سن کر ہنس دینے کے علاوہ اس نے کبھی کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ ان سب میں بیٹھ جاتا بیٹھا رہتا۔ ان کی باتیں سنتا رہتا اور مسکراتا رہتا۔ اس نے کبھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا۔

پھر رائے تھا ایک جذباتی لڑکا۔ کئی ایک باتوں میں وہ جمال سے بہت ملتا جلتا تھا۔ مثلاّ اپنی محبتوں اور محبوبوں کی باتیں سنانے کے لیے اسے ایک رازداں کی ضرورت تھی۔ ضروری نہ تھا کہ رازداں قابلِ اعتماد ہو یا اچھا مشورہ دے سکے یا کچھ اور۔ جہاں تک رائے کا تعلق تھا رازداں کے چناؤ کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ چونکہ اسے صرف ایک ایسے فرد کی ظرورت تھی جو اس کی باتیں سنتا رہے۔ ٹوکے نہیں، ایسا مشورہ نہ دے جو اسے قابل قبول نہ ہو۔ جب وہ حماقت کرنے پر تلا بیٹھا ہو تو عقل کی بات بتا کر اسے روکنے کی کوشش نہ کرئے بلکہ حماقتوں میں اسے شہہ دے۔ اس لڑکی کو جسے وہ حسین سمجھتا تھا عام لڑکی نہ سمجھے بلکہ اسے اہمیت دے اور اس میں وہ خوبیاں دیکھے جو بظاہر بالکل دکھائی نہیں دیتی ہوں۔ غرضیکہ اسے ایک سامع رازداں کی ضرورت تھی۔ اور اس رول کے لیے ایلی بے حد موزوں تھا۔ اس لیے رائے اسے اپنے تازہ ترین کارنامے سناتا رہتا تھا۔

ایلی نے کبھی غور سے رائے کی بات نہیں سنی تھی۔ اگرچہ وہ اس انداز سے سنتا تھا جیسے واقعی بڑے غور اور انہماک سے سن رہا ہو۔

بہرحال رائے کے قصے ایلی نے کبھی نہ سنے تھے۔ اس کے باوجود اسے ان کے متعلق چند ایک باتوں کا دھندلا احساس تھا مثلاّ رائے کی ایک محبوبہ گاؤں مین رہتی تھی اور وہ اسے ملنے کے لیے شدت سے بےقرار تھی۔ اور ہر پندرھویں روز اسے گاؤں بلا بھیجتی اور اگرچہ اس کے والدین کو اس کا رائے سے ملنا قطعی طور پر ناگوار تھا تاہم وہ رائے کے الفاظ سے اس قدر بولڈ تھی کہ اسے اپنے گھر ٹھہراتی اور پھر رات کے اندھیرے میں چپکے سے ملتی۔ اس پر بوڑھی ماں شدت غم سے پہلو بدلتی۔ باپ احتجاج کے طور پر بار بار کھانستا لیکن وہ بڑی بولڈ لڑکی تھی اور اس کی اس بولڈنس کی وجہ سے رائے کو اس سے والہانہ محبت تھی۔ رائے کی دوسری محبوبہ شہر میں رہتی تھی۔ مشن سکول میں استانی تھی اور اتنی قبول صورت اور اڈوانسڈ تھی کہ سبھی کرسچین نوجوان
 
Top